سیدنا) اعشی (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) اعشی (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
مازنی۔ مازن بن عمرو بن تمیم کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کا نام عبداللہ بن اعور ہے اور بعض لوگ اور کچھ بھی بیان کرتے ہیں۔ بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ہمیں ابو الفضل منصور بن ابی عبداللہ طبری نے اپنی اسناد سے ابو یعلی یعنی احمد بن علی بن مثنی تک خبر دی وہ کہتے تھے ہمس ے مقدمی نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ابو معشہ یوسف ابن یزید نے بیان کیا وہ کہتے تھے م سے صدقہ بن طیلسہ نے بیان کیا وہ کہتے تھے مجھ سے معن بن ثعلبہ مازنی نے بیان کیا وہ کہتے تھے مجھ سے اعشی مازنی نے بیان کیا وہ کہتے تھے کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں گیا اور میں نے آپکے سامنے یہ اشعار پڑھے۔
یا مالک الناس و دیان العرب انی لقیت ذربۃ من الذرب غدوت ابغیہا الطعام فی رجب فخلقتنی فی نزاع و ہرب
اخلفت العہد ولطت بالذنب دہن شر غالب لمن غلب
(٭ترجمہ۔ اے لوگوں کے مالک اور عرب کے حاکم۔ مجھے ایک لڑنے والی عورت سے سابقہ پڑا۔ میں اس کے لئے ماہ رجب میں غلہ خریدنے گیا۔ میرے پیچھے وہ لڑنے اور بھاگنے میں مصروف ہوئی۔ اس نے خلاف عہد یا اور گناہ میں آلودہ ہوگئی اور یہ عورتیں ایک شہر میں کہ جو دب جائے اس کو اور بھی دبا لیتی ہیں)
اعشی کہتے تھے کہ نبی ﷺ (کو یہ مصرعہ پسند آیا ور آپ بار بار اس کی تکرار) فرمانے لگے دہن شر غالب لمن غلب ان اشعار کا سبب یہ تھا کہ اعشی کے پاس ایک عورت تھی اس کا نام معاذہ تھا اعشی اپنے گھر والوںکے لئے مقام ہجر سے غلہ مول لینے گئے ان کے بعد ان کی بی بی لڑکے چلی گئی اور ایک شخص کے پاس جاکے پناہ گزیں ہوئی جس کا نام مطرف بن بہصل تھا اس نے اس عورت کو پناہ دی۔ جب اعشی لوٹ کر آئے ور انھوں نے اس عورت کو اپنے گھر میں نپایا اور ان سے یہ بیان کیا گیا کہ وہ لڑکے چلی گئی ہے ور مطرف کے یہاں پناہ گزیں ہوئی ہے تو وہ مطرف کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹِ تمہارے یہاں میری بی بی معاذہ ہے سے میرے حوالہ کر دو مطرف نے کہا وہ میرے پاس نہیں ہے اور اگر وہ میرے پاس ہوتی بھی تو میں تمہارے حوالہ نہ کرتا مطرف ان سے زیدہ زور آور تھے لہذا اعشی نبی ﷺ کے پاس جاکے پناہ گزین ہوئے ور یہ اشعار موزوں کئے ور اپنی عورت اور اس کی حرکات کی آپس ے شکایت کی اور بیان کیا کہ وہ مطرف بن بہصل کے پاس ہے تو نبی ﷺ نے مطرف کو ایک خط لکھ دیا کہ دیکھو اعشی کی بی بیمعاذہ کو ان کے حوالہ کر دو جب مظرف کے پاس نبی ﷺ کا خط پہنچا اور انھیں پڑھ کے سنایا گیا تو انھوں نے معاذہ کے کہا کہ اسے معاذہ یہ نبی ﷺ کا خط تمہاری بابت آیا ہے اب میں تمحیں اعشی کے حوالہ کر دوں گا معاذہ نے کہا تو اچھا تم میرے لئے اعشی سے قول قرار لے لو اور نبی ﷺ سے ذمہ داری کرا لو کہ جو حرکت میں نے کی ہے اس پر اعشی مجھے تنبیہ نہ کریں مطرف نے عہد لے کے معاذہ کو اعشی کے حوالہ کر دیا اس وقت اعشی نے یہ شعر پڑھے۔
لعمرک ماحبی معاذۃ بالذی یغیرہ الواشی والا قدم العہد ولا سوء ماجائت بہ اذ ازلہا غواۃ رجال ذنیا دو نہا بعدی
(٭ترجمہ۔ قسم تیری ماں کی معاذۃ سے مجھے ایسی نیت نہیں ہے جس کو کوئی چغلخور باندھ بدل سکے۔ اور نہ وہ بری حرکت جو معاذہ سے ہوئی کیوں کہ معاذہ کو چند فریب دینے والوں نے میرے بعد ورغلانے کے بعد بدکار )
ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔ اور عبداللہ بن اعور کے نام یں ان کو بیان کیا ہے۔ مگر ابو عمر نے ان کو حرمازی مازنی لکھا ہے حالانکہ حرماز کے نسب میں تمیم تک مازن نام کا کوئی شخص نہیں ہے۔ ابن ابو عمر نے اور ابن مندہ نے اور ابو نعیم نے مازن بن عمرو ابن تمیم کو بیان کیا ہے س صورت میں حرماز مازن کی ایک شاخ ہو جائے گی اور یہ حرماز ابن مالک بن عمرو بن تمیم ہوں گے۔ اور بعض لوگ کہتیہیں کہ یہ حرماز حارث بن عمرو بن تمیم کے بیٹِ ہیں ور یہ سب مازن بن مالک بن عمرو ابن تمیم کے بھائی ہیں۔ اور علمائے نسب کی عادت ہے کہ وہ چھوٹی شاخ کی اولاد کو اس کے بھائی کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جب کہ وہ مشہور ہو جیسے نعیلہ بن ملیک کی اولاد ہے ہ یہ لوگ غفار بن ملیک کے بھائی ہیں ان کو بھی لوگ غفاری کہتے ہیں۔ انھیں میں سے حکم بن عمرو غفاری ہیں حالانکہ وہ قبیلہ غفار میں ے نہیں ہیں بلکہ بنی نصیلہ میں سے ہیں لوگوںنے کہا کہ یہ اس وجہس ے کہ غفار ایکبڑا قبلہ ہے ور مشہور ہے۔ اور جیسے مالک بن اقصی کی اولاد کہ وہ اسلم بن اقصی کیبھائی ہیں ان کی اولاد اکثر قبیلہ اسلمکی طرف منسوبکر دی جاتی ہے بوجہ مشہور ہونے قبیلہ اسلم کے علاوہ اس کے ابو عمر وہ بتیں جانتے ہیں جو دوسرا نہیں جانتا کیوں کہ وہ نسبکے عالم ہیں۔ واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)