آپ سیّد عبدالرسول بن سیّد محمد سعید دُولارحمتہ اللہ علیہ کے چوتھے بیٹے تھے۔بیعت وخلافت حضرت سیّد فتح محمد بن سیّد ضیأ اللہ برخورداری رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ سے تھی۱؎۔کاغذاتِ مال میں اللہ بخش نام تحریرہے۔
بہادری و شجاعت
آپ کو ابتدائے عمرمیں فن سپاہ گری کا شوق تھا۔چنانچہ چوہدری غلام محمد بن پیر محمد چٹھہ رئیس اعظم منچر(ضلع گوجرانوالہ)کی فوج میں بھرتی ہوگئے۔جب اُس کی سکّھوں سے لڑائی ہوئی تو ایک سکھ سردارگھوڑے پر سوار"ست سَری اکال"کے نعرےلگاتامیدان میں آیا۔ چوہدری نے اپنی فوج پر نظرڈالی۔کوئی جوان اُس کے مقابلہ کونہ نکلا۔آخرآپ اُس کےسامنے ہوئے۔آپس میں دوچارجھڑپیں ہوئیں آپ نے نیزہ مارکر اُس کو گھوڑے سے نیچے گرالیااور نعرۂ تکبیرکہہ کراس کا سَر کاٹ لیا۔چوہدری نے آپ کوبہت ساانعام دیا۔
۱؎مناقباتِ نوشاہیہ ۱۲ سیدشرافت
کرامت
تاثیرزبان
آپ سیف اللسان تھے۔جوکچھ منہ سے فرماتے وہ پوراہوجاتا۔چنانچہ منقول ہے کہ ایک روز آپ قصبہ رسول نگرمیں کسی رنگریزکی دکان پر بیٹھے تھے۔ہندولوگ ایک مُردہ کی نعش جلانے کو اُس طرف سےلے کر نکلےاورمنہ سے کہتے جاتے تھے۔"رام رام ست ہے"۔آپ کے منہ سے برجستہ یہ فقرہ نکلا۔"ایہہ پھیراسَٹ آؤ اک پھَیراوت ہے"۔چنانچہ جب اس کو جلاکرواپس آئے توآگے ایک اورشخص مراپڑاتھا۔پھراُس کو وہی کلمہ کہتے ہوئے لے چلے۔ آپ نے پھروہی الفاظ دُہرائے
چنانچہ اسی طرح ہندؤں کے سات آدمی پَے درپَےمرگئے۔
اگرچہ یہ کرامت آپ کے پڑوتے سید محمد حسن ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب تحائف اصفیامیں لکھی ہے۔لیکن یہی کرامت عوام الناس میں چنداوربزرگوں کےنام سےبھی منسوب ہے۔جس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس کرامت کاکوئی اصل نہیں محض افواہ ہے۔
اولاد
آپ کے دوبیٹے تھے۔
۱۔سیّد جوائے شاہ رحمتہ اللہ علیہ
۲۔سیّد شیرشاہ رحمتہ اللہ علیہ۔
؎ سیّد جوائے شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے ایک ہی فرزند سیّد مکھن شاہ رحمتہ اللہ علیہ تھے جو
لاولدفوت ہوئے۔
؎ سیّد شیرشاہ رحمتہ اللہ علیہ کاذکر چَھٹے باب میں آئے گا۔
تاریخ وفات
سیّدالٰہی بخش کی وفات بروزسوموار ۔سولہویں رجب ۱۲۵۳ھ میں ہوئی۔
مدفون گورستانِ نوشاہیہ ۔
مادہ ہائے تاریخ
۱۔آیت شریفقل اعوذ برب الناس
۲۔بخشش ہوگئی۔
(شریف التواریخ جلد نمبر ۲)