ابن کرز لیثی۔ان کا ذکر حضرت عائشہ کی حدیث میں ہے۔ابن شہاب نے عروہ سے انھوں نے حضرت عائشہ سے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ ایک روز بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے گرد مہاجرین وانصار تھے پس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کی مثال اور اس کے مال واولاد کی مثال مثل اس شخص کے ہے جس کے تین بھائی ہوں پس اس نے مرتے وقت اپنے ایک بھائی سے جومال ہے کہا کہ اب تو میرا کیا کام کرسکتاہے دیکھتا ہے کہ اب ہر حالت مجھ پر طاری ہے تو مال نے جواب دیا کہ اب میں تیرے کچھ کام نہیں آسکتا نہ کچھ نفع پہنچا سکتاہوں ہاں جب تک تو زندہ ہے مجھ سے جس قدر چاہے نفع لے لے مگر جب میں تجھ سے جدا ہوجاؤں گا توپھر جہاں تو مجھے نہ لے جاناچاہتاتھاجاؤں گا اور مجھے دوسرے دوسرے لوگ لیں گے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کی طر ف متوجہ ہوکرفرمایا کہ یہ اس شخص کا وہ بھائی ہے جس کا نام مال ہے پس تم لوگ اس بھائی کوکیاسمجھتے ہوان سب لوگوں نے کہا کہ ہم اس کو اچھابھائی نہیں سمجھتے پھرآپ نے فرمایاکہ اس شخص نے اپنےدوسرے بھائی جس کا نام اولاد ہے کہا کہ دیکھوموت مجھ پر طاری ہے جو حالت میری ہے تم دیکھتے ہو اب تم مجھے کیا فائد ہ پہنچاسکتے ہو اس بھائی نے جواب دیا کہ ہم تو صرف اتناکام کرسکتے ہیں کہ تمھاری تیمارداری کریں اور تمھاری خدمت کریں اور جب تم مرجاؤ توتمھیں غسل دیں کفن پہنائیں خوشبولگائیں اور سب لوگوں کے ساتھ مل کر تمھاراجنازہ اٹھائیں اور(قبرتک) تمھارے ساتھ جائیں پھرلوٹ آئیں اورجوشخص تمھارا حال ہم سے پوچھے اس سے تمھاری تعریف کردیں پس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنے تیسرے بھائی جس کا نام اعمال ہے کہا کہ تم مجھے کیا فائدہ دے سکتے ہو اس نے کہا میں تمہارے ساتھ قبر میں جاؤں گااوروہاں تمھاراانیس بنوں گا تمھاری وحشت دفع کروں گا تمھارا غم غلط کروں گا تمھاری طرف سے جھگڑوں گا تمھارے کفن میں بیٹھوں گا اور تمہارے گناہوں کو دورکروں گا پس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اس کو تم لوگ کیسا بھائی سمجھتے ہو ان لوگوں نے کہا یہ بہت اچھابھائی ہے حضرت نے فرمایا تو یہی کیفیت پیش آنے والی ہے۔حضرت عائشہ کہتی تھیں (یہ سن کر)عبداللہ بن کرزلیثی کھڑے ہوگئے اور انھوں نے کہا یا رسول اللہ آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اس کے متعلق ایک شعرکہوں آپ نے فرمایا ہاں توانھوں نے چند اشعار اسی مضمون کے پڑھے ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابونعیم نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)