سیّدنا عبد ابوحدر رضی اللہ عنہ
سیّدنا عبد ابوحدر رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ان کی کنیت ابوحدردہے۔اسلمی ہیں یہ اپنی کنیت ہی کے ساتھ مشہورتھے۔ان کا تذکرہ انشاء اللہ تعالیٰ کنیت کے باب میں آئے گا ان کے نام میں علماء (نسب)نے اختلاف کیاہےاحمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے توان کا نام عبدبیان کیاہے اورہشام ابن کلبی نے ان کا نام سلامہ بن عمیربیان کیاہے اور پہلے بیان ہوچکاہے کہ یہ عبداللہ بن ابی حدردہیں امردرداء کے والدتھے واللہ اعلم۔ہم کوعبیداللہ بن احمد بن علی نے اپنی سند کویونس بن بکیرتک پہنچاکرخبردی انھوں نے محمد بن اسحاق سے انھوں نے جعفربن عبداللہ بن اسلم سے انھوں نے ابوحدردسے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے میں نے اپنی قوم کی ایک عورت سے نکاح کیااوردوسودرہم اس کے مہرکے مقررکیے اور میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اس واسطے)حاضرہواکہ آپ میرے نکاح میں کچھ مددکریں آپ نے (مجھ سے) دریافت کیا کہ تم نے مہرکس قدرمعین کیاہے میں نےعرض کیادوسودرہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ تم شاید(سمجھےہوگے)کہ ان (دوسودرہموں )کوجنگل سے اٹھالاؤگے۔خدا کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ جس سے میں تمھاری مددکروں میں(آپ کے اس فرمانے سے) کچھ دنوں ٹھہرگیا(اس اثناء میں)جشم بن معاویہ کے خاندان سے ایک شخص آیا جس کو لوگ رفاعہ بن قیس یا قیس بن رفاعہ کہتےتھے وہ اپنی قوم اورہمراہیوں کے ساتھ مقام غابہ میں اترا اور ارادہ رکھتا تھا کہ قبیلۂ قیس کے لوگوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائی کے واسطے جمع کرے یہ شخص خاندان جشم سے بڑا عالی مرتبہ تھا پس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کواوردواور مسلمانوں کو بلا بھیجا(جب ہم لوگ حاضرہوئے تو)آپ نے (ہم سے)فرمایا اس شخص کی طرف تم لوگ (جاسوس بن کر)جاؤاوراس کے حالات سے ہم کو اطلاع دو چنانچہ ہم لوگ مع اپنے ہتھیاروں کے چلے غروب آفتاب کے وقت ہم ان لوگوں کے پاس پہنچے پھرمیں ایک گوشہ میں چھپ گیا اور دونوں ساتھیوں کو بھی حکم دیا )کہ تم بھی چھپ رہوحسب الحکم)وہ دونوں بھی ان لوگوں کے دوسری جانب ایک گوشہ میں چھپ رہے میں نے ان دونوں سے یہ بھی کہا کہ جب تم دونوں لشکرمیں میری تکبیر اور حملہ کرنے کی آواز سننا توتم بھی تکبیرکہنااورمیرے ساتھ حملہ کرنایہاں تک کہ جب رات ہوگئی اور شام کی تاریکی دفع ہوگئی اور(اتفاق سے اس دن)ان کے چرواہے کوآنے میں دیرہوگئی تو ان لوگوں کواس کی جان کاخوف پیداہوااس وقت ان کا سردار رفاعہ بن قیس کھڑاہوااور تلوارکو(ہاتھ میں) لے کر کہاخدا کی قسم میں چرواہے کاپتہ لگاؤں گااس کے ساتھیوں میں سے کچھ لوگوں نے کہا اس کام کے لیے ہم کافی ہیں اس نے کہا خدا کی قسم سوائے میرے کوئی شخص نہ جائے اور نہ کوئی تم میں سے میرے پیچھے آئے(یہ کہہ کر)باہرنکلا اورہمارے پاس اس کاگذرہوا جب وہ بالکل میری زد پر آگیا تو میں نے اس پر ایک تیر چلایا کہ وہ اس کے دل پر(ایساکاری)پڑگیاجس کی وجہ سے کچھ بات بھی نہ کر سکا پھرمیں نے اس کے سرکوکاٹ لیااورلشکرکے ایک کنارے پر حملہ شروع کردیااور میرے ساتھیوں نے بھی حملہ اور تکبیرشروع کی خداکی قسم اس وقت وہ لوگ بھاگنے کے سوا کچھ نہ کرسکے اور سوا اپنی عورتوں اوربچوں اور ہلکے اسباب کے کچھ اپنے ساتھ نہ لے جاسکے اور ہم لوگ بہت سے اونٹ اور بکریاں ہانک کررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور میں نے اس رفاعہ کا سر بھی حضرت کے سامنے رکھ دیا پس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے مجھ کو تیرہ۱۳ اونٹ ادائے مہرکے لیے عنایت کیے اورمیں اپنی بی بی کو رخصت کرالایا۔اس کو محمد بن سلمہ وغیرہ نے ابن اسحاق سے نقل کیاہے انھوں نے جعفرسے انھوں نے عبداللہ بن ابی حدردسے انھوں نے اپنے والد سے روایت کیاہے اور اس کو ابراہیم بن سعد نے ابن اسحاق سے نقل کیاہے کہ انھوں نے کہا میں نے ان لوگوں سے روایت کی ہے جن پرمجھے بدگمانی نہیں ہے سلمہ بن فضل نے یونس کی روایت کے مانند اس کو روایت کیاہے اور اس کو عبدالملک بن ہشام نے کلبی سے انھوں نے ابن اسحاق سے ابراہیم بن سعد کی روایت کے مانند نقل کیاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)