(سیّدہ)صفیہ(رضی اللہ عنہا)
صفیہ دختر حیئ بن اخطب بن سعنہ بن ثعلبہ بن عبید بن کعب بن خزرج بن ابی حبیب بن نضیر بن نحام بن ناخوم یا تنحوم یا نخوم (یہود کے مطابق یہ لفظ ناخوم ہے،کیونکہ وہ اپنی زبان کا بہتر علم رکھتے ہیں) اور یہ بنو اسرائیل کے قبیلے لادی بن یعقوب سے تعلق رکھتے ہیں،جو بعد میں ہارون بن عمران کے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے سلسلے میں شامل ہوجاتے ہیں،اور جناب صفیہ کی والدہ برہ دختر سمئول تھیں،جو سلام بن مشکم کی زوجہ تھیں اس کے بعدوہ کنانہ بن ابوالحقیق کے نکاح میں آگئی تھیں،دونوں شاعر تھے،غزوۂ خیبر میں کنانہ بھی مارا گیا۔
انس بن مالک سے مروی ہے کہ جب حضورِاکرم نے خیبر کو فتح کیااور جنگی قیدی جمع ہوئے تو دحیہ بن خلیفہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئےاور گزارش کی،کہ انہیں ایک کنیز جنگی قیدیوں سے عطا کی جائے،آپ نے فرمایا کہ جاؤاورلے لو،انہوں نے جاکر صفیہ کا انتخاب کیا،اس پر کسی نے کہا، یارسول اللہ!یہ خاتون توبنو قریظہ اور بنونضیرکے سردار کی بیوی ہے،اس لئے یہ آپ کے لئے موزوں ہے،آپ نے وحیہ کو کہا کہ اسے رہنے دو،اور تم اور چُن لو،چنانچہ آپ نے جناب صفیہ کو اپنے لئے پسند فرمایا،اور انہیں آزاد کردیااور انہیں اپنے نکاح میں لے لیا اور انہیں غنیمت میں حِصہ دار بنایا، اور یہ خاتون بڑی عقل مند اور روشن خیال تھیں۔
ابو جعفر نے باسنادہ یونس سے انہوں نے ابنِ اسحاق سے ،انہوں نے اپنے والد اسحاق بن یسار سے روایت کی،کہ جب حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خیبر کا قلعہ جو ابن ابوالحقیق کاتھا، فتح کیا، تو جناب بلال صفیہ دخت حیئ اور ان کی عمزاد بہن کو لے کر آپ کے پاس آئے،جب وہ دونوں خواتین یہود کے مقتولین کے پاس سے گزریں توصفیہ کی عمزاد نے آہ وزاری کی اور سراور منہ پر خاک ڈالی،جب حضورِاکرم نے یہ صورتحال دیکھی ،تو فرمایا،اس شیطان زادی کو میری نظروں سے دُور لے جاؤ،آپ نے صفیہ کے بارے میں فرمایا ،کہ اسےمیری پیٹھ کے پیچھے بٹھادو،چنانچہ آپ نے اس پر کپڑا ڈال دیا،جس سے لوگوں نے سمجھ لیا،کہ آپ نے انہیں اپنےلئے پسند فرمالیاہے،اس کے بغیر آپ نے حضرت بلا ل سے فرمایا،اے بلال کیا تم سے رحم چھین لیا گیاہے،کہ تم نے ان عورتوں کووہاں سے گزارا،جہاں ان کے مقتول پڑے ہیں،پیشر ازیں جناب صفیہ نے خواب میں دیکھا تھاکہ چاند ان کی گود میں پڑا ہے،انہوں نے اپنے باپ سے اس خواب کا تذکرہ کیا،تو اس نے غصے میں ایک ایسا تھپڑ ان کے رخسا رپر رسید کیاکہ وہ نشان جم کر رہ گیا،اور کہا،معلوم ہوتا ہے تُو اپنی گردن لمبی کر کے عرب کے ملک تک پہنچ جائے گی،جب وہ رسولِ اکرم کے پاس آئیں،تو حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا،تو جناب صفیہ نے حقیقت حال بیان کی۔
(نوٹ)یہ تو ممکن ہے کہ جناب صفیہ نے اپنی گود میں چاند دیکھاہو،لیکن اس کے بعد جو کچھ لکھا ہے، وہ راوی کے اپنے دماغ کی تخلیق ہے،اگر جناب صفیہ نے یہ خواب دیکھا،تو اس میں ان کا کیا قصور تھا، کہ باپ نے انہیں تھپڑ رسید کیا،اور پھر حیئ کویہ الہام کیسے ہو گیا کہ وہ حضورِاکرم کے حرم میں پہنچ جائے گی،خُدا ان راویوں کی فرو گزاشتوں سے درگزر فرمائے(مترجم)۔
