سیّدنا عبدالرحمن بن عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ
سیّدنا عبدالرحمن بن عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ا۔یہ عبدالرحمن امیرالمومنین ابوبکرصدیق بن ابی قحافہ کے بیتے ہیں ان کے والد کے ذکر میں ان کا نسب بیان ہوچکاان کی کنیت ابوعبداللہ تھی اور بعض نے بیان کیا ہے کہ ان کی کنیت ابومحمد تھی وہ اس وجہ سے کہ ان کے بیٹے کانام محمد تھاجن کولوگ ابوعتیق کہتے ہیں اور بعض ابو عثمان بیان کرتے ہیں ان کی والدہ ام رومان تھی یہ مدینہ میں رہتے تھے اور مکہ میں وفات ہوئی ۔ صحابہ میں کوئی چارشخص ایسے نہیں ہیں جن کی چارپشت کے لوگ اسلام لائے ہوں اور صحابی ہوں سوا ابوقحافہ اوران کے بیٹے حضرت ابوبکرصدیق اور ان کے بیٹے عبدالرحمن اور ان کے بیٹے محمد ابوعتیق کے یہ عبدالرحمن حضرت عائشہ کے حقیقی بھائی تھےغزوۂ بدراوراحد میں کافروں کی طرف سے شریک تھے(جب میدان جنگ میں )انھوں نے اپنے لڑنے کے واسطے مقابل طلب کیا تو حضرت ابوبکر ان کے مقابلے پرجانے کو تیار ہوئے مگررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر تم میری ہی خدمت میں رہویہ عبدالرحمن بہادر اور بہت اچھے تیراندازتھےحدیبیہ میں اسلام لائے تھے اور ان کا اسلام بہت اچھاتھا(یعنی نفاق کی آمیزش نہ تھی)ان کا نام عبدالکعبہ تھارسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن رکھااوربعض لوگ کہتے ہیں ان کانام عبدالعزی تھاخالد بن ولید کے ساتھ جنگ یمامہ میں شریک تھے اور اس دن اہل یمامہ کے سات بڑے بڑے آدمیوں کوقتل کیاتھا۔ یہ وہی عبدالرحمن ہیں جنھوں نے محکم یمامہ بن طفیل کوقتل کیاتھااس کے سینہ میں انھوں نے تیرماراتھاحکم یمامہ قلعہ کے ٹوٹے ہوئے جانب میں بیٹھاہواتھا۔جب انھوں نے محکم کوقتل کرڈالاتواسی شکستہ جانب سے مسلمان قلعہ کے اندرداخل ہوگئے زبیربن بکار نے کہا ہے کہ عبدالرحمن حضرت ابوبکرکے بیٹوں میں سب سے بڑے تھے اور ان میں مزاح کرنے کی عادت تھی انھوں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی حدیثیں روایت کی تھیں اور ان سے ابوعثمان نہدی اور عمرو بن اوس اورقاسم بن محمد اور موسیٰ بن وردان اور میمون بن مہران اورعبدالرحمن بن ابی لیلیٰ وغیرہم نے روایت کی ہے۔ہم کوابولعباس یعنی احمدبن ابی منصوریعنی احمد بن محمد بن نہال صوفی نے جوترک کنانہ کے نام سے مشہورتھےخبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابومطیع یعنی محمد بن عبدالواحدابن عبدالعزیز مصری نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوسعید محمد بن علی نقاش نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن عبداللہ بن ابراہیم شافعی نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے احمد بن زیاد بن مہران عدل نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ابوشہاب نے عمروبن قیس سے انھوں نے ابن ابی ملیکہ سے نقل کرکے بیان کیاہےکہ عبدالرحمن بن ابی بکر نے کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے (جس وقت آپ مرض وفات میں علیل ہوئے)فرمایاکہ شانہ کی ہڈی اور دوات میرےپاس لاؤ کہ میں تم کوایک تحریربھی لکھ دوں جس کی وجہ سے تم لوگ میرے بعد گمراہی میں نہ پڑو(اتنافرماکرآپ نے ہماری طرف پیٹھ کرلی پھر(تھوڑے عرصے کے بعد ) ہماری طرف منہ کیااورفرمایاکہ اللہ عزوجل اور تمام ایمان والے سواابوبکرکے اور کسی( کی خلافت ) کومنظور نہ کریں گےیہ عبدالرحمن شام میں تجارت کے واسطے آئے تو انھوں نے وہاں ایک عورت کو جس کولوگ ابتہ الجودی کہتےتھے دیکھا اس کے گرد اگردبہت سی لڑکیاں تھیں ان کو وہ عورت بہت اچھی معلوم ہوئی اور انھوں نے اس کے متعلق یہ اشعارنظم کیے ؎
۱؎ تذکرت لیلی والسماوۃ دونہا فمالا نبتہ الجودی لیلی و مالیا
وانی تعاطی قنبہ حارثیتہ تدمن بصری اوتحل الجوابیا
وانی تلاقیا بلے ولعلہا ان الناس حجواقابلاان توافیا
پھرجب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنالشکرملک شام کی جانب روانہ کیا تو سپہ سالاروں کوحکم دیا کہ اگرلڑنے کےبعد تمھیں فتح ہو(اور)لیلیٰ بنت جودی(تمھیں مل جائے) تواس کوعبدالرحمن بن ابی بکرکے حوال کردیناچنانچہ (جس وقت)سپہ سالارنے لیلیٰ بنت جودی کوپایاتو عبدالرحمن کے حوالے کردیا عبدالرحمن اس کوپاکر بہت خوش ہوئے اور اپنی تمام بی بیوں سے اس کوزیادہ چاہنے لگے یہاں تک کہ ان کی اوربی بیوں نے حضرت عائشہ سے شکایت کی حضرت عائشہ عبدالرحمن پر بہت غصہ ہوئیں عبدالرحمن نے کہا (میں اس میں معذورہوں)خداکی قسم (لیلیٰ کا حسن وجمال ایسا ہے کہ) گویا میں اس کے دانتوں سے انارکے دانےچوستاہوں پھر(تھوڑے زمانے کے بعد )لیلیٰ سے عبدالرحمن نے سختی وبدخوئی شروع کردی جس کی وجہ سے لیلیٰ نے حضرت عائشہ سے ان کی شکایت کی حضرت عائشہ نے عبدالرحمن سے کہاکہ (تمھاری عجیب حالت ہے)لیلیٰ کودوست رکھاتواس قدر کہ حد سے بڑھادیااوراب اس کے ساتھ دشمنی کی تواس قدر کہ وہ بھی حد سے تجاوزکرگئی بس یاتو اس کے ساتھ
۱؎ ترجمہ میں لیلیٰ کویادکرتاہوں مگر(افسوس)میرے اوراس کے درمیان میں حجاب ہے ٘لیلیٰ ابتہ الجودی سے مجھے کیانسبت٘ میرےدل کوقبیلہ حارث کی وہ عورت کیوں لے لیتی ہے جو٘مقام بصرٰی اورجواب میں رہتی ہے ٘اے دل تواس سے کیوں کرملےگا٘ہاں شاید جب لوگ آئندہ سال حج کےلیے جائیں بشرط یہ کہ تواسے پاجائے۔
انصاف کابرتاؤکرو یااس کوسامان کے ساتھ اس کے عزیزوں میں بھیج دو چنانچہ عبدالرحمن نے لیلیٰ کو سامان دے کر اس کے عزیزوں کے پاس بھیج دیا۔