ابن نحام۔اوربعض لوگ ابن نحماء کہتے ہیں۔ربیع بن صبیح نے حسن (بصری) سے انھوں نے عبداللہ بن نحام سے روایت کی ہے وہ کہتے تھے ایک دن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورمیں گیامیرے سراورداڑھی کے بال سفید تھے اورسفیدہوکرگھاس کی طرح (کمزور)ہوگئے تھے حضرت نے فرمایااے ابن نحام کیامیں تمھارے اس بڑھاپے کی فضلیت میں ایک حدیث تم سے بیان کروں میں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ آپ نے فرمایا اے ابن نحام اللہ عزوجل بوڑھے آدمی سے قیامت کے دن آسانی کے ساتھ حساب لےگابعد اس کے اعمال نامہ اس کا رضوان (داروغۂ جنت)کودےدےگا اورفرمائے گا کہ میرابندہ جب جنت میں پہنچ جائے اورہول قیامت کوبھول جائے تو یہ اعمال نام اس کودیناجب وہ اس کو بڑھاپے اوراس کا رنگ متغیرہونے لگےتواس سے کہناکہ رنجیدہ نہ ہوتیرا پروردگار بزرگ برتر فرماتاہے کہ مجھے تیرے بڑھاپے سے شرم آتی ہے کہ اس اعمال نامہ کے ساتھ تجھ سے ملاقات کروں چنانچہ میں نے یہ سب خطائیں تیری معاف کردیں۔چنانچہ جب کوئی بوڑھاآدمی جنت میں جاتا ہے تورضوان اعمال نامہ لے کر اس کے پاس جاتاہے جب وہ بوڑھا اس اعمال نامہ کوپڑھتاہےاوراس کارنگ متغیراورقلب بے چین ہونے لگتاہےتو رضوان اس سے کہتاہے کہ تیراپروردگار بزرگ تجھ سے فرماتاہے کہ مجھے تیرے بڑھاپے سے شرم آتی ہے کہ اس اعمالنامہ کے ساتھ میں تجھ سے ملوں لہذامیں نے تیری خطائیں معاف کردیں۔اے ابن نحام اللہ عزوجل مسلمان کے بڑھاپے سے شرم کرتاہے اور یہ شرم بہ نسبت اس شرم کےزیادہ ہوتی ہے جوبندہ اللہ عزوجل سے کرتاہے۔اس حدیث میں بجائے نحام کے تمام مقامات میں نحماء بھی روایت کیاگیاہے۔ان کا تذکرہ ابن مندہ اورابونعیم اورابوموسیٰ نے لکھا ہے مگر ابن مندہ اورابونعیم نے صرف ان کا نام ہی ذکرکیاہے اورحدیث لکھ دی ہے(ان کے والد کانام نہیں بیان کیا)ان کا تذکرہ ابوموسیٰ نے لکھاہے۔