سیّدنا عبدالرحمن ابن عوف بن عبدعوف رضی اللہ عنہ
سیّدنا عبدالرحمن ابن عوف بن عبدعوف رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عبدبن حارث بن زہرہ بن کلاب بن مرہ قریشی زہری ہیں ان کی کنیت ابومحمدتھی اورایام جاہلیت میں ان کا نام عبدعمروتھابعض لوگوں نےعبدالکعبہ بیان کیا ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے (بدل کر)عبدالرحمن رکھاان کی والدہ شفابنت عوف بن عبدبن حارث بن زہرہ تھیں یہ واقعہ فیل کے دس برس کے بعد پیداہوئےتھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں پہنچنےسے پیشترایمان لائےتھےاوریہ ان آٹھ شخصوں میں سےہیں جو سب سے پیشترایمان لائے تھے اور ان پانچ آدمیوں میں سے جوحضرت ابوبکر صدیق کے ہاتھ پرایمان لائے تھے ایک یہ بھی تھے ان لوگوں کوہم نے حضرت ابوبکر صدیق کے بیان میں ذکرکیاہے۔اوریہ ان مہاجرین اولین میں سے ہیں جنھوں نے حبش اورمدینہ کی طرف ہجرت کی تھی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اورسعدبن ربیع میں بھائی چاراکرایاتھایہ غزوۂ بدراوراحداورتمام غزوات میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھےان کورسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے (مقام)۱؎دومتہ الجندل میں کلب کی طرف بھیجاتھااوراپنےدست مبارک سے ان کے (سر پر)عمامہ باندھااور دونوں شانوں کے درمیان (عمامہ کا)شملہ لٹکادیاتھااور ان سے فرمایاکہ اگرتم کواللہ تعالیٰ فتح دے تو(وہاں کے)بادشاہ کی لڑکی کے ساتھ نکاح کرلینایا(فرمایاکہ وہاں کے)شریف کی لڑکی سے نکاح کرلینا (بادشاہ اورشریف دونوں کواس روایت میں اپنے شک کی وجہ سے راوی نے بیان کیاہے) اصبغ بن ثعلبہ بن ضمغم کلبی(وہاں کا)شریف تھاانھوں نے (بعدفتح کے)اس کی لڑکی تاضرکے ساتھ نکاح کرلیاان سے ابوسلمہ پیداہوئے۔عشرۂ مبشرہ میں سے یہ بھی ایک شخص ہیں اور ان چھ اہل مشورہ میں سے ایک یہ بھی ہیں جنھیں عمررضی اللہ عنہ نے اپنے بعدخلیفہ کرنے کے واسطے پیش کیاتھا اور یہ کہاتھاکہ رسول خدا نے انتقال فرمایااوران چھ شخصوں سے بہت راضی گئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھےسفرمیں نمازپڑھی تھی غزوۂ احد میں ان کے زخم لگےتھےاور ایک زخم ان کے پیرمیں لگ گیاتھاکہ جس کی وجہ سے یہ لنگڑاکرچلتے تھےاور(غزوۂ احد میں)ان کے دودانت آگے کے شہید ہوگئےتھےیہ اس کی وجہ سے بہت رنجیدہ تھے یہ اللہ کی راہ میں (اپنے مال کوزیادہ خرچ کرتے تھےایک مرتبہ)تیس غلام ایک دن میں آزادکیےہم کوابراہیم بن محمد بن مہران فقیہ اور اسمعیل بن علی مذکراوران کے علاوہ لوگوں نے اپنی سندوں کو ابوعیسیٰ ترمذی تک پہنچاکر خبردی وہ کہتے تھےہم سے صالح بن مسمارمروزی نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے ابن ابی فدیک نے موسیٰ بن یعقوب سےانھوں نے عمروبن سعیدسے انہوں نے عبدالرحمن بن حمیدسے انھوں نے اپنے والد سے روایت کرکےبیان کیاکہ بے شک سعید بن زیدنے لوگوں میں بیان کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تحقیق دس آدمی جنت میں (ضرور)ہوں گے(وہ یہ ہیں)ابوبکرجنت میں،عمر جنت میں،اور علی ،عثمان، زبیر،طلحہ ،عبدالرحمن بن عوف،ابوعبیدہ بن جراح،سعدبن ابی وقاص کہا (ابراہیم نے)ان نوآدمیوں کوگنایااوردسویں سے سکوت کیا۔