سیّدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ
سیّدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن غافل بن حبیب بن شیخ بن فاربن مخزوم صاہلہ بن کاہل بن حارث بن تمیم بن سعد بن ہذیل بن مدرکہ بن الیاس بن مضرکنیت ان کی ابوعبدالرحمٰن ہے۔ہذلی ہیں۔بنی زہرہ کے حلیف تھے ان کے والد مسعود نے زمانۂ جاہلیت میں عبد بن حارث بن زہرہ سے حلف کی دوستی کی تے حضرت ابن مسعود کی والدہ ام عبدتھیں بیٹی عبدود بن سواء کی وہ بھی قبیلۂ ہذیل کی تھیں۔
حضرت ابن مسعود بہت قدیم الاسلام تھے جب سعید بن زید اور ان کی بی بی فاطمہ بنت خطاب نے اسلام قبول کیا اسی وقت یہ بھی مسلمان ہوئے تھے یعنی حضرت عمرکے اسلام سے بہت پہلےاعمش نے قاسم بن عبدالرحمٰن سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے تھے میں اسلام میں چھٹاشخص تھااس وقت روئے زمین پر ہم چھ آدمیوں کے سوا کوئی مسلمان نہ تھا ان کے اسلام کا سبب یہ ہے جوہم سے فقیہ ابوالفضل طبری نے اپنی سند سے ابویعلیٰ یعنی احمد بن علی تک بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے معلی بن مہدی نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ابوعوانہ عاصم بن بہدلہ سےانھوں نے دو سے انھوں نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ میں سن تمیزکوپہنچ گیا تھا عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرارہاتھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ابوبکر بھی آپ کے ہمراہ تھے حضرت نے مجھ سےفرمایا اےلڑکے تیرے پاس کچھ دودھ ہے میں نے عرض کیا ہاں مگر میں امین ہوں (دے نہیں سکتا) حضرت نے فرمایااچھا(دودھ نہ دو) کوئی بکری لے آؤ جوگابھن نہ ہو چنانچہ میں ایک جوان بکری آپ کے پاس لے گیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پیرباندھ دئیے اور اس کے تھن پر ہاتھ پھیرناشروع کیا اوردعافرمائی یہاں تک کہ اس کے دودھ اترآیا پس ابوبکر ایک برتن لے آئے حضرت نے اس برتن میں اس کا دودھ دوہا اور ابوبکر سے فرمایاکہ پیوچنانچہ ابوبکر نے پیا بعد اس کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا پھر آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اس کے تھن نچوڑدیے نچوڑا تو پھرویساہی ہوگیاپس میں نے کہا کہ یارسول اللہ مجھے بھی یہ کلام سکھادیجیے آپ نے میرے سرپر ہاتھ پھیرا اور فرمایاتم سیکھے سکھائے ہوپس میں نے آپ سے بلاواسطہ ستر سورتیں قرآن کی یادکیں اس فضیلت میں میراکوئی شریک نہیں یہ سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے مکہ میں بالاعلان قرآن پڑھاہمیں عبیداللہ بن احمد نے اپنی سند سے یونس بن بکیر سے انھوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کرکے خبردی وہ کہتے تھے مجھ سے یحییٰ بن عروہ بن زبیر نے روایت کرکے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدجس نے سب سے پہلے مکہ میں قرآن کوبالاعلان پڑھا وہ حضرت عبداللہ بن مسعود تھے (اس کی کیفیت یوں ہےکہ) ایک دن رسول خدا کے اصحاب جمع ہوئے اور آپس میں کہا کہ قرشی نے قرآن کوبلند آواز سے پڑھتے ہوئے کبھی نہیں سنا کیاکوئی شخص انکوسناسکتاہے عبداللہ بن مسعود نے کہا میں سناسکتاہوں لوگوں نے کہاہمیں تمھارے حق میں اندیشہ ہے ہم چاہتے ہیں کوئی ایساشخص جس کا کنبہ قبیلہ ایسا ہوکہ کافر اگر اس کو مارناچاہیں توقبیلہ کے لوگ اس کو بچالیں حضرت ابن مسعود نے کہا اس کی فکرنہ کرو اللہ مجھے بچائے گاچنانچہ دوسرے دن چاشت کے وقت حضرت عبداللہ بن مسعود مقام ابراہیم میں پہنچے قریش اپنی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے تھے ابن مسعود جاکر مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہوگئے اور بلند آواز سے پڑھنا شروع کیا بِسمِ اللہِ الَّرحمٰنِ الرَّحِیمِ علم القراناسی طرح برابر پڑھتے چلے گئے کافروں نے جواس کو سنا توغورکرنے لگے اور کہنے لگے ام عبد کیا کہہ رہے ہیں پھربعض لوگوں نے کہا یہ انھیں عبارتوں کوپڑھ رہے ہیں جو محمد بیان کرتے ہیں پس یہ سنتے ہی
