الحاج حافظ سید یوسف علی ’’عزیز‘‘ چشتی
الحاج حافظ سید یوسف علی ’’عزیز‘‘ چشتی (تذکرہ / سوانح)
حضرت سید محمد یوسف علی ۱۴ مارچ ۱۸۸۹ء بمطابق رجب ۱۳۰۶ھ بروز جمعرات محمد آباد (ریاست ٹونک ، راجستھان ، بھارت) میں تولد ہوئے ۔ دس ماہ کے بھی نہ ہونے پائے تھے کہ پدر بزرگوار سیف زبان سید افضل علی شاہ جعفری صوواتی کا انتقال ہوگیا۔ ڈھائی برس کے یتیم کو لاولد خالو محمد فیاض خان یوسف زئی بینیری صوبے دار توپ خانہ نے جے پور لا کر پالا۔
تعلیم و تربیت:
نویں سال میں اللہ تعالیٰ نے حفظ قرآن مید کی نعمت سے نوازا۔ دینیات ، اردو ارو فارسی کی تحصیل گھر میں کرنے کے بعد مہاراجہ کالج جے پور میں تعلیم پائی اور فن حرب و ضرب وپ خانہ کے حاصل کی۔ پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد صاحب رقمطراز ہیں: عربی، فارسی، اردو، ہندی اور سنسکرت کے فاضل تھے اور قادر الکلام مقرر و شاعر سید احمد مرزا خان ’’آگاہ‘‘ شاگرد مرزا غٓلب کے تلمیذ رشید تھے اور نظم و نثر دونوں میںمہارت رکھتے تھے۔‘‘
میدان عمل:
ستمبر ۱۹۰۹ء سے ۲۰ دسمبر ۱۹۲۰ء تک ریاست کی فوج میں اکائونٹنٹ ، صوبیدار میجر، میجر اورپھر ترقی کرتے ہوئے مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۹۲۱ء میں دلی جا کر خلافت کمیٹی کے ارکان کیساتھ مل کر کام کرنے لگے۔ پھر واپس آکر صاحبزادے صاحبزادے افتخار علی خان صمصمام جنگ کے مشیر سخن ہو کر چار مہینے ٹونک رہے اس کے بعد جے پور آکر مسلم اسکول میں ناظم دینیات رہے۔ مئی ۱۹۲۹ء میں موٹرڈپارٹمنٹ کی تشکیل کی۔ ۶ برس تک ٹریذر اور ریڈررر ہے۔ ۱۹۳۵ء میں سینٹرل ریکارڈ میں تعیناتی ہوئی۔ اس دفتر کی ۹ لاکھ مثلوں(فائلوں) کے ساتھ مہاراجہ کے پرائیویٹ دفتر سے آئے ہوئے کاغذٓت کی داشت و تلف کا کام انجام دیا۔ ۱۹۳۷ء سے ۱۹۳۹ء تک ہسٹوریکل ریکارڈ میں ان ہندی فارسی ڈائریوں اور فرمان اور نشان مکتوبات وغیرہ کی تدوین کی جو مان سنگھ کی نا بالغی وغیر موجودگی میں امیر کے تہہ خانے کھدوا کر برآمد کرائے تھے۔ان ہی نادر دستاویزات کی مدد سے آپ نے صحیح تاریک عالمگیر مرتب کرنے کا کام سر انجام دیا۔ آپ کو اپنی علمی استطاعت و لسانی قابلیت کی وجہ سے بطور خاص (اسپیشل برانچ) میں تعین کیا گیا جہاں اسٹینو گرافر بھی مقرر ہوئے۔ آخر ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۰ء تک دیوانی حضوری میں پرانے تاریخی کاغذات کے محافظ مترجم رہ کر ۱۹۵۱ء میں پینشن یاب ہوئے۔ سرٹفکیٹ ملا اس کے بعد حکومت پاکستان کو درخواست دے کر پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کی۔ (نغمہ عندلیپ)
بیعت و خلافت:
آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی قدس سرہ (خانقاہ تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان پنجاب) سے بیعت تھے (تذکرہ عزیز الاولیائ) اور صاحب مجاز بھی تھے زندگی بھر فیض رساں رہے۔
عادات و خصائل:
سادگی سچائی اور وقت کی پابندی آپ کا شعار رہا۔ حلیم الطبع اور رقیق القلب ہونے کے ساتھ عابد، زاہد، تعلیم تفہیم اور حکمت سے لبریز زندگی گزاری۔ ساری عمر تبلیغ دین اور اشاعت دین مصطفوی میں گزاری۔ بیوائوں اور یتیموں کی مدد کیلئے خاموشی سے دامے درمے قدمے سخنے ہمہ وقت مصروف رہے۔ وسائل نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی تمام تصانیف خود اپنی مددآپ کے اصول پر شائع کرائیں اور بیشتر کتب مفت تقسیم کیں۔
شعر و شاعری:
عزیز آپ کا تخلص، مریدین و معتقدین عزیز الاولیاء اور باواجی سے اہل علم ’’محقق پاکستانی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
آپ کو شاعری کی تمام اصناف سخن پر عبور تھا مثلاً حمد، نعت، غزل، نظم، قصیدہ، قطعہ، رباری، سجع، مثنوی، مرثیہ، خمسہ، مستزاد، مثلث، مربع، مخمس، مسدس، مسبع، مثمن، فرد، معشر وغیرہ وغیرہ۔
بقول آپ کے صاحبزادے جناب سید صداق علی جگر عزیز کہ مختلف اصناف سخن میں حضرت عزیز الملک نے تقریباً ۹ لاکھ اشعار کہے ہیں۔