لوگوں نے کہاکہ تم کوخداکی قسم دسویں کوبھی بیان کروتو(سعیدنے )کہاتم لوگ مجھ کو اللہ کی قسم دیتے ہو(تودسواں)ابوالعور جنتی ہے ابراہیم نے کہاکہ ابوالاعورسعیدبن زیدبن عمروبن نفیل کی کنیت ہمیں ابوالفرج بن ابی الرجاء اصفہانی نےخبردی وہ کہتے تھےکہ یہ حدیث حسن بن احمدسےپڑھی جارہی تھی اورمیں اس کو اپنی موجودگی میں سن رہاتھا حسن بن احمدکہتے تھےہم سے حافظ ابونعیم نے بیان کیاو ہ کہتے تھے ہم سے سلیمان بن احمد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے احمدبن حمادبن زغبہ نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے سعیدبن عفیرنےبیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے سلیمان بن بلال نے یحییٰ بن سعیدسےانھوں نے حمید سے انھوں نے انس سے روایت کرکے بیان کیاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار میں بھائی چارہ کرایاسعدبن ربیع اورعبدالرحمن بن عوف کے درمیان میں بھائی چارہ کرایاسعد نے عبدالرحمن سے کہامیرے پاس جومال ہے وہ میرے تمھارے درمیان نصف نصف ہوناچاہیے اور دو بیبیاں ہیں انکودیکھ لو جس کو تم پسند کرو میں اس کو طلاق دے دوں جب عدت ختم ہوجائے اس وقت اس عورت سے نکاح کرلوانھوں نے جواب دیاکہ تمھارے مال اور بی بی کی مجھ کو کچھ حاجت نہیں ہے اللہ تعالیٰ تمھارے مال اوراہل میں برکت عنایت کرے مجھ کو بازار بتلادو۔ہم کوابومنصور یعنی مسلم ابن علی بن محمد بن سنجی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالبرکات یعنی محمدبن محمد بن خمیس جہنی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابونصر بن طوق نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالقاسم بن مرجی نے خبردی وہ کہتے تھے ہم کو احمد بن علی نےخبردی وہ کہتے تھے ہم سے زہیربن حرب نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے عبداللہ بن محمدوراوردی نے عبدالرحمن بن حمید سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نےعبدالرحمن بن عوف سے روایت کرکے بیان کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے دس آدمی جنت میں (ضرور)ہوں گے ابوبکر جنت میں،عمرجنت میں،عثمان جنت میں،علی جنت میں،طلحہ جنت میں،زبیرجنت میں،عبدالرحمن بن عوف جنت میں،سعدبن ابی وقاص جنت میں،سعیدبن زیدجنت میں،ابوعبیدہ بن جراح جنت میں ہوں گے۔حافظ ابونعیم نے کہاہے کہ ہم سے احمدبن علی نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے موسیٰ بن حیان مصری نے بیان کیاوہ کہتے تھے مجھ سے محمدبن عمربن عبیداللہ رومی نے بیان کیاکہ میں نے خلیل بن مرہ کو ابومیسرہ سے انھوں نے زہری سے انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے سنا کہ عالم(شریعت کارتبہ) عابدسے ستردرجہ زیادہ ہے درمیان ہردودرجوں کے (اتنافاصلہ ہے)جیساکہ آسمان اور زمین کے درمیان (فاصلہ)ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاہے کہ عبدالرحمن بن عوف (اہل )آسمان میں امانت دار ہیں اور(اہل)زمین میں امانت دار ہیں۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی عبدالرحمن بن عوف نے ان اہل مشورہ سے جن میں حضرت عمرنے(امر)خلافت کوڈال دیاتھا( اور ان سے یہ کہہ دیاگیاتھاکہ ان لوگوں میں سے جس کوچاہنا خلیفہ کرنا کہاکون شخص ہے جو خلاف سے اپنے کونکال ڈالے اورمسلمانوں کے واسطے برگزیدہ کرے ان کے کسی نے جواب نہ دیا۔