سب اٹھ کھڑے ہوئے اورحضرت ابن مسعود کے منہ پر طمانچہ مارنے لگے مگر حضرت ابن مسعود برابر پڑھتے ہی چلے گئے یہاں تک جس قدر انھوں نے پڑھنے کا ارادہ کیا جب اس قدر پڑھ چکے تو اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ کر آئے ان کے منہ پر طمانچہ کے نشان بن گئے تھے صحابہ نے کہا دیکھو اسی کا ہمیں اندیشہ تھا حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہاخداکی قسم یہ خدا کے دشمن میری نظرمیں ایسے بے حقیقت کبھی نہ تھے جیسے اس وقت تھے اوراگرتم چاہو تو میں پھر کل ایساہی کروں صحابہ نے کہا نہیں بس اسی قدر کافی ہے۔تم نے انھویں وہ چیز سنادی جس کاسننا وہ نہ چاہتے تھے۔
جب حضرت عبداللہ بن مسعود اسلام لائے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے ہا ں رکھ لیا یہ حضرت کی خدمت کیاکرتے تھےحضرت نے ان سے کہہ دیاتھا کہ جب تم میری آواز سن لو اور پردہ نہ پڑاہو توتم کواجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں چنانچہ برابر بغیراجازت اندر جاتے تھے اورآپ کاہرکام کرتے تھے آپ کوجوتی پہناتے تھےاورآپ کے ساتھ (کہیں جانے کی ضرورت ہوتی تو) جاتےتھےکبھی آپ کے آگے آگے بھی چلتے تھے اور جب حضرت غسل کرتے تھے تویہ پردہ لے کر کھڑے ہوتے تھے اور آپ کو خواب سے بھی بیدارکرتے تھے صحابہ میں یہ۱؎ صاحب السواد والسواک کے لقب سے مشہورتھے ہمیں ابوالفرج نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوعلیہ حداد نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابونعیم نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن جعفرجابری نے خبردی وہ کہتے
۱؎ لقب اس وجہ سے تھا کہ ان کے پاس اس تکیہ گاہ ہردوجان صلی اللہ علیہ وسلم کا یاک مستعمل تکیہ اورایک مستعمل مسواک تھی۱۲
تھےہم سے احمد بن مثنی نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے ابن ادریس اور حفص نے حسن بن عبیداللہ سے انھوں نے ابراہیم بن سوید سےانھوں نے عبدالرحمٰن ابن یزید سےانھوں نے عبداللہ سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے مجھ سے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیاتھا کہ جب پردہ نہ پڑا ہو
اور تم میری آواز سنو توبسی یہی تمھارے لیے اجازت ہے جب تک میں تم کو منع نہ کردوں تم برابر بے اجازت آیاکرو حضرت عبداللہ بن مسعود نے دونوں ہجرتیں کی تھیں حبش کی طرف بھی اور مدینہ کی طرف بھی اور دونوں قبلوں کی طرف نماز بھی پڑھی۔بدر اور احد اور خندق اور بیتہ الرضوان اور تمام مشاہد میں رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے اور بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ یرموک میں شریک ہوئے انھیں نے ابوجہل پروارکیاتھا۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی بشارت دی تھی انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کی ہیں اور ان سے صحابہ کے حضرت ابن عباس اور ابن عمر اورابوموسیٰ اورعمران بن حصین اور ابن زبیر اور جابراورانس اورابوسعیداورابوہریرہ اورابورافع وغیرہم نے روایت کی ہے اورمنجملہ تابعین کے علقمہ اور ابووائل اور اسود اورمسروق اور عبیدہ اور قیس بن ابی حازم وغیرہم نے روایت کی ہے ہمیں ابو منصور یعنی مسلم بن علی بن محمد موصلی عدل نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالبرکات محمد بن محمد بن خمیس نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابونصر احمد بن عبدالباقی بن طوق نے خبردی وہ کہتے تھےہم سے جریر نے مغیرہ سے انھوں نے ابورزین سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتے