بن عبدربہ عبداللہ کے بھائی تھے عبداللہ بن محمد بن زیدنے اپنے چچاعبیداللہ بن زیدسے روایت کرکےبیان کیاہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نےیہ چاہاکہ نمازکی اطلاع۱؎کاکوئی انتظام کریں عبداللہ بن زید آپ کے پاس حاضرہوئے اورعرض کیایارسول اللہ میں اذان کے کلمات خواب میں دیکھے ہیں آپ نے فرمایاجاؤ(وہ کلمات)بلال کوبتادو انھوں نے بلال کوبتادیے پھررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سےعرض کیایارسول اللہ مجھی کو اذان خواب میں دکھائی گئی اور میں چاہتاتھا کہ میں ہی اذان دوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(اچھا)تم ہی دو زیدکہتے تھے پس عبداللہ کھڑے ہوگئے اور انھوں نے اذان دی۔ان کا تذکرہ ابوموسیٰ نے لکھا ہے۔
۱؎جانناچاہیے کہ اذان کی ابتدا مدینہ منورہ میں ۱ھ سے ہوئی اس سے پہلے نمازبےاذان پڑھی جاتی تھی چونکہ اس وقت تک مسلمانوں کی تعدادکچھ ایسی کثیرنہ تھی اس لیے ان کا جماعت کے لیے جمع ہونا بغیرکسی اطلاع کے دشوارنہ تھا جب مسلمانوں کی تعداد یوماً فی یوماً ترقی کرنے لگی اور مختلف جرفہ اور پیشہ کے لوگ جوق درجوق دین الہٰی میں داخل ہونے لگے توضرورت اس امرکی ہوئی کہ نمازکے وقت آنے اورجماعت قائم ہونے کی اطلاع ان کودی جائے جس سے وہ اپنے قریب وبعید مقامات سے جماعت کے لیے مسجد میں آسکیں لہذا یہ طریقہ اذان کا غرض مذکورہ پوراکرنے کے لیے مقرر کیا گیااذان کی مشروعیت کا قصہ یہ ہے کہ جب صحابہ کواطلاع اوقات نماز اورقیام جماعت کی ضرورت معلوم ہوئی توانھوں نے آپس میں مشورہ کیا بعضوں نے یہ رائے دی کہ یہود کی طرح سنکھ بجایاجائے بعضوں کی رائےہوئی کہ آگ جلادی جایاکرے مگرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں فرمایا حضرت عمرفاروق نے یہ رائے دی کہ نمازکے وقت الصلوۃ جامعتہ کہدیاجائےاس کے بعد عبداللہ بن زید اورحضرت فاروق رضی اللہ عنہما نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ نے اذان مسنون کاطریقہ ان کو تعلیم کیاکہ اسی طریقہ سے نمازکے اوقات اورجماعت کی اطلاع مسلمانوں کوکی جایاکرے بعض روایات میں ہے کہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے جویہ خواب دیکھاتھاتوجاگا نیند ہی میں تھابالکل سوتانہ تھا پھرصبح کوعبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ کلمات بلال کوتعلیم کردو حضرت عبداللہ بن زید نے ان کوتعلیم کردیے۱۲۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)