ا بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف قریشی ہاشمی ہیں بعض لوگوں نے ان کا نام مطلب بیان کیا ہے ان کی والدہ ام حکم بنت زبیربن عبدالمطلب بن ہاشم ہیں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بالغ تھے اس کوزبیرنے بیان کیاہےبعض لوگوں نے بیان کیا ہے کہ بچے تھے واللہ اعلم۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام کونہیں بدلاتھا یہ مدینہ میں رہتے تھے پھر حضرت عمربن خطاب کی خلافت کے زمانے میں شام چلے گئے تھے اوردمشق میں فروکش ہوئے اور وہیں مکان بنالیاتھا زہری نے عبداللہ بن عبداللہ بن حارث بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب سے انھوں نے عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث سےنقل کرکے بیان کیاہے کہ ربیعہ بن حارث اورعباس دونوں نے متفق ہوکرکہاخداکی قسم (کیااچھی بات ہوتی)اگرہم ان دونوں لڑکوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیتے پھردونوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی حضرت نے دونوں لڑکوں کوتحصیل صدقات پر مقررکردیا اس کے بعد راوی نے پوری حدیث بیان کی ہم کو ابراہیم بن محمد بن مہران اوراسمعیل بن محمد نے اپنی سندوں کو ابوعیسیٰ سلمی تک پہنچاکرخبردی وہ کہتے تھے ہم سے قتیبہ نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے ابوعوانہ نے یزید بن ابی زیاد سے انھوں نے عبداللہ بن حارث سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتے تھےمجھ سے عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے بیان کیاکہ عباس بن عبدالمطلب(ایک دن)رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہایت رنج کی حالت میں گئے میں آپ کے پاس موجودتھا آپ نے فرمایاتم کس وجہ سے رنجیدہ ہو عباس نے کہایارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)ہم میں اورقریش میں کیابات ہے کہ جب وہ آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو خندہ پیشانی سے ملتے ہیں اورجب ہم سے ملتے ہیں تواس طرح نہیں ملتے(راوی نے )کہارسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کو(یہ سن کر)ایساغصہ آیا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیااور فرمایا قسم ہے اس کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک تم کواللہ کے واسطے دوست نہ رکھے۔پھرفرمایااے لوگوں جس نے میرے چچاکو تکلیف دی اس نے مجھ کو تکلیف دی کیوں کہ چچااورباپ برابرہوتے ہیں عبدالمطلب نے دمشق میں وفات پائی تھی حضرت معاویہ نے ان کے جنازے کی نماز پڑھی اور ابن عاصم نے کہاہے کہ غالباً انھوں نے ۶۱ھ میں وفات پائی۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)