عبدالرحمن نے کہامیں اپنی ذات کو خلافت سے باہرکرتاہوں اور مسلمانوں کے واسطے پسندکرتاہوں ان لوگوں نے اس کو منظورکرلیاانھوں نے اس بات پران لوگوں سے عہد لیے(جب وعدے لے چکے)تو حضرت عثمان کو (خلافت کے واسطے)منتخب کیااوران کی بیعت کی۔یہ قصہ مشہورہے ہم نے اس کو تاریخ کامل میں ذکرکیاہے یہ عبدالرحمن بڑے تاجرتھے(انھوں نے )تجارت میں بہت نفع پایااور بڑے مالدارتھے۔بعض لوگوں نے بیان کیا ہے کہ یہ عبدالرحمن (ایک دن)ام المومنین ام سلمہ کے پاس آئے اورکہااے ماں میں ڈرتاہوں کہیں مجھ کو میرے مال کی زیادتی ہلاک نہ کردے حضرت ام سلمہ نے فرمایاکہ بیٹا اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ہم کو ابومحمدبن ابی القاسم نے کتابتہً خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ہمارے والد نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوعمرومحمد بن قاسم اور ابوالفتح مختار بن عبدالحمیداورابوالمحاسن اسعد بن علی اور ابوالقاسم حسین بن علی بن حسین نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالحسن یعنی عبدالرحمن بن محمد بن مظفر نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن احمد حمویہ نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے ابراہیم بن خزیم نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سےعبدبن حمیدنے بیان کیاوہ کہتے تھےہم سےیحییٰ بن اسحاق نے بیان کیاوہ کہتے تھےہم سے عمارہ ابن زادان نے ثابت بنانی سے انھوں نے انس بن مالک سے روایت کرکے بیان کیاکہ وہ کہتےتھے عبدالرحمن بن عوف نے جب ہجرت کی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نےان کےاورعثمان بن عفان کے درمیان مواخاۃ۱؎ کرادی تھی ان سے (حضرت )عثمان نےکہا کہ میرے پاس خرمے کے دوباغ ہیں (ان میں سے) جو چاہو تم پسندکرلوعبدالرحمن نے کہا کہ اللہ تمھارے باغ میں برکت دے میں اس واسطے مسلمان نہیں ہوا ہوں۔تم مجھ کو بازارکاراستہ بتادو(تاکہ کچھ کام کروں)حضرت عثمان نے ان کو بازار کا راستہ بتادیا پس (یہ بازارجاکر)گھی اورپنیراورچمڑے کی خریدوفروخت کیاکرتے تھے (اس تجارت سے انھوں نے)مال جمع کرلیا(اس کے بعد)انھوں نے (ایک عورت سے)اپنانکاح کرلیااور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ولیمہ کرواگرچہ ایک ہی بکری ہو (انس بن مالک نے)کہا(تجارت نے ان کو ایسا نفع دیاکہ)ان کے پاس بہت سامال(جمع)ہوگیا یہاں تک کہ (ایک مرتبہ)عبدالرحمن (ابن عوف)کے سات سے اونٹ گیہوں اور آٹا اور خرمے لادے ہوئے( حضرت انس ابن مالک فرماتے ہیں)کہ جب یہ اونٹ مدینہ (منورہ)میں پہنچے تو مدینہ(منورہ) والوں کو (ان کی رفتارسے گونج کی آواز سنائی دی حضرت عائشہ نے (اس گونج کو سن کر)فرمایاکہ یہ گونج کیسی ہے بعض لوگوں نے آپ سے کہا کہ عبدالرحمن بن عوف کے اونٹ آئے ہیں اوروہ سات سو ہیں گیہوں اور آٹااور خرمے لادے ہوئے حضرت عائشہ نے (یہ سن کر)فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناہے کہ عبدالرحمن