تھے کہ حضرت ابن مسعود بیان کرتے تھے کہ رسول خدانے صلی اللہ علیہ وسلم نےایک بار مجھ سے فرمایاکہ سورۂ نساءمجھے پڑھکرسناؤ میں نے عرض کیا کہ میں بھلا کیاآپ کو پڑھکرسناؤں آپ ہی پر تونازل ہوئی ہے حضرت نے فرمایا میں اس بات کو دوست رکھتاہوں کہ کوئی دوسراشخص پڑھے اور میں سنوں چنانچہ میں نے پڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچا ۱؎ فکیف اذا جئنا من کل امتہ بشہید وجئنا بک علیٰ ہولاء شہیداتوحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ہمیں ابوالبرکات یعنی حسن بن محمد بن حسن بن ہبتہ اللہ دمشقی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالعشاء یعنی محمد بن خلیل بن فارس قیسی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالقاسم یعنی علی بن محمد بن علی مصیصی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابومحمد عبدالرحمٰن بن عثمان ابن قاسم بن ابی نصر نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالحسن یعنی خثیمہ بن سلیمان ابن حیدرہ طرابلسی نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے ابوعبیدہ یعنی سری بن یحییٰ نے کوفہ میں خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے سفیان ثوری نے عبدالملک ابن عمیر سے انھوں نے ربعی کے ایک غلام سے انھوں نے ربعی سے انھوں نے حضرت حذیفہ سے روایت کی کہ وہ کہتے تھےرسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےتھے کہ ابن ام عبد (یعنی عبداللہ بن مسعود) کے حکم پرعمل کرو۔اس حدیث کوسلمہ بن کسیل نے ابوالزعراء سے انھوں نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے ہمیں اسمٰعیل ابن علی بن عبیداللہ وغیرہ نے اپنی سند سے محمد بن عیسیٰ (یعنی امام ترمذی)تک خبردی کہ وہ کہتے تھے ہم سے ابوکریب نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے ابراہیم بن یوسف ابن ابی اسحاق نے اپنے والد سے انھوں نے ابو
۱؎ترجمہ اس وقت کیاحال ہوگا جب ہم ہرامت سے ایک گواہ نکالیں گےاوراے محمد تم کو ان لوگوں پرگواہ بنائیں گے۱۲
اسحاق سے انھوں نے ابوالاسود بن یزید سے روایت کرکے بیان کیا کہ انھوں نے حضرت ابوموسیٰ سے سناوہ کہتے تھےہم اور ہمارے بھائی جب یمن سے آئے توہم یہی سمجھتے تھے کہ عبداللہ بن مسعود بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں ہیں کیوں کہ ہم دیکھتے تھے کہ ان کی اور ان کی والدہ کی آمدورفت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں بہت ہے نیز اسمٰعیل وغیرہ کہتے تھےہمیں محمد بن عیسیٰ نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نےبیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے اسرائیل نے ابواسحاق سے انھوں نے عبدالرحمٰن ابن یزید سے روایت کر کے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم حضرت حذیفہ کے پاس گئے اور ہم نے کہا کہ ہمیں ایسے شخص کاپتہ دیجیے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی روش سے زیادہ قریب ہوتاکہ ہم اس سے علم حاصل کریں اور حدیثیں سنیں انھوں نے کہا کہ سب سے زیادہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کی روش سے قریب ابن مسعود ہیں اور سربرآوردہ صحابہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے جانتے ہیں کہ ابن مسعود سب سے زیادہ اللہ کے یہاں مقرب ہیں نیز اسمعیل وغیرہ کہتے تھے ہمیں محمد بن عیسیٰ نے خبر دی وہ کہتے تھےہم سے عبداللہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے صاعدحرانی نے بیان کیا وہ کہتے تھےہم سے زہیر نے منصور سے انھوں نے ابواسحاق سے انھوں نے حارث سے انھوں نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرکے بیان کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اگر میں بغیر مشورہ کے کسی کو امیر بناتاتوابن ام عبدکوبناتا۔