ہمیں کئی راویوں نے باسنادہم ابو عیسیٰ سے،انہوں نے قتبہ سے،انہوں نے ابو عوانہ سے،انہوں نے قتادہ اور عبدالعزیز بن صہیب سے،انہوں نے انس سے روایت کی،کہ آپ نے جناب صفیہ کو آزاد فرمادیا،اور آزادی ان کا مہر قرار دیا۔
محمد بن عیسیٰ نے بندار بن عبدالصمد سے،انہوں نے ہاشم بن سعید کوفی سے،انہوں نے کنانہ سے، انہوں نے صفیہ دختر حیئ سےروایت کی کہ مجھے عائشہ اور حفصہ کے بعض توہین آمیز کلمات کسی نے بتائے،میں نے حضورِاکرم سے اس کا ذکر کیا،آپ نے فرمایا،تم ان سے دریافت کرتیں کہ تم کس طرح مجھ سے بہتر ہو،رسولِ کریم میرے خاوند ہیں،میرے والد ہارون اور چچا حضرت موسیٰ علیہ السّلام ہیں،ان دوخواتین نے اپنے بارے میں کہا تھا،کہ ہم صفیہ سے زیادہ محترم ہیں،کیونکہ ہم آپ کی ازواج ہیں،اور رشتے میں عمزاد ہیں،عبدالوہاب بن ابو حبہ نے باسنادہ عبداللہ بن احمد سے ،انہوں نے شمسہ یاسمیہ سے،انہوں نے صفیہ دختر حیئ سے روایت کی،کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ازواج مطہرات کے ساتھ حج پر تشریف لے گئے،اثنائے راہ میں جناب صفیہ کا اونٹ بیٹھ گیا، اور انہوں نے رونا شروع کردیا،حضورِ اکرم کو معلوم ہواتوجناب صفیہ کے پاس تسلی دینے آئے، آپ انہیں رونے سے منع فرمارہے تھے،اور ہاتھ سے ان کے آنسو پونچھ رہے تھے،مگر ان کا رونا ختم نہیں ہورہاتھا،حضورِاکرم کاروانیوں کے ساتھ رواح کے مقام پر اُتر پڑے،اور زینب دختر حجش سے جن کے پاس کئی اونٹ تھے،فرمایا کہ صفیہ کو عاریتہً ایک اُونٹ دے دو،انہوں نے چمک کر کہا، آپ کی اس یہودیہ کو؟ آپ کو سُن کر سخت غصّہ آیا،اور آپ نے زینب سے بولنا چھوڑدیا،تاآنکہ آپ حج سے فارغ ہو کر مدینے تشریف لے آئے،محرم اور صفر کے مہینے گزر گئے،اور آپ کبھی ان کے یہاں نہ گئے،اور نہ انہیں ان کا حِصّپ بھیجا،چنانچہ وہ حضور کی طرف سے مایوس ہوگئیں۔
جب ربیع الاوّل کا مہینہ آیا،آپ جناب زینب کے حجرے میں داخل ہوئے،تو انہوں نے مرد کا سایہ دیکھا،سوچا،آپ نے تو آمدورفت معطل کی ہوئی ہے،جب آپ کو دیکھا،تو دریافت کیا،یارسول اللہ میں کیا کروں،راوی کہتا ہے،جناب صفیہ کے پاس ایک لونڈی تھی،جسے حضورِاکرم سے چھپایا ہواتھا،کہنے لگیں،فلانہ آپ کی خدمت گزاری کے لئے ہے،پھر آپ جناب صفیہ کی چارپائی کی طرف گئے آپ نے اپنی چادر ہاتھ سے اُٹھائی اور ان سے در گزر فرمایا۔
جناب صفیہ سے علی بن حسین نے رایت کی،کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف تھےکہ میں کچھ کہنے کو مسجد میں گئی،آپ مجھے گھر پہنچانے کے لئے میرے ساتھ ہو لئے،راستے میں دو آدمی جوقبیلہ انصار سے تھے،ملے،جب انہوں نے حضورِاکرم کو دیکھا ،تولوٹ گئے،آپ نے فرمایا،ادھر آؤ،میرے ساتھ صفیہ ہے،انہوں نے کہا،نعوذباللہ،سبحان اللہ،یا رسول اللہ،فرمایا شیطان کے وسوسے انسان کے خون کے ساتھ داخل ہوجاتے ہیں۔
جناب صفیہ نے ۳۶ہجری یا ۵۶ ہجری میں وفات پائی،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد بمبر ۱۰۔۱۱)