بن عوف جنت میں گھسٹتے ہوئے جائیں گے جب عبدالرحمن کواس کی خبرپہنچی (توحضرت عائشہ سے)کہا کہ اے ماں بے شک میں گواہی دیتاہوں کہ یہ اونٹ مع کل سامان واسباب اللہ کی راہ میں وقف ہیں اسی طرح اس روایت میں ہے کہ ان سے حضرت عثمان کی مواخاۃ کرادی گئی تھی مگرصحیح یہ امر ہے کہ سعدبن ربیع انصاری کے ساتھ مواخاۃ ہوئی تھی جیساکہ ہم نے ذکرکیاہے اور معمرنے زہری سے روایت کی کہ وہ کہتے تھے عبدالرحمن بن عوف نے (ایک مرتبہ اپنا)نصف مال جوچارہزراتھا(اللہ کی راہ میں )خیرات کیاپھر(اس کے بعد) چالیس ہزار دینارخیرات کیے پھرپانچ سو گھوڑے فی سبیل اللہ (یعنی جہاد میں)سوارہونے کے لیے دیے پھرپانچ سواونٹ فی سبیل اللہ (جہادمیں)سواری کے لیے دیےیہ مال ان کی تجارت ہی سے تھا۔ حمید نے انس سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے خالد بن ولید اورعبدالرحمن بن عوف کے درمیان (کچھ )گفتگو ہوگئی پس خالد نے عبدالرحمن سے کہاکہ تم ہم سے ان کاموں کی بابت جوپہلے کرچکے ہو زبان درازی کرتے ہو۔یہ خبررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچی آپ نے فرمایا میرے اصحاب کو میرے واسطے چھوڑ دو قسم اس (ذات)کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص تم میں سے(اللہ کی راہ میں کوہ)احد کی مانندسوناخرچ کرے(تووہ سونااصحاب کے)ایک مد یا نصف (مد)کے برابربھی نہ پہنچے گااوریہ (واقعہ)دونوں(یعنی عبدالرحمن و خالد)کے درمیان اس وقت ہوا کہ جب رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کوفتح مکہ کے بعد بنی جذیمہ کے پاس بھیجاخالد نے دھوکے سے ان کے کچھ لوگوں کوقتل کرڈالا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں (یعنی بنی جذیمہ کے مقتولوں)کاخوں بہادیااوران کا اسباب جوکچھ لے لیا گیاتھا وہ انھیں لوگوں کو (یعنی بنی جذیمہ )کوواپس دیابنوجذیمہ نے ایام جاہلیت میں عوف بن
عبدعوف یعنی عبدالرحمن کے والد کو قتل کرڈالاتھااورخالد کے چچا فاکہ بن مغیرہ کوبھی قتل کرڈالاتھا عبدالرحمن نے خالد سے کہا کہ تم نے ان لوگوں(یعنی بنی جذیمہ)کواس وجہ سے قتل کیاکہ انھوں نے تمھارے چچاکوقتل کیاتھا۔ خالد نے کہاکہ تمھارے باپ کو بھی توانھوں نے قتل کیاتھااور گفتگومیں سختی کی(اس واقعہ کی خبر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی)آپ نے وہ الفاظ فرمائے (جواوپرمذکورہوئے)۔ہم کوابویاسر بن ابی حبہ اور دوسرے لوگوں نے بطریق اجازت کے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوغالب بن بناء نے خبردی وہ کہتے تھےہمیں ابومحمد جوہری نے خبردی وہ کہتے تھےہمیں ابوعمربن حیویہ اورابوبکربن اسمعیل نے خبردی وہ دونوں کہتے تھےہم سے یحییٰ بن محمدابن صائب نےبیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے حسین بن حسن نے بیان کیاوہ کہتے تھےہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا وہ کہتے تھےہم سے شعبہ نے سعد بن ابراہیم سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کرکے بیان کیا کہ عبدالرحمن کھانا لے کرآئے اورروزے سے تھے پس انھوں نے کہا مصعب بن عمیرشہید ہوئے اور و ہ مجھ سے نیک تھے(ان کو)انھیں کی چادرکاکفن دیاگیا(وہ چادر اس قدر چھوٹی تھی) کہ اگر ان کا سر ڈھانکاجاتاتھا توپیرکھل جاتےتھےاگرپیرڈھانکے جاتے تھے توسرکھل جاتاتھامیں یہ خیال کرتاہوں کہ (عبدالرحمن نے)کہاحضرت حمزہ قتل ہوگئے اور وہ مجھ سے بہترتھے پھردنیا ہمارے لیے کشادہ کردی گئی جس قدر کشادہ کی گئی یایہ کہاکہ دنیاہمیں دی گئی جس قدردی گئی ہمیں اندیشہ ہوتاہے کہ شاید ہماری نیکیاں ہمیں دنیا میں دے دی گئیں پھریہاں تک روئے کہ ان کے ہاتھ سے کھاناگرپڑا۔