سیّدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ
سیّدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابن قیس بن سلیم بن حضار بن حرب بن عامر بن عنز بن بکربن عامر بن عدی بن وائل بن ناجیہ بن جماہر بن اشعر بن اود بن یشحب۔کنیت ابوموسیٰ اشعری۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ۔اشعرکا نام بنت تھا۔ ان کی والدہ طیبہ بنت وہب تھیں جو قبیلہ عک کی ایک خاتون تھیں۔وہ بھی اسلام لائی تھیں اور مدینہ میں ان کی وفات ہوگئی تھی۔واقدی نے بیان کیا ہے کہ ابوموسیٰ مکہ گئے اوروہاں ابواجیحہ یعنی سعید بن عاص بن امیہ سے حلف کی دوستی کی۔مکہ میں اپنے اشعری بھائیوں کی ایک جماعت کے ساتھ گئے تھے پھر اس کے بعد اسلام لائے اور حبش کی طرف ہجرت کی۔ اور بعض علما ئے نسب اسیر نے بیان کیا ہے کہ ابوموسیٰ جب مکہ گئے اورسعید بن عاص سے حلف کی دوستی کی اس کے بعد پھراپنی قوم کے پاس لوٹ آئے اور حبش کی طرف ہجرت نہیں کی بعد اس کے اپنے بھائیوں کے ساتھ چلے اتفاقاً ان کی کشتی انھیں دونوں کشتیوں کے ساتھ آئی جو حبش سے آ رہی تھیں۔اورابوعمر نے کہا ہے کہ صحیح یہی ہے کہ ابوموسیٰ مکہ سے بنی عبدشمس کے ساتھ حلف کرنے کے بعد لوٹ کر گئے اور وہاں کچھ روزرہے بعد اس کے اشعریوں کے پچاس آدمیوں کےہمراہ ایک کشتی میں سوارہوئے مگر ہواکے ناموافق ہونے سے وہ کشتی حبش پہنچ گئی پھر جب حضرت جعفر طیار اور ان کے ساتھی وہاں سے چلے تویہ بھی انھیں کے ساتھ چلے پھردونوں کشتیاں ایک کشتی حضرت جعفر طیار کی دوسری شعریوں کی ساتھ ہی ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں پہنچیں جب آپ خیبرفتح کرچکے تھے یہ بھی بیان کیا گیاہے کہ جب اشعریوں کی کشتی ہوا کی ناموافقت سے حبش پہنچ گئی تو حضرت ابوموسیٰ نے کچھ دنوں حبش میں قیام کیا پھرجب حضرت جعفر طیار وہاں سے چلے تویہ بھی وہاں سے چلے اسی وجہ سے ابن اسحاق نے ان کو مہاجرین حبش میں ذکرکیاہے واللہ اعلم۔
حضرت ابوموسیٰ مقام زیید اورعدن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حاکم تھے۔ حضرت عمرنے ان کو بصرہ کا حاکم بنایاتھا۔حضرت ابوعبیدہ بن جراح کی وفات کے وقت یہ وہاں موجود تھےلمازہ بن زیادنےبیان کیا ہے کہ ابوموسیٰ کی ہربات بیخطا تیرہوتی تھی۔قتادہ نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت ابوموسیٰ کو یہ خبرپہنچی کہ لوگ نماز جمعہ میں اس وجہ سے نہیں آتے کہ ان کے پاس (عمدہ)کپڑے نہیں ہیں تو انھوں نے صرف ایک عباپہن کر باہر نکلنا شروع کیا۔ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ ۹۱ھ میں حضرت سعد بن ابی وقاص نے عیاض بن غنم کو مقام جزیرہ کی طرف لڑنے کےلیے بھیجا اور ان کے ساتھ ابوموسیٰ کوبھی بھیجا۔عیاض نے ابوموسیٰ کو مقام نصیبن کی طرف بھیج دیاچنانچہ انھوں نے ۱۹ھ میں مقام نصیبن کوفتح کیا۔اوربعض لوگوں کابیان ہے کہ عیاض نے ابوموسیٰ کوبھیجاتھا پھرخودبھی ان کے ساتھ جا ملے اوردونوں نے مل کر حران اور نصیبن کوفتح کیا۔