سیّدنا عبدالرحمٰن ابن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
سیّدنا عبدالرحمٰن ابن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن مغیرہ قریشی مخزومی ہیں انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایاتھا اور آپ کودیکھابھی تھا ان کے والد بھی صحابی تھے۔ان کی والدہ اسماء بنت اسد بن مدرک خیثمی تھیں۔ ان کی کنیت ابومحمد تھی قریش کے شہسوار اور بہادروں میں سے تھے اور صاحب فضل وہ کرم و نیک سیرت تھے۔لیکن حضرت علی مرتضیٰ اوربنوہاشم سے منحرف تھے بوجہ اس کے کہ یہ اپنے بھائی مہاجر بن خالد کے مخالف تھے اور مہاجرحضرت علی کے محب تھے۔ان کے ساتھ واقعہ جمل و صفین میں شریک تھے (پس ضرورہوا کہ یہ حضرت علی مرتضیٰ سے احترازکریں)یہ عبدالرحمٰن واقعہ صفین میں حضرت معاویہ کے ساتھ تھے۔اورحمص میں سکونت اختیارکی تھی واقعہ یرموک میں اپنے والد کے ساتھ تھے اور حضرت معاویہ نے ان کو غزوۂ روم میں عامل بنایاتھا اہل روم کے ساتھ انھوں نے خوب جنگ کی ۔جب عباس ابن ولید حمص میں حاکم ہوئے توانھوں نے اہل حمص کے سرداروں سے کہا کہ جس قدر تم عبدالرحمٰن کو یاد کرتے ہو۔کیاوجہ ہے کہ اپنے حاکموں سے کسی حاکم کویاد نہیں کرتے ہو۔بعض لوگوں نے جواب دیا عبدالرحمٰن کو(زیادہ اس وجہ سے یادکرتے ہیں) کہ وہ ہمارے سرداروں کو اپنے قریب جگہ دیتے تھے اور ہم لوگوں کی خطائیں معاف کرتے تھے(ایسے منکسر مزاج تھے کہ) ہمارے مکانوں میں آکربیٹھاکرتے تھے۔ ہمارے بازاروں میں
۱؎ ترجمہ اللہ کی قسم کھاتاہوں جوتمام بندوں کا پروردگارہے ٘کوئی چیزبے کار نہیں پیداکی ٘بلکہ سب چیزیں ہماری آزمائش کے لیے پیداکی گئی ہیں٘اے عثمان ہم تم بھی اسی لیےپیداہوئے ہیں) کہ یاہماری آزمائش تم سے کی جائے یاتمھاری آزمائش ہم سے کی جائے۱۲۔
جاتے تھے۔اورمظلوموں کاانصاف کرتے تھے مریضوں کی عیادت کرتے تھے جنازوں میں شریک ہوتے تھے۔بعض لوگوں نےبیان کیا ہے کہ جب حضرت معاویہ نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے بیٹےیزید کے لیے لوگوں سے بیعت لیں تواہل شام کوبلاکر ان کے سامنے خطبہ پڑھا اس میں بیان کیا اے لوگوں میں اب بوڑھاہوگیاہوں اورمیری موت کازمانہ قریب آگیا ہے تو یہ ارادہ ہے کہ ایک ایسے شخص کی تم لوگوں سے بیعت لوں جو تمھاراانتظام درست رکھے اور میں تو تمھیں میں کا ایک شخص ہوں (پس بغیرخوف وخطرکے اپنارازدلی مجھے بتادو کسے خلیفہ بناناچاہتے ہو)تولوگوں نے ایک زبان ہو کرعبدالرحمٰن بن خالد کے واسطے اپنی خوشنودی ظاہر کی۔حضرت معاویہ کویہ بات ناگوار گذری مگر اپنے دل ہی میں اس کو رکھا۔اس کے بعدعبدالرحمٰن بیمارہوگئے اور ابن اثال نصرانی(طبیب)نے (ان کودواکے دھوکے)جاکرزہردےدیا۔جس سے ۴۳ھ میں انتقال ہوگیا۔بعض کابیان ہے کہ عبدالرحمٰن کو ابن اثال نے حضرت معاویہ کے حکم سے زہردےدیا۔محمد بن سعد نے لکھا ہے کہ ان کی کوئی اولاد نہ تھی پھرمہاجربن خالد نے(جوعبدالرحمٰن کے بھائی تھے اور باوجودیکہ دونوں میں نفاق تھا مگرخون کے جوش نے مجبوہوکراپنے بھائی کے انتقام کے لیے پوشیدہ طورپر اپنے ایک غلام کے ساتھ دمشق جاکر(ابن اثال کی )گھات میں رہے ایک دن (ابن اثال)رات کو حضرت معاویہ کے پاس آرہاتھامہاجر نے موقع پاکراس پر حملہ کیا۔یہ قصہ اہل سیر میں مشہورہے۔اس کو ابوعمر نے بیان کیاہے زبیربن بکارکہتے ہیں کہ (مہاجرنہیں بلکہ)خالد بن مہاجر ابن خالد نے حضرت معاویہ کو یہ تہمت لگائی کہ انھوں نے ابن اثال کوبھیج کر میرے چچاکوزہردلوادیا۔اوراسی صدمہ سے اس کا انتقال ہوگیا۔اسی بناپراثال کواثنائے راہ میں مارڈالا واللہ اعلم۔عبدالرحمٰن نے جورسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے وہ مرسل ہے۱؎اور ان سے خالد بن سلمہ وزہری اورعمروبن قیس شامی یحییٰ بن ابی عمرو شیبانی وابوہزان نے روایت کی ہے ۔ابوہزان نے عبدالرحمٰن ابن خالد سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے اپنے سراورشانوں میں پچھنے لگوائے لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ نے پچھنے کیوں لگوائے توجواب دیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص پچھنے لگواکر اپنا خون نکلواڈالے تووہ شخص اگردوا نہ کرے گا تو اس کو کچھ ضررنہ ہوگا۔جب ان کی وفات ہوئی توکعب بن جعیل نےیہ مرثیہ کہا ؎
۲؎ الاتبکی وماظلمت قریش باعوال البکاد علے فتاہا
ولوسلت ومشق لاخبرتکم وبصریٰ من اباح لکم حماہا
وسیف اللہ اوردہا المنایا دمدم حضہا وحمی حماہا
۱؎ مرسل وہ حدیث ہے کہ جس کی سند میں صحابی کونہ بیان کرے۱۲۔۲؎ترجمہ (اے مخاطب) تونہیں روتاقریش تواپنے نوجوان کی موت پر بلند آواز سے رونے میں کوتاہی نہیں کرتے ٘اگرشہر دمشق سے پوچھاجائے تووہ تم سے بیان کرگا ٘اورشہربصری بھی کہ کس نے وہاں کی چراگاہ تمھارے واسطے عام کردی اور کس نے خداکی تلوارکوموت(کے گھاٹ)اتارا ٘اورکس نےدمشق وبصری کے قلعے (جوکافروں نے بنائے تھے)منہدم کیے اور وہاں چراگاہیں محفوظ رکھیں۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)