مولانا سید تراب علی شاہ راشدی
مولانا سید تراب علی شاہ راشدی (تذکرہ / سوانح)
مولانا پیر سید تراب علی شاہ سندھ کے نامور علمی و روحانی خانوادہ ’’خاندان سادات راشدیہ‘‘ کے چشم و چراغ تھے۔ تحریک خلافت کے دور میں برصغیر پاک و ہند میں شہرت پائی۔ تحصیل قمبر (ضلع لاڑکانہ) کے گوٹھ علی خان میںتولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
تراب علی شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے گوٹھ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے شہداد کوٹ کا رخ کیا۔ جہاں غوث الزمان، سند الفقہائ، حضرت علامہ مفتی خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی قدس سرہ الاقدس کی درسگاہ میں داخلہ لیا اور درسی کتب کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔
شادی:
بعد فراغت حضرت خواجہ صاحب نے اپنی صاحبزادی کی شادی، شاہ صاحب سے کرا کر حب اہل بیت کا عملی ثبوت دیا۔ اس طرح پیر تراب علی شاہ حضرت خواجہ کے شاگرد کے ساتھ داماد بھی بن گئے۔
بیعت:
پیر تراب علی شاہ شیخ طریقت حضرت علامہ سید احمد خالد شامی علیہ الرحمۃ(مدفون بمبئی) کے دست بیعت ہوئے۔ اور آپ ہی کی کوشش و کشش کی وجہ سے علامہ شامی ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء میں سندھ تشریف لائے ۔ اس طرح سندھ کے کئی علماء وسادات علامہ شامی کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔
لباس و سیرت:
شاہ صاحب عادات و اطوار اسلامی تہذیب کے مطابق تھے۔ انتہائی سادگی، محبت و اخلاص کے پیکر، اخلاق مصطفوی سے آراستہ سخی، مہمان نواز اور ہر وقت مہمان خانہ میںآمد و رفت رہتی تھی۔ نامور صحافی ، سیاستدان اور سابق وزیر و سفیر سید علی محمد راشدی اپنی مشہور کتاب میں آپ کی سیرت و لباس کے متعلق رقمطراز ہیں:
کھدر کی قمیض ، تہبند، بغل مٰں تھیلہ جس میں قرآن مجید دلائل الخیرات شریف، ہاتھ میں عصا یا کلہاڑی، پائوں میں بلوچستانی جوتہ، یہ تھا شاہ صاحب کا ظاہری لباس اس کے باجود انہیں دیکھنے کیلئے ہجوم کے قلوب تڑپتے تھے۔ ایک بار ملنے الے ہمیشہ ان کے ہو کر رہے اور بعض تو ہمیشہ کیلئے ان کے پاس ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گئے۔ (اھی ڈینھن اھی شینھن)
مدرسہ ارشاد العلوم کا قیام:
پیر سید تراب علی شاہ راشدی نے تحصیل قمبر کے گوٹھ کوُر سلیمان میں مدرسہ دارلفیض کے قیام کے بع دپانے گوٹھ علی خان میںمدرسہ ارشاد العلوم کی بنیاد رکھی (سندھ جا اسلامی درسگاہ ص۴۳۰)
صحافت:
شاہ صاحب زیادہ وقت دینی کتب کے مطالعہ میںگزارتے تھے۔ اچھے مضمون نویس تھے اور صحافت سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ اسلئے ’’الراشد‘‘ نام سے مجلہ جاری کی اجو کہ گو ناگوں مصروفیات کے سبب زیادہ عرصہ چل نہ سکا۔
سیاست:
تحریک خلافت (۲۰۔۱۹۱۹ئ) کے دور میں مولوی ابوالکلام آزاد جیسے چرب زبان، گاندھی جیسا مکار اور محمد علی جوہر جیسے جذباتی مقرر میدان عمل میں تھے۔ ایسے عالم یں درویش صفت مولوی حضرات، فقیر صفت پیر صاحبان، مذہب کے نام پر ان کی میٹھی میٹھی باتوں میں آگئے۔ علماء و مشائخ کو دیکھ کر عوام نے بھی گرم جوشی کا اظہار کیا۔ خلافت کو بحال کرانا دکھاوا تھا، اصل میں گاندھی کی قیامت کا اقرار و اعلان تھا۔ گاندھی مکار نے ’’ہندو مسلم بھائی بھائی‘‘ کا سبق اپنے مولویوں کو پڑھایا۔ یہی خلافتی حضرات انگریز دشمنی کے زبردست مظاہرے کرنے لگے ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کے قیام کے لئے گاندھی کی قیادت میں لوگوں کو جمع کرنے لگے، ہندو مسلم اتحاد کا پیغام گھر گھر پہنچانے لگے، خلافتی مسلمان لیڈر جوش میں تھے، ان کا ہوش اُڑ چکا تھا اسلئے انہیں آستین کا سانپ نظر نہیں آرہا تھا۔
