سیدنا ابان (رضی اللہ عنہ)
سیدنا ابان (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
سعید بن عاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی قرشی اموی کے فرزند ہیں اور انکی والدہ ہند بنت مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ صفیہ بنت مغیہ جو حضرت خالد بن ولید بن مغیرہ کی پھوپھی تھیں حضرت ابان اور رسول خدا ﷺ عبد مناف میں جاکے ملتے ہیں۔
یہ اپنے دونوں بھائیوں خالد اور عمرو کے بعد اسلام لائے اور جب وہ اسلام لائے تو انھوں نے کہا (ترجمہ اشعار) کاش (٭یہ اشعار اس زمانے کے ہیں جس زمانہ میں حضرت ابان رضی اللہ عنہ دور کافر تھے وہ اپنے نو مسلم بھائیوں کی ان اشعار میں ہے کرتے ہیں کہ کاش میرے (باپ جو مر چکے ہیں اور یہ میں مدفون ہیں زندہ ہوتے اور) عمر و خالد کی افتراپرداز زبان (یعنی یہ کہ وہ ایک ہم جیسے بشر کو نبی کہتے ہیں اور بتوںکی پرستش وغیرہ کی ممانعت خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں دیکھتے (تو ان دونوں کو مزا بتاتے)) (مقام) ظریہ میں (جو) مردہ (مدفون ہی وہ دیکھتا ان باتوں کو جو عمرو اور خالد دین میں افترا کر رہے ہیں ان دونوں نے عورتوں کی اطاعت کر لی اس لئے یہ دونوں ہمارے جگری دشمنوں کی مدد کرتے ہیں۔
حضرت عمرو نے اس کا یہ جواب۔ (ترجمہ اشعار)
میرا بھائی جس کی میں آبرو ریزی نہیں کرتا۔ اگرچہ وہ اپنی گفتگو سے باز نہیں آتا جب اس پر اس کے بعض معاملات مشتبہ (٭یعنی جب اسے کوئی بات معلوم نہیں ہوتی اس کی عقل وہاں تک رسائی نہیں کرتی مثلا آنحضرت ﷺ کا نبی ہونا اس کی فہم میں نہیں آتا تو وہ اپنے مردہ باپ کو پکارنے لگتا ہے حالانکہ اسے زندہ رہبر یعنی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنا چاہئے) ہو جاتے ہیں۔ تو وہ کہتا ہے کہ کاش (وہ۹ مردہ (جو۹ ظریبہ میں (مدفون ہے) زندہ ہو جاتا ۰مگر میں اس سے کہتا ہوں کہ) تو اس مردہ (کے ذکر) کو چھوڑ دے جو اپنی راہ چلا گیا اور اس زندہ کے پاس آ جو قابل اتباع ہے۔ ابان کی مراد مردے سے ان کے والد ابو احیحہ سعید بن عاص بن امیہ ہیں جو ظریبہ میں مدفون ہوئے تھے ظریبہ ایک پہاڑ ہے طائف میں۔
(حافظ) ابو عمر بن عبدالبر کہتے ہیں کہ حضرت ابان حدیبیہ اور خیبر کے درمیان میں اسلام لائے اور غزوہ حدیبیہ سن۶ ہجری میں ہوا تھا اور غزوہ خیبر محرم سن ۷ھ میں۔ (حافظ) ابو نعیم کا بیان ہے کہ وہ خیبر سے پہلے اسلام لائے اور س میں شریک ہوئے اور یہی صحیح ہے کیوں کہ حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ رسول خدا ھ نے ابان ابن سعید بن عاص کو ایک لشکر میں مدینہ سے بھیجا تھا تو ابان اور ان کے ستھی فتح خیبر کے بعد رسول خدا ﷺ کے پاس لوٹ کے آئے ور رسول خدا ھ اس وقت خیبر ہی میں تھے اور ابن مندہ نے کہا کہ پہلے ابان کے بھائی عمرو اسلام لائے اور ابان بن سعید ان کے بعد اسلام لائے تھے پھر یہ دونوں ہجرت کر کے حبش گئے یہ ابن مندہکا قول تھا حالانکہ یہ متناقض ہے اور یہ وہم ہے کیوں کہ حبش کی طرف ہجرت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے اسلام لائے اور ابان (ان سابقین میں نہیں ہیں اور انھوں نے)حبش کی طرف ہجرت نہیں کی۔
