خزاعی۔یہ نافع بن عبدالحارث کے غلام تھے انھوں نے کوفہ میں سکونت اختیارکرلی تھی۔ ان کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خراسان کاحاکم بنایاتھا۔انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کوپایاہے۔ ان کی اکثرروایتیں حضرت عمر اورابن ابی کعب رضی اللہ عنہما سے منقول ہیں۔ انھیں کے بار ے میں (حضرت)عمر بن خطاب کا یہ قول ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ ان لوگوں میں ہیں کہ جن لوگوں کا مرتبہ کو اللہ عزوجل نے قرآن کے حفظ کرنے کے صلہ میں بلندکیا ان سے ان کے دونوں لڑکے سعیداورعبداللہ نے عبداللہ بن ابی مجاہد نے حدیث روایت کی ہے۔ہمیں خطیب ابوفضل یعنی عبداللہ بن احمد نے اپنی سند سے ابوداؤد طیالسی تک خبردی وہ کہتے تھے ہم سے شعبہ نے محمد بن ابی مجاہد سے نقل کر کے بیان کیا ہو کہتے تھے کہ ابوبردہ اور عبداللہ بن شداد نے بیع سلم کے متعلق جھگڑا کیا تولوگوں نے مجھ کو ابی بن ابی اوفی کے پاس بھیجا تاکہ میں ان سے دریافت کروں چنانچہ میں نے ان سے دریافت کیاتوانھوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گیہوں اور جو اور چھوہارے اور انگور میں بیع سلم کرتے تھے اور میں نے ابن ابزیٰ سے دریافت کیاتوانھوں نے بھی ایساہی جواب دیا۔ہمیں ابواحمد یعنی عبدالوہاب بن علی امین نے اپنی سند سے سلیمابن اشعث تک خبردی وہ کہتے تھے ہم سے ابوداؤد نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے شعبہ نے حسن ابن عمران سے روایت کرکے بیان کیا وہ کہتے تھے کہ ابن بشار شامی نے بیان کیا ہے کہ ابوداؤد اورعبداللہ عسقلانی نے ابن عبدالرحمٰن بن ابزی سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کر کے بیان کیا کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے پس یہ تکبیرکوتمام نہیں کرتے تھے ہمیں ابوفضل یعنی منصور بن ابی حسن فقیہ طبری نے خبردی انھوں نے اپنی سند سے ابویعلی موصلی تک بیان کیا و ہ کہتےتھے ہم سے ابراہیم بن حجاج شامی نےبیان کیا ہو کہتے تھے ہم سے حماد بن سلمہ نے حمید سے انھوں نے حسن بن مسلم سے روایت کرکے بیان کیا کہ (حضرت) عمربن خطاب نے مکہ پر نافع بن عبدالحارث کوعامل بنادیا پس جب حضرت عمر مکہ میں تشریف لے گئے تو نافع بن عبدالحارث نے ان کا استقبال کیا اور اس کی درخواست کی کہ اہل مکہ پرعبدالرحمٰن بن ابزیٰ کوخلیفہ بنادیں(اس کو سن کر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ غصہ میں آگئے یہاں تک کہ مارے غضب کےپالان ہی پر کھڑے ہوگئے اور یہ فرمانے لگے کہ تم نے اللہ کےاہل پر یعنی اہل مکہ پر عبدالرحمٰن ابزی کو خلیفہ بناناچاہا۔نافع نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ (ہاں) میں نے ان کو اہل مکہ میں سب سے اقرء بکتاب اللہ اور افقہ فی الدین پایا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو سن کر ان کی تواضع کی اور یہ فرمایا کہ بے شک میں نے بھی رسول خدا کو یہ فرماتے ہوئےسناتھا کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ چند قوموں کوقرآن کے ذریعہ سے بلند رتبہ کرے گا اور بہتوں کو اسی کے باعث ذلیل و خوار کرے گا۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)