حضرت ابن مسعود کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے معرکوں میں شریک ہوئے منجملہ ان کے ملک شام میں غزوۂ یرموک میں شریک ہوئے اور اس دن مال غنیمت ان کے سپرد تھا۔(یہ بھی ایک بہت بڑی فضیلت ہے کہ)ان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوفہ بھیجاتھا اور اہل کوفہ کو لکھاتھا کہ میں عمار بن یاسر کو حاکم بناکے اورعبداللہ بن مسعود کو معلم اوروزیربنابھیجتاہوں یہ دونوں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں منتخب ہیں اہل بدر سے ہیں تم لوگ ان کی پیروی کرواوران کے احکام کی اطاعت کروان کی باتیں سنو تمھارے لئے میں نے عبداللہ بن مسعود کواپنے سے زیادہ بہترسمجھا ہے۔ ہمیں ابن ابی حبہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمد تک خبردی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیاوہ کہتے تھے مغیرہ نے موسیٰ کی والدہ سے روایت کرکے بیان کیا کہ وہ کہتی تھیں میں نے حضرت علی کوفرماتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کسی کام کےلئے ابن مسعود کوایک درخت پرچڑہنے کا حکم دیاآپ کے اصحاب نے عبداللہ کی پنڈلیوں کوکمزوراورپتلادیکھ کر تبسم کیارسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیوں ہنستے ہو عبداللہ کاپیرترازوی اعمال میں قیامت کے دن کوہ احد سے بھی زیادہ وزنی ہوگا۔ہمیں عمر بن محمد بن طبرزو نے اجازۃً خبردکی وہ کہتے تھے ہمیں ابوطاہر اور ابوالفضل باقلانی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالقاسم واعظ نے خبردی وہ کہتے تھےہمیں ابوعلی صواف نے خبر دی وہ کہتے تھےہم سے محمد بن عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیاوہ کہتے تھےہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیرنے بیان کیا وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والداعمش سے انھوں نے حبہ بن جوین سے انھو ں نے حضرت علی سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم ایک دن حضرت علی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے لوگوں نے کہا کہ ہم نے ابن مسعود سے زیادہ کسی کوخلیق اور تعلیم میں نرمی کرنے والا اور علم مجلس کا ماہر اور متقی نہیں دیکھا حضرت علی نے فرمایاکہ میں تمھیں خداکی قسم دیتاہوں بتاؤ کیا تم صدق دل سے ایساکہہ رہے ہو لوگوں نے کہا کہ ہاں حضرت علی نے فرمایا کہ اے اللہ گواہ رہ میں بھی ایساہی کہتاہوں بلکہ اس سے زیادہ ۔ابووائل کہتے تھے کہ جب حضرت عثمان نے (جمع قرآن کے وقت شنبہ)مصاحف کو چاک کرادیا اور یہ خبر حضرت عبداللہ بن مسعود کو پہنچی تو انھوں نے کہا کہ تمام اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں کہ میں کتاب اللہ کا سب سے زیادہ عالم ہوں حالاں کہ میں سب سے بہتر نہیں ہوں اور باوجود اس کے اگرمجھے معلوم ہوجائے کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا عالم موجودہے اور وہاں تک میں پہنچ سکتاہوں تو بے شک میں اس کے پاس جاؤں ابووائل کہتے تھے کہ میں کھڑاہوکر لوگوں کو دیکھنے لگا کہ وہ کیاکہتے ہیں مگرمیں نے اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی کو اس کا انکار کرتے ہوئے نہیں سنا۔زید بن وہب کہتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہواتھااتنے میں عبداللہ بن مسعود آئے چونکہ وہ پستہ قامت تھےاس سبب سے اورلوگ جوبیٹھے ہوئے تھے ان میں چھپنے کے قریب ہوگئے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جوان کو دیکھا تو مسکرائے پھر حضرت عمران سے ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگے اور وہ کھڑے رہے بعد اس کے جب وہ چلے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ شخص علم سے بھراہوا ایک ظرف ہے حضرت ابن مسعود کے بیٹے عبیداللہ کہتے تھے کہ حضرت ابن مسعود کی عادت تھی کہ جب (رات کو)لوگ سوجاتے تو وہ (تہجدکے لئے )اٹھتے(ایک شب میں بھی جاگ پڑا)صبح تک میں نے ان کو گنگناتے ہوئے سنا جس طرح شہد کی مکھی گنگناتی ہے۔سلمہ بن تمام کہتے تھے کہ ایک شخص نے حضرت ابن مسعود سے ملاقات کی کہ ایک خواب سنئے میں نے شب کوآپ کوخواب میں دیکھااور(یہ دیکھاکہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونچے منبر پر بیٹھے ہیں اور آپ اس منبر کے نیچے ہیں حضرت یہ فرمارہے ہیں کہ اے ابن مسعود میرے پاس آجاؤ تم نے میرے بعد بڑی بے مروتی اختیارکرلی حضرت ابن مسعود نے فرمایاکہ اے شخص خدا کی قسم کیاتونے یہ خواب دیکھاہے اس شخص نے کہا ہاں حضرت ابن مسعود نے فرمایاتوکیاتومدینہ سے میرے جنازے کی نمازپڑھنے آیا ہے الغرض چند ہی روز کے بعد حضرت ابن مسعود کی وفات ہوگئی۔ابوطیبہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن مسعود کی عیادت کے لیلئے حضرت عثمان بن عفان تشریف لے گئے حضرت عثمان نے پوچھاکہ تم کوکیاشکایت ہے حضرت ابن مسعود نے کہااپنے گناہوں کی حضرت عثمان نے پوچھا کہ تمھارا جی کسی چیز کو چاہتا ہے حضرت ابن مسعود نے کہا اپنے پروردگار کی رحمت کو چاہتاہے حضرت عثمان نے کہا کیا میں کوئی طبیب تمھارے لیے تجویز کردوں حضرت ابن مسعود نے کہا طبیب ہی نے تومجھے بیماربنایا ہے حضرت عثمان نے کہا میں تمھاراوظیفہ دلادوں حضرت ابن مسعود نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے حضرت عثمان نے کہاتمھاری لڑکیوں کےکام آئے گاحضرت ابن مسعود نے کہاکیاآپ میری لڑکیوں کے محتاج ہونے کا اندیشہ رکھتے ہیں حالاں کہ میں نے انہیں حکم دے دیا ہے کہ وہ ہر شب سورۂ واقعہ پڑھ لیاکریں میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے آپ فرماتے تھے کہ جو شخص ہرشب سورۂ واقعہ پڑھ لیا کرے کبھی اس کوفاقہ کی مصیبت نہ ہوگی۔حضرت عثمان نے ان کو وظیفہ دینے کے لئے اس سبب سے کہا کہ دوبرس سے ان کا وظیفہ حضرت عثمان نے بندکردیاتھا۔جب حضرت ابن مسعود کی وفات ہوگئی تو حضرت عثمان نےان کا وظیفہ حضرت دبیر کے پاس بھیج دیا انھوں نے حضرت ابن مسعود کے وارثوں کے حوالہ کردیا اوربعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے خودہی وظیفہ لینا چھوڑ دیا تھا بوجہ اس کے کہ ان کوضرورت نہ رہی تھی ایسااورصحابہ نے بھی کیاتھا۔اعمش نے زید بن وہب سے روایت کی ہے وہ کہتے تھےکہ جب حضرت عثمان نے حضرت عبداللہ بن مسعود کومدینہ اپنے پاس بلایا وہ کوفہ میں تھے تولوگ ان کے پاس جمع ہوئے اورکہا کہ آپ یہیں رہیے ہم آپ کی حفاظت کریں گے کوئی شخص آپ کوایذانہ پہنچاسکےگا(آپ خلیفہ کا حکم نامنظورکردیجئے) حضرت ابن مسعود نے کہانہیں ان کی اطاعت میرے اوپرضروری ہے دیکھو عنقریب کچھ فتنے فساد ہوں گے میں نہیں چاہتا کہ ان فتنوں کا پیداکرنے والا سب سے پہلے میں ہوں الغرض انھوں نے کسی کی بات نہ مانی اورحضرت عثمان کے پاس چلے آئے اور مدینہ ہی میں ۲۲ھ میں وفات پائی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کووصیت کرگئے تھے جنت البقیع میں مدفون ہوئے حضرت عثمان نے ان کے جنازے کی نماز پڑھائی تھی اور رات ہی کودفن کردیاتھا یہی ان کی وصیت تھی یہاں تک بیان کیاگیا ہے کہ انھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی اس کی اطلاع نہیں دی اس پر حضرت عثمان حضرت زبیر پر غصہ بھی ہوئےحضرت ابن مسعود کی عمربوقت وفات ساٹھ سے کچھ زیادہ تھی اوربعض لوگوں کا قول ہے کہ ۳۳ھ میں ان کی وفات ہوئی مگرپہلاہی قول زیادہ صحیح ہے جب حضرت ابن مسعود کی وفات ہوگئی اورحضرت ابوالدرداء کوان کی وفات کی خبرملی توکہنے لگے افسوس انھوں نے اپنے بعد اپنا مثل نہیں چھوڑا۔ ان کاتذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)