اور خلیفہ نے بیان کیا ہے کہ عاصم بن حفص کہتے تھے کہ حضرت ابوموسیٰ ۱۰ھ میں حضرت مغیرہ کے معزول ہوجانے کے بعد بصرہ گئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انکو لکھا کہ تم اہواز جاؤ چنانچہ یہ اہوازگئے اور اس کو لڑکر فتح کیا اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اس کو بذریعہ مصالحت کے فتح کیا اور ۲۳ھ میں اصفہان کوفتح کیا۔یہ ابن اسحاق کا قول ہے۔ جب حضرت عمر شہید ہوئے تو حضرت ابوموسیٰ بصرہ کے حاکم تھے حضرت عثمان نے ان کو بدستور وہیں رکھا بعد اس کے ان کو معزول کیا اور ان کے بعد ابن عامر کو مقرر کیا پس یہ بصرہ سے کوفہ چلے آئے اورپھر وہیں رہے یہاں تک کہ اہل کوفہ نے سعید بن عاص (عامل کوفہ) کووہاں سے نکال دیا اور حضرت عثمان سے درخواست کی کہ ابوموسیٰ کو ہماراحاکم بنا دیجیے چنانچہ حضرت عثمان نے ان کو کوفہ کاحاکم بنادیا پس یہ کوفہ کے حاکم رہے یہاں تک کہ حضرت عثمان شہید ہوگئے پھرحضرت علی نےان کو معزول کردیا۔ عکرمہ نے بیان کیا ہے کہ حکمین۱؎کاواقعہ ہواتو حضرت معاویہ نےعمروابن عاص کو حکم بنایا احنف بن
۱؎جب صفین کی لڑائی کوبہت طول ہوگیا تو آخر اس بات پر فیصلہ ہوا کہ ایک شخص کو حضرت معاویہ حاکم بنادیں ایک کو حضرت علی یہ دونوں حکم جس کو خلیفہ بنادیں وہی رہے دوسرا علیحدہ ہوجائے اسی واقعہ کو واقعہ تحکیم کہتے ہیں ۱۲
قیس نے حضرت علی سے کہا کہ آپ ابن عباس کو حکم بنادیجیے کیوں کہ وہ عمروبن عاص کے مثل ہیں اہل یمن نے کہا کہ ایک حکم ہم میں سے ہوناچاہیے اور انھوں نے حضرت ابوموسیٰ کومنتخب کیا حضرت ابن عباس نے حضرت علی سے کہا کہ آپ ابوموسیٰ کوکیوں حکم بناتے ہیں واللہ مجھے معلوم ہے جو ان کی رائے ہم لوگوں کے بارے میں ہے جب ان کو ہم سے امید تھی اس وقت بھی کبھی انھوں نے ہماری طرفداری نہیں کی اب آپ ان کو (ایسے بڑے)معاملہ کے لیے حکم مقررکرتے ہیں اورباوجود اسکے وہ اس قابل بھی نہیں ہیں لہذا آپ احنف جو حکم بنادیجیےکیوں کہ وہ عمرو بن عاص کے ہم پلہ ہیں حضرت علی مرتضیٰ نے کہا میں ایساہی کروں گا مگراہل یمن نے جن میں اشعث بن قیس وغیرہ کہا کہ ایسانہیں ہوسکتا ابوموسیٰ ہی حکم ہوں گے پس (مجبورہوکر)حضرت علی نے ان کو حکم بنادیا اور ان سے اورعمروبن عاص سے کہا کہ میں تم دونوں کو اس لیے حکم بناتاہوں کہ کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کروکتاب اللہ سب میری تائید کرتے ہیں اوراگرتم کتاب اللہ کے موافق فیصلہ نہ کروگے اور کسی کی رعایت مروت کروگے تو تمہار افیصلہ قبول نہ ہوگا چنانچہ ان دونوں نے وہ لیا جو تواریخ۱؎میں مذکور ہے ہم نے اس کو بسط کے ساتھ تاریخ کامل میں لکھا ہے۔حضرت ابوموسیٰ کی وفات کوفہ میں ہوئی اور بعض لوگ کہتے ہیں مکہ میں ۴۲ھ میں اوربعض کا قول ہے ۴۴ھ میں اس وقت عمران کی ترسٹھ برس کی تھی اور بعض لوگ کہتے ہیں ۹۴ھ میں ان کی وفات ہوئی اور بعض کا بیان ہے کہ ۵۰ھ میں بعض لوگ کہتے ہیں ۵۲ھ میں بعض کہتے ہیں ۵۳ھ میں واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)