سیّدنا عبداللہ ابن مخزمہ رضی اللہ عنہ
سیّدنا عبداللہ ابن مخزمہ رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عبدالعزی بن ابی قیس بن عبدودبن نضر بن مالک بن حسل بن عامر بن لوی قریشی عامری ۔یہ عبداللہ اکبرکے لقب سے مشہورہیں۔ان کی والدہ بہنانہ بنت صفوان بن امیہ بن محرث تھیں جوخاندان بن کنانہ کی ایک خاتون تھیں کنیت ان کی ابومحمد ہے۔سابق الاسلام ہیں۔ ابن مندہ اورابونعیم نے ابن اسحاق سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن محرمہ نے حضرت جعفربن ابی طالب کے ہمراہ حبش کی طرف ہجرت کی تھی اور مدینہ کی طرف بھی ہجرت کی تھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور فروہ بن عمروبن ودقہ انصاری بیاضی کے درمیان مواخات کرادی تھی۔بدر میں اور تمام مشاہد میں شریک تھے ابوعمر نے لکھا ہے کہ واقدی کابیان ہے کہ انھوں نے دونوں ہجرتیں کی تھیں مگر ابن اسحاق نے ان کا ذکر ان لوگوں میں نہیں کیا جنھوں نے پہلی ہجرت کی تھی بلکہ کہا ہے کہ انھوں نے دوسری ہجرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کی تھی اس وقت ان کی عمر تیس برس کی تھی۔جنگ یمامہ واقع ۱۲ھ میں شہید ہوئے اس وقت ان کی عمراکتالیس برس کی تھی۔ اللہ عزوجل سے دعامانگاکرتے تھے کہ انھیں موت نہ دے یہاں تک کہ ان کے ہرہرجوڑ میں فی سبیل اللہ کوئی زخم نہ پہنچ جائے چنانچہ جنگ یمامہ میں انکے ہرہرجوڑ پرزخم تھااوراسی سے شہید ہوئے۔بڑےبزرگ اورعابد تھے۔ہمیں ابوالقاسم یحییٰ بن اسعد بن یحییٰ بن بوش نے اجازۃً خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوغالب بن بناء نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالحسین بن ابنوسی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابواسحاق یعنی ابراہیم بن محمد بن فتح حلی مصیصی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابویوسف بن محمد بن سفیان بن موسیٰ صفارمصیصی نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے ابوعثمان یعنی معبد بن رحمتہ بن نعیم اصبحی نے بیان کیامیں نے ابن مبارک سے سناوہ ابن لہیعہ سے روایت کرتے تھے وہ کہتے تھے مجھ سے بکر بن اشج نے حضرت ابن عمر سے روایت کرکے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے جنگ یمامہ میں ہم اور عبداللہ بن محزمہ اور سالم غلام ابی حذیفہ ایک ساتھ تھے اورہم تینوں آدمی باری باری بکریاں چرایا کرتے تھے چنانچہ جس دن لڑائی شروع ہوئی وہ دن میرے بکریاں چرانے کا تھاپس میں بکریاں چرا کے لوٹا تو میں نے عبداللہ بن محزمہ کوگراہواپایا میں ان کے پاس جاکے کھڑا ہواتوانھوں نے کہا اے عبداللہ بن عمرو دیکھو تو روزہ کھل گیامیں نے کہا ہاں تو انھوں نے کہا اچھا اس برتن میں کچھ پانی دے دو کہ میں اس سے افطار کرلوں میں نے ایساہی کردیا پھرلوٹ کر جو آیا تودیکھا کہ وہ عالم جاودانی کی طرف سدہار گئے ۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
میں کہتاہوں کہ ابوعمر نے جویہ کہا ہے کہ ابن اسحاق نے ان کاذکر ان لوگوں میں نہیں کیا جنھوں نے پہلی ہجرت کی تھی اور کہا ہے کہ انھوں نے دوسری ہجرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھی مراد ابوعمر کی پہلی ہجرت سے دوہجرتوں میں سے ایک ہجرت حبش ہے۔اورایک ہجرت مدینہ کیوں کہ انھوں نے کہاہے کہ انھوں نے دوسری ہجرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مدینہ کے طرف ہجرت کی تھی یہ قول اس کےمخالف ہے جوابن مندہ اورابونعیم نے ابن اسحاق سے نقل کیاہے انھوں نے یہ نقل کیاہے کہ انھوں نے حبش کی حضرت جعفر کے ساتھ ہجرت کی تھی ابن اسحاق کی مرادحبش کی پہلی ہجرت نہیں ہےحبش کی طرف مسلمانوں نے دومرتبہ ہجرت کی تھی دوسری ہجرت میں حضرت جعفر تھےاور یہ بھی ان کے ساتھ تھے پس ابوعمر کی نقل اور ابن مندہ اور ابونعیم کے میں موافقت ممکن تھی اگرابوعمریہ نہ کہتے کہ انھوں نے دوسری ہجرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھی کیوں کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبش کی طرف ہجرت کی ہی نہیں شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت جوابوعمر نے بیان کی ہے غلط ہے پس اس صورت میں ان کا قول بھی صحیح ہوجائے گا اور کچھ اختلاف نہ رہے گا۔صحیح یہ ہے کہ ابن اسحاق نے ان کا ذکران لوگوں میں کیا ہے جنھوں نے حضرت جعفر کے ہمراہ حبش کی طرف ہجرت کی تھی۔ہمیں ابوجعفر یعنی عبیداللہ بن سمین نے اپنی سند سے یونس بن بکیر سے روایت کرکے خبردی انھوں نے ابن اسحاق سے ان لوگوں کے نام میں جنھوں نے حبش کی طرف دوسری بارہجرت کی تھی روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے خاندان بنی عامر بن لوی سے عبداللہ بن محزمہ بن عبدالعزیٰ بن ابی قیس ابن عبدود بھی تھے اورایساہی سلمہ اوربکائی نے بھی ابن اسحاق سے روایت کی ہے پس اس سے ظاہرہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت کا ذکرغلط ہے۔ واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)