لیلیٰ قبیلۂ غسان کی تھیں عبدالرحمن اپنی بہن حضرت عائشہ کے ساتھ جنگ جمل میں شریک تھے ہم کوابومحمد بن ابوالقاسم دمشقی نے اجازتاً خبردی وہ کہتے تھے ہمیں عیسیٰ بن علی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن محمد نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے ابن عائشہ نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے محمدبن زیاد نے بیان کیاکہ حضرت معاویہ نے مروان کو لکھ بھیجا کہ میرے بیٹے یزید کےلیےبیعت لی جائے عبدالرحمن (کوجب یہ خبرمعلوم ہوئی تو انھوں) نےکہاتم لوگوں نے رسم ہرقل ۱؎ (شاہ روم )کی سنت اختیارکی کہ اپنے بیٹوں کےلیے بیعت لیتے ہومروان نے کہااے لوگوں یہ (عبدالرحمن)وہی شخص ہیں جن کے واسطے اللہ تعالیٰ فرماتاہے والذی قال لوالدیہ اف لکمااورآخرتک پوری آیت پڑھی اس کے سننے سے حضرت عائشہ کوغصہ آگیااورفرمایاخداکی قسم عبدالرحمن وہ شخص نہیں ہیں کہ اس آیت میں مراد نہیں ہیں بلکہ جوشخص اس آیت میں مراد ہے اگرمیں اس کا نام بتاناچاہوں توبتاسکتی ہوں۔زبیر بن بکار نے روایت کی ہے اورکہاہے کہ مجھ سے ابراہیم بن محمد بن عبدالعزیززہری نے اپنے والد سے انھوں نے اپنے داداسے نقل کرکے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے حضرت معاویہ نے عبدالرحمن بن ابی بکرصدیق کے پاس ایک لاکھ درہم بھیجے بعداس کےکہ عبدالرحمن یزید کی بیعت سے انکارکرچکے تھے انھوں نے وہ درہم واپس کردیے اور ان کے لینے سے انکارکیا۔اورکہاکہ میں اپنے دین کودنیا کے عوض نہیں بیچتااور (مدینہ سے)مکہ چلے گئےاوروہیں وفات پائی قبل اس کے کہ یزیدکی بیعت کامل ہو۔ان کی موت ناگہانی تھی (اوراس کاواقعہ اس طرح ہے) کہ یہ عبدالرحمن ایک مکان میں جس کا نام حبشی تھا جومکہ سے دس میل کے فاصلے پر ہے سوتے کے سوتے ہی رہ گئے۔وہاں سے ان کی نعش مکہ لائی گئی اور وہیں دفن ہوئےجب حضرت عائشہ کوان کی وفات کی خبرپہنچی توباارادہ حج تشریف لے گئیں اور عبدالرحمن کی قبرپرکھڑے ہوکرروئیں اور یہ شعرپڑھے ؎
۳؎ وکنا کندمانی جذیمہ جقتۃً من الدہر حتی قیل لن یتصدعا
فلما تفرقنا کانی ومالکا بطول اجتماع لم بنت لیلتہ معا
(اے عبدالرحمن)آگاہ ہوجاؤ اللہ کی قسم اگر میں تمھارے پاس ہوتی توجہاں تم مرے تھے(وہیں) تم کودفن کرتی اور اگرمیں تمھارے پاس اس وقت ہوتی توتمھارے لیے نہ روتی عبدالرحمن کی وفات
ا؎ یعنی جس طرح قیصروکسرے کادستورہے کہ جب کوئی بادشاہ مرجاتاہے تواس کا بیٹا جانشین ہوتا ہےاب تم بھی کرنے لگے حضرت ابن عمر نے بھی یزید کی بیعت کاحکم سناتوفرمایاکہ یہ توکسریٰ و قیصر کی سنت ہے ابوبکروعمرکی سنت نہیں ہے۱۲۔
۲؎ اس آیت میں اس شخص کی مذمت کی گئی ہے جس نے اپنے والدین سے سخت کلامی کی تھی۱۲۔
۳؎ترجمہ (ایک زمانہ وہ تھاجب)ہم دونوں مثل جذیمہ (بادشاہ عراق)کے مثل دوہم نشینوں کے (ایک ساتھ رہتے تھے)بہت دنوں تک ایسی کیفیت رہی یہاں تک کہ کہاگیااب ہم دونوں جدانہ ہوں گے٘ مگرجب ہم اور مالک بعداس قدرطویل کی جائے تو(ایسامعلوم ہوتاتھا کہ)گویاہم دونوں ایک شب بھی ساتھ مل کرنہیں رہے۔
۵۳ھ میں ہوئی اوربعض لوگ ۵۵ھ اوربعض لوگ ۵۶ھ میں بیان کرتےہیں مگر ۵۳ھ میں ان کی وفات ہونے کو بہت لوگ بیان کرتے ہیں۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)