ہے ہم عدد حب محمد ﷺ ایمان
گر حب محمد ﷺ نہیں ایمان نہیں
تصنیف و تالیف:
مغلیہ تاریخ خصوصاً عہد عالمگیری پر آپ کی گہری نظر تھی تاریخ سے متعلق آپ کی تصانیف کو جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر اے بی حلیم نے تاریخ کے طلبہ کیلئے لائق مطالعہ قرار دیا۔ حضرت عزیز الملک بیک وقت مذہب تاریخ اور ادب پر گہری نظر رکھتے تھے خود فرماتے ہیں:
’’افتاد طبع کی بدولت شوق اتم نے ادب، تاریخ ارو مذہب سے ربط و تعلق رکھا‘‘ (عالمگیری کی اصلی تصویر ص۴)
آپ ادب و تاریخ کی چھ درجن (۷۲) کتابوں کے مصنف و مؤلف تھے ان میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں:
٭ عالمگیری کی اصل تصویر
٭ تصویر کے حقیقی خدو خال
٭ اخلاق عالمگیر
٭ انسانی زندگی کا اخلاقی دستور
٭ نوادر عزیز
٭ دین عزیز
٭ فقہ کے امام اعظم
٭ اسلام
٭ تصدیق شہید
ایمان عزیز(نور و بشر، توسل رسات، فیضان اہل قبور اور اقتدار محمدی پر مشتمل ہے) معجز نما سیرت پاک، مبشرات حق آیات (۵۲ سورتوں کا ترجمہ) نغمہ عندلیب (نعتیہ کلام کا مجموعہ)
امامت و خطابت:
زندگی کے آخری ایام تک گزار مسجد (نزدھ سندھ مسلم لاء کالج) سندھ سیکریٹریٹ پر امامت و خطابت کے فرائض بحسن و خوبی سر انجام دیتے رہے۔
اولاد:
آپ کے صاحبزادے سید صداقت علی جگر صاحب اس وقت سجادہ نشین ہیں۔ فقیر راقم نے ان سے ملاقات کی اور مزار پر بروز جمعہ حاضری دی اور معلومات جمع کیں۔ کافی ضعیف ہو چکے ہیں ذہنی توازن صحیح نہیں ہے اسلئے ان کے صاحبزادے جو کہ ملازمت بھی کرتے ہیں تمام تر معاملات سنبھالتے ہیں اور بروز اتوار تعویذات بھی لکھتے ہیں۔ آپ کی صاحبزادی سیدہ عصمت عزیز شاہ فیصل کالونی میں رہائش پذیر ہیں اور نامور شاعرہ ہیں ان کے کلام پر مشتمل کتاب ’’حرفوں کی پکار ‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۰ ء چھپ کر داد تحسین حاصل کر چکی ہے۔
وصال:
ایک بار بعد نماز عصر ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے فرمایا ’’مسلمان قوم نے مجھ سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ استفسار پر فرمایا : پاکستان کا اسلامی آئین ہی لکھوالیتے‘‘ ار خود اپنے لئے فرماتے ہیں:
وہ کون سی خوبی ہے کہ جو مجھ میں نہیں
بس عیب یہی ہے کہ ابھی زندہ ہوں
یہ حقیقت ہے کہ اہل علم کیقدر نہیں ہے اور علماء و خطباء کو ان کی زندگی میں یاد کیا جاتا ہے بعد وصال اس طرح بھول جاتے ہیںگویا پیدا ہی نہیںہوئے تھے اسی طرح اولیاء کو بعد وصال یاد کرتے ہیں ان کی زندگی میں ان سے کم لوگ فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں اس طرحپاکستانی قوم مجرم ٹھہری ،اپنے محسنین کی ان کی زندگی میں قدر کرو۔ ان کے علمی تاریخی کام میں ان کا ہاتھ بٹائو تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ کام کر سکیں۔ ان کی صحبت اختیار کریں تاکہ ان کی برکتیں تمہیں بھی حاصل ہوں۔
ہمارے ملک میں جس طرح انسانیت کی تذلیل ہے ایسا کہیں بھ نہیں ہے۔ دفتروں میں دیکھیں رفاہی اداروں میں دیکھیں، انسان کی تذلیل، خالق کائنات کے غیض و غضب کو دعوت دینا ہے کیونکہ یہ اس کی اعلیٰ تخلیق ہے۔ ہمارے ملک کے ہر ادارے میں غریب و نادار و یتیم و بیوہ خواتین و مرد کی بد دعائوں کااثر ہے۔ یہ اثر نحوست ہے زحمت ہے اس اثر سے بچنا خیر و برکت اور رحمت ہے۔
حضرت حافظ الحاج سید محمد یوسف علی عزیز سلیمانی نے عمام عمر خانہ خدا(مسجد) میں قیام کی اور آخری سانس تک الہ کا گھر (گلزار مسجد متصل ایس ایم لا کالج) نہ چھوڑا۔ اور وہیں ۷؍ ذیقعدہ ۱۳۹۵ھ بمطابق ۱۲ نومبر ۱۹۷۵ء کو بروز بدھ انتقال کیا۔
آپ کی آخری آرامگاہ ریڑھی قبرستان متصل لانڈھی کراچی میں واقع زیارت خاص و عام ہے۔ جہاں ہر سال عرس نہایت عقیدت سے منایا جاتا ہے۔ مزار سے متصل مسجد شریف اور مدرسہ زیر تعمیر ہے۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )