ابن مغفل بن عبدغنم اوربعض لوگوں نے عبدنہم بیان کیاہے وہ بیٹے ہیں عفیف بن اسحم بن ربیعہ بن عداء بن عدی بن ثعلبہ بن ذویب بن کے ذویب کا نام بعض نے دوید بیان کیا ہے۔ذویب بیٹے ہیں سعد بن عباء بن عثمان بن عمروبن اذین طانجہ کے مزنی ہیں عثمان کی وہ اولاد جو کہ (ان کی بی بی)مزینہ (کےبطن) سے ہیں سب اپنی ماں مزینہ بن کلیب بن وبرہ کی طرف منسوب ہیں یہی عمروبن اوس چچاہیں تمیم بن مرین ادکے۔حضرت عبداللہ اصحاب شجرہ سے تھے۔ان کی کنیت ابوسعید تھی بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ابوعبدالرحمٰن تھی اور بعض کاقول ہے کہ ان کی کنیت ابوزیاد تھی۔انھوں نے (پہلے)مدینہ میں سکونت اختیارکرلی تھی(بعد میں) پھروہاں سے بصرہ چلے گئے اور وہیں جامع مسجد کے قریب ایک مکان بھی بنالیا۔عبداللہ ان اہل بکامیں ہیں کہ جن کے بارہ میں اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی ہے۔۱؎ ولا علی الذین اذامااتوک لتحملہم قلت لااجدما احملکم علیہ تولواواعینہم تفیض من الدمع الایۃ عبداللہ بن مغفل ان دس شخصوں میں ہیں جن کو حضرت عمر نے بصرہ میں مسائل دین کے تعلیم کرنے کےلیے بھیجاتھا۔ اوریہ عبداللہ پہلے شخص ہیں کہ شہرتستر کے دروازے میں داخل ہوئے جس وقت کہ مسلمانوں نے تستر کو فتح کرلیا۔عبداللہ بن مغفل نےبیان کیا ہے کہ جس درخت کے نیچے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کرائی تھی میں اس درخت کی شاخوں سے بعض کوپکڑکرآپ کے اوپرسایہ کیے ہوئے تھاپس ہم سب نے آپ سے اس پر بیعت کی کہ (ہرگز لڑائی سے)نہیں بھاگیں گے۔انھوں
۱؎ ترجمہ ۔ان لوگوں پر بھی کچھ گناہ نہیں ہے جو اے نبی (سفر جہاد کے لیے آمادہ ہوکر)تمھارے پاس آئیں مگرتم ان سے کہہ دو کہ میرے پاس کوئی جانورنہیں ہے جو تمھیں سواری کے لیے دوں۔
نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں ۔اوران سے حسن بصری اورابوعالیہ نے اورعبداللہ بن شجرہ کے دونوں بیٹے مطرف اور یزید نے اورعقبہ بن صہبان اورابووازع اور معاویہ بن قرہ اور حمید بن ہلال وغیرہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ہمیں ابوفضل یعنی عبداللہ بن احمد بن عبدالقابہ نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابومحمد یعنی جعفر بن احمد نے خبردی وہ کہتے تھے حسن بن احمددقاق نے خبردی وہ کہتے تھےہمیں عثمان بن احمد نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے حسن بن مکرم نے بیان کیاوہ کہتے تھے عثمان بن عمر نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے کہمس نےابن یزید سے انھوں نے عبداللہ بن مغفل سے روایت کرکے بیان کیا کہ انھوں نے ایک آدمی کوخذف کرتے ہوئے دیکھا تواس سے کہا کہ تم خذف نہ کرو اس لیے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے۔یایوں کہاکہ آپ نے خذف کو ناپسند کیا ہے (تم چھوڑدو)ورنہ میں تم سے ہرگزکوئی بات نہ کروں گا۔عبداللہ ابن مغفل کی وفات بمقام بصرہ ۵۹ھ میں ہوئی اور ابوبرزہ اسلمی نے ان کے جنازے کی نماز پڑھائی۔اس لیے کہ انھوں نے اس کی وصیت کردی تھی۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