ابان رسول خدا ﷺ اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے ان کے اسلام کا یہ سبب ہوا کہ وہ (حسب عادت ایکمرتبہ) بغرض تجارت شام گئے تو ان سے ایک راہب (نصرانی و رویش) سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے اس راجبسے رسول خدا ﷺ کی بابت پوچھا کہا کہ میں ایک قریشی آدمی ہوں ایک شخص ہم میں پیدا ہوا ہے وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ میں خدا کا رول ہوں مجھے اللہنے رسول کیا ہے جس طرح موسی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کو کیا تھا راہب نے پوچھا کہ اس شخص کا نام کیا ہے انھوں نے کہا محمد (ﷺ) راہب نے کہا (کہ ایک نبی پیدا ہونے والے) ہیں میں ان کے علامات و صفات تم سے بیان کرتا ہوں چنانچہ س نے (وہ) حالت بیان کی ۰جو۹ نبی ﷺ کی (تھی) اور آ کا سن اور نسب بیان کیا ابان نے کہا کہ وہ ایسے ہی ہیں راہب نے کہا خدا کی قسم وہ عرب پر غالب آجائیں گے پھر تمام دنیا پر غالب آجائیں گے اور س نے ابان ے کہا کہ اس مرد صالح سے میرا سلام کہنا چنانچہ جب یہ مکہ لوٹ کے آئے تو انھوں نے نبی ﷺ کی کیفیت پوچھی اور آپ کے اور آپ کے صحابہ کی نسبت کوئی ناشایستہ کلمہ جیسے پہلے کہتے تھے نہیں کہا اور یہ واقعہ حدیبیہ ے پہلے کا ہے۔ پھر رول خدا ﷺ جب حدیبیہ تشریف لے گئے اور وہاں سے لوٹے تو یہ آپ کے ساھ ہوگئے اور اسلام لے آئے اور ان کا اسلام اچھا ہوا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انھیں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ (امیرالمومنین) کو امن دیا تھا جب کہ انھیں نبی ﷺ نے حدیبیہ کے دن مکہ بھیجا تھا انھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا گھوڑا سواری کے ئے دیا اور کہا کہ آپ بے کوف و خطر مکہ میں جہاں چاہیں جائیں۔
ہمیں ابو احمدنے ابودائود سے نقل کر کے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں سعید بن منصور نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں اسمعیل ابن عباس نے محمد بن الولید زبیدی سے نقل کر کے خبر دی کہ عبداللہ بن سعید بن عاص نے انھیں خبر دیکہ انھوں نے حضرت ابوہریرہ سے سنا کہ رسول خدا ﷺ نے ابان بن سعید بن عاص کو مدینہ سے نجد کی طرف ایک لشکر کا سردار بنا کے بھیجا چنانچہ (وہ گئے اور) وہ اور ان کے ساتھی رسول خدا ﷺ کے پاس خیبر یں لوٹ کے آئے بعد اس کے آپ خیبر کو فتح کرچکے تھے اور ان لوگوں کی سواریوں کی نکیلیں چھوہارے کی چھالوںکی تھیں ابان نے عرض کیا کہ یارول اللہ ہمیں بھی خیبر کی غنیمت میں حصہ دیجئے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ان لوگوں کو نہ دیجئے (ان کا خیبرکی غنیمت میں کیا حق ہے) ابان نے (حضرت ابوہریرہ سے) کہا کہ اے وبر (٭وبر ایک جاونر کو کہتے ہیں جو قد و قامت میں بلی کے مشابہ ہوتا ہے مطلب ان کا یہت ھا کہ تم ایک جنگلی پہاڑی آدمی ہو تم ان امور کو کیا سمجھ سکتے ہو اور ایسی باتوں میں تم کیوں مشورہ دیتے ہو) جو ابھی پہاڑس ے اتر کے آیاہے تو یہ بات کہتا ہے۔ نبی ﷺ نے(اس بات کو ٹال دیا اور) فرمایا کہ اے ابان بیٹھو مگر رسول خدا ﷺ نے انھیں (خیبر کی غنیمت میں) حصہ نہیں دیا۔ رول خدا ﷺ نے انھیں بحرین کا حاکم مقرر کر دیا تھا جبکہ حلاء بن حضرمیکو وہاںسے معزول کر دیا چنانچہ وہاں کے حاکم رہے یہاں تک کہ رسول خدا ﷺ کی وفات ہوگئی اس کے بعد وہ مدینہ لوٹ آئے۔ حضرت ابوبکر رضیاللہ عنہ نے چاہا کہ انھیں پھر وہاں واپس کریں مگر انھوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کا کام نہ کروں گا اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انھوں نے حضرت ابوبکر رضیاللہ عنہ کی طرف سے یمن کے بعض اضلاع کی حکومت قبول کر لی تھی واللہ اعلم۔ ان کے والد کی کنیت ابو احیحہ تھی ان کا ایک لڑکا تھا احیحہ جو جنگ فجار میں مقتول ہوا اور (ایک بیٹا ان کا) عاص جنگ بدر میں بحالت فر مقتول ہوا اسے حضرت علی نے قتل کیا تھا اور ۰دوسرا بیتا ان کا) عبیدہ بھی جنگ بدر میں بحلت کفر مقتول ہوا اسے حضرت زبیر نے قتل کیا تھا اور پانچ بیٹے ان کے اسلام لائے اور ان پانچوں نے رسول خدا ﷺ کی صحبت اٹھئای اور ان یں سے کسی کی اولاد نہیں سوا عاص ابن سعید کے صرف انھیں سے اولاد ہے اور انھیں عاض کی اولاد میں سے ہیں سعید بن عاص بن سعید بن عاص بن امیہ جن کو حضرت معاویہ رضی الہ عنہ نے مدینہ کا حامل بنایا تھا اور عنقریب اس کا ذکر انشاء اللہ آئے گا اور یہ سعید والد میں عمرو اشدق کے جن کو عبدالملک بن مروان نے قتل کیا تھا اور ابان بھی انھیں لوگوں یں سے ایک شخص تھے جنھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں توقف کیا تھا کہ دیکھیں بنی ہاشم کیا کر رہے ہیں پھر جب بنی ہاشم نے حضرت بوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی تو انھوں نے بھی بیعت کر لی۔ ان کے وفات کے وت میں اختلاف ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت ابان اور عمرو جو دونوں سعید کے بیٹیہیں جنگ یرموک میں شہید ہوئے مگر کسی اور مورخ نے اس کی موافقت نہیں کیا ور جنگ یرموک ملک شام میں پانچویں رجب سن۱۵ھ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوئی تھی۔ اور موسی بن عقبہ کہتے ہیں کہ حضرت ابان جنگ اجنادین میں شہید ہوئے اور یہی قول ہے مصعب کا اور زبیر کا اور اکچر اہلنسب کا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ جنگ مرج الصفر میں ددمشق کے پاس شہید ہوئے اور واقعہ اجنادین جمدی الاولی ۱۲ ہجری میں حضرت ابوبکر رضی الہ عنہ کی خلافت میں ان کی وفات سے کچھ پہلے ہوا تھا اور واقعہ مرج الصفر سن ۱۴ ہجری شروع خلافت حضرت عمر رضی الہ عنہ میں ہوا تھا۔ اور بعض لوگ کہتیہیں پہلے واقعہ صرح الصفر ہوا تھا پھر جنگ یرموک ہوئی اس کے بعد خبادین ہوئی اور س اختلاف کا سبب یہ ہے کہ یہ اوقات باہم ایک دوسرے سے قریب ہیں ور زہری کہتے ہیں کہ ابان بن عاص نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مصحف زید بن ثبت پر بحکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ املا (٭املا کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص پڑھے تاکہ اور لوگ لکھیں مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابان پرھتے جاتے تھے اور حضرت سید رضی اللہ عنہ لکھتے جاتے تھے) کیا تھا اور اسی کی تائید کرتا ہے ان لوگوںکا قول جو کہتے ہیں کہ ان کی وفات سن۲۹ ہجری میں ہوئی۔
حضرت ابان کے حالات میں مروی ہیکہ انھوں نے (ایک روز۹ خطبہ پرھ اس میں بیان کیا کہ رسول خدا ﷺ نے زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف کر دیے ہیں س نام کو تینوں نے لکھا ہے۔
(اسدالغابۃ جلد نمبر۔۱)