خلافتی لیڈروں نے مسلمانوں کو سندھ سے افغانستان ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ یہ ہجرت ہندو لیڈر کی قیاد ت میں ہورہی تھی لیکن پھر بھی تعجب ہے کہ ہجرت کرنے والوں میں ایک بھی ہندو نہیں تھا۔ جنہوں نے ہجرت کی وہ روٹی کیلئے بھی ترستے اور تڑپتے رہے۔ مسلم لیڈروں نے جوشیلے بیانوں کے ذریعے مسلمانوں کی معیشت تباہ کر ڈالی۔ حیرت کی بات ہے کہ آج ان تحریکوں پر فخر کیا جارہا ہے۔
ایسے دور میں بریلی شریف سے امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی نے آواز حق بلند کیا کہ ایک کافر سے دشمنی دوسرے کافر سے دوستی کس اصول مسلمہ کے تحت؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ دونوں کافروں (ہندو انگریز) سے دشمنی کی جاتی۔ کیا گاندھی مکار تمہیں خلافت عثمانیہ بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوگا؟
فاضل بریلوی (نور اللہ مرقدہٗ) کی للکار پر ہوش ٹھکانے لگے، بصیرت والوں کی آنکھیں کھلیں بلکہ سینے چاک ہوئے اور پانی فاش سیاسی غلطیاں تسلیم کرنے لگے، علماء حضرات اور پیر صاحبان بحر ظلمات سے اس طرح نکلے جس طرح کوئی گہری نیند سے چونک جاتا ہے اور سوچنے لگے کہ چرب زبانی، جذبات ار مکاری کے سبب ہم کیا سے کیا کر گزرے۔ توبہ توبہ کیا زمانہ تھا نہ معلوم کتنوں کے گھر اجڑے۔
فاضل بریلوی کے فلسفہ کو سمجھ کر محمد علی جناح (قائد اعظم) اور علامہ اقبال (مصور پاکستان) ہندو مسلم اتحاد کے پر فریب جال سے باہر آئے مسلمانوں کی قیادت کی مسلمانوں کے جداگانہ پلیٹ پر انہیں متحد و منظم کیا۔ مسلسل جد و جہد سے تحریک پاکستان چلائی جس کا نتیجہ قیام پاکستان کی صورت مین سامنے ہے۔
اسلئے ہم کہتے ہیں کہ ’‘’پاکستان کی پہلی اینٹ امام احمد رضا بریلوی نے رکھی تھی۔‘‘
سیاست وادی خار زار ہے اس کو سمجھنے کیلئے صرف عالم و پیر ہونا کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تفقہ فی الدین کی نعمت خداوندی و تائید یزدانی بھی ساتھ ہو۔
بہر حال ہم اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں ، تحریک خلافت کو سمجھنے کیلئے اصل حقائق تلخ سہی لیکن بیان کردیئے۔ حضرت شاہ صاحب نے ساست میں قدم رکھا، تحریک خلافت میں کام کیا۔ آپ کی کوششوں سے ۱۹۲۰ء میں لاڑکانہ میں آل انڈیا خلافت کانفرنس منعقد ہوئی۔ اور جیکب آباد میں بھی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کے بعد خلافت تحریک کے پلیٹ فارم سے تحریک ہجرت چلائی گئی۔ سندھ کے ہزاروں مسلمان اپنی جائیدادیں زمینیں اور ساز و سامان کوڑیوں مین بیچک کر ہجرت کیلئے روانہ ہوئے۔ خلافتی لیڈروں نے ۱۹۲۰ء میں لاڑکانہ سے ایک اسپیشل ٹرین افغانستان بھجوائی۔ پیر تراب علی شاہ اسپیشل ٹرین کو تیار کرنے میں نہایت سرگرم رہے اور قافلہ کو رخصت کرنے کیلئے لارکانہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے ۔ افغان حکومت نے بے وفائی کی یادیگر الفاظ میں عقلمندی دکھائی کہ ہزاروں مسلمان واپسی پر اپنی سندھ میں روٹی کیلئے محتاج، اپنے دیس میں بے گھر ہوئے انا للہ ونا الیہ راجعون۔
ان حالات نے پیر تراب علی شاہ کو دلی صدمہ دیا۔ سیاسی غلطی پر ندامت ہوئی دل شکستہ ہو کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور فرمایا ’’سیاست ہمارے بس کا کام نہیں‘‘ اسلئے دینی و فلاحی کام میں مصروف رہے۔ اس کے ساتھ رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔
وصال:
حضرت پیر سید تراب علی شاہ راشدی نے ۱۹۳۸ئ/۱۳۵۷ھ کو انتقال کیا۔
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)