ابن غنم اشعری ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان تو تھے مگرآپ کو دیکھانہ تھا۔ اور نہ آپ کے پاس وفد میں آئے جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کویمن کی طرف روانہ کیا تویہ عبدالرحمن ان کے ہمراہ (یمن کی طرف)چلے گئےتھےاوروہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان کا انتقال ہوگیایہ معاذ کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان کے شاگرد مشہورتھے انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حدیثیں سنی ہیں اہل شام میں یہ اتنے بڑے فقہ جاننے والے تھے کہ انھوں نے شام کے تابعین کو فقیہ بنادیاتھایہ بڑے قدراوربزرگی والے تھے یہ وہی عبدالرحمن ہیں جنھوں نے ابودرداء اورابوہریرہ پر(اس وقت )غصہ کیاتھاجب وہ دونوں حضرت معاویہ کا پیغام پہنچاکر حضرت علی کے پاس لوٹے ہوئے واپس آرہے تھے انھوں نے ان دونوں سے کہاکہ تم دونوں سے تعجب ہے کہ کس طرح تم دونوں نےاپنے اوپریہ جائزکرلیا جس کی وجہ سے تم دونوں علی سے کہتے ہو کہ (خلافت کو)مشورہ میں ڈال دو حالاں کہ تم دونوں نے سمجھ لیا ہے کہ علی کی بیعت مہاجرین اورانصاراوراہل حجاز اور اہل عراق نے کی ہےاورجولوگ ان سے راضی ہیں وہ بہترہیں ان سے جوان سے ناراض ہیں اور جس نے ان سے بیعت کی ہے وہ اس شخص سے بہتر ہے جس نے ان کی بیعت نہیں کی اورمشورہ کرنے میں معاویہ کوکون سا دخل ہے اوران دونوں کو ان کے( قاصد ہوکر)آنے پربرابھلاکہا(عبدالرحمن کے کلام سے ان کو شرمندگی ہوئی اوراپنے آنے پردونوں نے ان کے روبروتوبہ کی ۔انھوں نے (یعنی عبدالرحمن)نے ۷۸ھ میں وفات پائی۔ ان سے ابوادریس خولانی اوراہل شام کی ایک جماعت نے روایت کی ہے اس کوابوعمر نے بیان کیاہے ابن مندہ نے ابن یونس سے روایت کرکے بیان کیاہے کہ یہ عبدالرحمن بن غنم بن کریب بن ہانی بن ربیعہ بن عامربن عدی بن وائل بن ناجیہ بن حنبل بن جماہر ابن اوعم بن اشعررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس دریاکاسفرکرکے آئے تھے اور مروان بن حکم کے ساتھ مصرمیں ۶۵ھ میں آئے تھے۔ہم کو عبدالوہاب بن ہبتہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن احمد سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کرکے خبردی وہ کہتے تھے مجھ سے وکیع نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے عبدالحمید نے شہر بن حوشب سے انھوں نے عبدالرحمن بن غنم سے نقل کرکے بیان کیاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے کےعتل الزنیمکےمعنی دریافت کیے آپ نے فرمایا(عتل الزنیم)وہ ہےجوبد خلق ،تندرست ،زیادہ کھانے پینے والا،لوگوں پرزیادہ ظالم،شہوت کثیررکھنے والاہو۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔میں کہتاہوں ابوعمرنے جوابودرداء اورابوہریرہ پرعبدالرحمن کے عتاب کرنے کو ذکرکیاہے اس میں میرے نزدیک غلطی ہےکیوں کہ بنابرصحیح اقوال کے ابوالدرداء کی وفات اس
۱؎عتل بضم عین وتافوقانی وتشدیدلام اس شخص کوکہتے ہیں جونہایت سرکش بدعادت سخت گفتار ہو لوگوں کوآزار بہت دیتاہو خوراک زیادہ کھاتاہو اللہ تعالیٰ فرماتاہے عتل بعدذالک زنیمزنیم بفتح زائے معجمہ وکسرنون وہ مجہول النسب ہے کہ کسی قوم میں مل جائے اور اسی قوم میں سے پکارا جائےذلیل وخواراوربدعادت اوروہ کمینہ جواپنی ذلت اورکمینگی کی وجہ سے مشہورہو۱۲۔
زمانے سے پہلے ہوئی ہے کہ جس میں حضرت علی کے واسطے بیعت کی گئی تھی ابوعمرنے کہاہے صحیح یہ ہے کہ ابوالدرداء نے حضرت عثمان کی شہادت سے پیشتروفات پائی جنھوں نے بیان کیا ہے کہ ابوالدرداء کی ۳۸ھ یا۳۹ھ میں وفات ہوئی ان کے قول کی تردیدہوگئی واللہ اعلم۔
(6-7اسد الغابۃ جلد نمبر )