ہم کو ابوالفضل بن ابی الحسن طبری نے اپنی سند کو ابویعلیٰ یعنی احمد بن علی تک پہنچاکرخبردی وہ کہتے تھے ہم سے حسن بن اسمعیل یعنی ابوسعید بصری نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ابراہیم بن سعد نے اپنے والد سے انھوں نے اپنےداداسے انھوں نے عبدالرحمن بن عوف سے روایت کرکے بیان کیا کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم عبدالرحمن بن عوف کے پاس پہنچے اوروہ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے انھوں نے اراداہ کیا پیچھے ہٹ جائیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اشارہ کیاکہ اپنی جگہ پر رہو(یہ اشارہ پاکرانھوں نے نماز پڑھناشروع کی )اوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن کے پیچھے نمازپڑھی۔ان سے عبداللہ بن عباس اور عبداللہ ابن عمراور جابراور انس اورجبیربن مطعم اور ابراہیم اور حمیداورابوسلمہ اور مصعب عبدالرحمن کے بیٹوں اور مسوربن محزمہ عبدالرحمن کے بھانجے اورعبداللہ بن عامربن ربیعہ اور مالک بن اوس بن حدثان وغیرہم نے روایت کی ہے ۳۱ھ میں بمقام مدینہ عبدالرحمن کی وفات ہوئی ان کی عمرپچھتربرس کی تھی اور پچاس ہزاردیناراللہ کی راہ صرف کرنے کی انھوں نے وصیت کی تھی اس کو عروہ بن زبیرنے بیان کیا ہے اورزہری نے کہاہے کہ عبدالرحمن نے غزوۂ بدرمیں جولوگ شریک تھے اور شہید نہیں ہوئے تھے ان میں سے ہرایک آدمی کے واسطے چارسودینار (دینے کی)وصیت کی تھی وہ سب سات سو آدمی تھے ان لوگوں نے (چارچارسودینار وصیت کے موافق)لے لیے جن لوگوں نے وہ دینار لیے ان میں سے حضرت عثمان بھی تھے اور ایک ہزرار گھوڑے اللہ کی راہ میں دینے کی وصیت کی تھی ۔جب عبدالرحمن کی وفات ہوئی حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا کہ اے (عبدالرحمن)ابن عوف جاؤ بے شک تم نے اچھازمانہ پایا اور فتنہ سے پہلے چل دیے جولوگو عبدالرحمن کاجنازہ اٹھائے ہوئے تھے ان میں سے سعد بن ابی وقاص بھی تھےاورواجبلاہ۱؎(یعنی اے میرے پہاڑ چل بسے)کہتے( جارہے)تھےانھوں نے اپنے متروکہ میں سونابہت چھوڑاتھاوہ کلہاڑیوں سے کاٹاگیااس سے (مال کی اس قدر کثرت تھی کہ)لوگوں کے ہاتھ بھرگئے اورایک ہزار اونٹ اور سوگھوڑے اورتین سو بکریاں جوبقیع میں چراکرتی تھیں چھوڑیں اور ان کی چار بیبیاں تھیں ۔(جن میں سے )ایک عورت کو اسی ہزارروپیے دیکران کے وارثوں نے رخصت کیایہ عبدالرحمن سرخ وسفید خوبصورت آدمی تھے اکہراجسم تھا۔فراخ چشم پلکیں زیادہ اور بڑی تھیں۔ان کی ناک اونچی ولمبی تھی ان کے سرکے بال شانوں تک لٹکے ہوئے تھےاور ان کی دونوں ہتھیلیاں پرگوشت تھیں انگلیاں موٹی تھیں اپنی داڑھی اور اپنے سر کے بال کونہیں بدلتے تھے یعنی خزاب نہیں لگاتے تھے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)