بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم قریشی مخزومی ہیں ان کی کنیت ابومحمد تھی اور ان کی والدہ فاطمہ بنت ولیدبن مغیرہ تھیں۔مصعب زبیری اور واقدی نے بیان کیا ہے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس وقت یہ دس برس کے تھے علم اوردین داری اور بلند رتبگی کے لحاظ سے بزرگان اسلام میں ان کا شمارتھا انھوں نے حضرت عمروعثمان و علی و عائشہ صدیقہ وغیرہم سے ( رضی اللہ عنہم)روایت کی ہے اوران سے ان کے بیٹے ابوبکراور شعبی وغیرہ نے روایت کی ہے۔ابومعشر نے محمد بن قنیس سے روایت کر کے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ سے واقعہ جمل کا ذکرکیاگیا تو حضرت عائشہ صدیقہ نے پوچھاکہ کیا لوگ اس واقعہ کا ذکرکیاکرتے ہیں لوگوں نے کہاہاں حضرت عائشہ نے فرمایا(لوگ شاید اس میں کوئی فخرکی بات سمجھتے ہیں مگرمیری حالت تو یہ ہے کہ)مجھے (رہ رہ کے)آرزوآتی ہے کہ کاش میں بھی اسی طرح گھر میں بیٹھی رہتی جس طرح اورازواج نبی بیٹھی رہیں یہ بیٹھ رہنا مجھے اس سے بھی زیادہ محبوب ہے کہ میرے شکم میں عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام اور عبداللہ بن زبیرکے ایسے سے دس سے زائد لڑکے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے۱؎ پیداہوتےان عبدالرحمٰن کے والد حارث بن ہشام نےطاعون عمواس میں وفات پائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن کی والدہ فاطمہ سے نکاح کرلیاعبدالرحمٰن نے حضرت عمرہی کے یہاں پرورش پائی۔اورانھیں عبدالرحمٰن کا نا م ابراہیم تھاحضرت عمرنے ان کا نام اسوقت بدل کر عبدالرحمٰن رکھاجس وقت تمام ان لوگوں کے نام بدلے گئے جن کا نام انبیا کے نام پر تھایہ غزوہ جمل میں حضرت عائشہ صدیقہ کے ساتھ موجودتھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی مریم کا ان کے ساتھ نکاح کردیاتھا یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نےحکم دیا تھاکہ زید بن ثابت اورسعید بن عاص اورعبداللہ بن زبیرکے ساتھ مل کر مصحف قرآنی کی کتابت کاکام انجام دی(ایام بغاوت میں)حضرت عثمان کے ساتھ یہ بھی باغیوں کے
۱؎ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کو اس بات کا سخت ملال تھا کہ میں مفسدوں کے بہکانے میں آکر حضرت علی مرتضیٰ سے واقعہ جمل میں کیوں لڑی اسی اپنے ملال کووہ ان الفاظ میں ظاہر کررہی ہیں کہ باوجود یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کا کسی عورت کے شکم سے پیداہونا اس کے لئے نہایت فضیلت کی بات ہے مگر میرے نزدیک حضرت مرتضیٰ سے جنگ نہ کرنااس سے بھی افضل تھا ام المومنین کا زہدوورع اور خوف خدا کہ باوجود یہ کہ اس لڑائی کا تصور نہ تھا پھر بھی وہ اپنے کوقصور وار سمجھتی تھیں خاصان خداکی یہی حالت ہوتی ہے یہ کیفیت بہ برکت صحبت سیدا لانبیااس زمانے کے تمام لوگوں میں تھی دیکھئے اس واقعہ جمل میں طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہ کےشہید ہوجانے پرحضرت علی مرتضی کوکس قدرملال ورنج تھا اورکیسی ندامت تھی حالاں کہ اس میں ان کا کچھ قصور نہ تھا۔
حصار میں تھے اور میں زخمی ہوئے لوگ ان کو اٹھاکر ان کے گھرلے گئے (ان کی حالت دیکھ کر ان کی عورتیں آہ وزاری کرنے لگیں۔عمار بن یاسر نے ان عورتوں کی آواز سن کر یہ شعر پڑھا۔
۱؎ ذوقوا کما ذقنا عذاۃ محجر ٘ من الحرنی اکیادن والنخوب
اس شعر میں اس (واقعہ کی)طرف اشارہ ہے کہ ابوجہل نے جوان عبدالرحمٰن کا چچاتھا عمار کی والدہ سمیہ کو (نہایت شرمناک اور وحشیانہ طریقہ سے محض مسلمان ہوجانے کے جرم میں قتل کیا تھا حارث بن ہشام کی نسل سوا عبدالرحمٰن کے اور سب سے منقطع ہوگئی تھی ان عبدالرحمٰن کی وفات حضرت معاویہ کی خلافت میں ہوئی تھی ان کا تذکرہ ابوعمراور ابوموسیٰ نے لکھا ہے۔