سیدنا عبداللہ ابن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
سیدنا عبداللہ ابن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
قریشی عدوی۔ان کا نسب ان کے والدکے تذکرہ میں انشاء اللہ تعالیٰ آئے گا۔ان کی والدہ اور ان کی بہن ام المومنین حفصہ کی والدہ زینب بنت مظعون بن حبیب جمحہ ہیں۔یہ اپنے والد کے ساتھ مسلمان ہوگئے تھے سن بلوغ کو نہ پہنچے تھے۔اوربعض لوگوں نے بیان کیا ہے کہ ان کا اسلام ان کے والد کے اسلام سے بھی پہلے تھامگریہ صحیح نہیں۔ سب لوگوں کا اس امر پر اجماع ہے کہ غزوہ ٔبدر میں شریک نہ تھے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کم سنی کے سبب واپس کردیاتھااوران کی شرکت ِاحد میں لوگوں کا اختلاف ہےبعض کاقول ہے کہ احد میں شریک تھے اوربعض کابیان ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسوقت بھی ان کو نابالغوں کے ساتھ واپس کردیاتھا۔ہمیں عبداللہ بن احمد بن علی نے اپنی سند سے یونس بن بکیر تک خبردی وہ ابن اسحاق سے روایت کرتے تھے انھوں نے کہا، مجھے نافع نے حضرت ابن عمر سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتے تھے جب حضرت عمر بن خطاب اسلام لائےتو انھوں نے دریافت کیا کہ مکہ میں کون شخص بات کوزیادہ مشہورکیاکرتاہےلوگوں نے بیان کیا کہ جمیل بن معمر جمحی پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ چلے اور میں بھی ان کے پیچھے چلا اس وقت میں بچہ تھاجوبات دیکھتاتھاسمجھ لیتاتھا پس حضرت عمر نے کہا کہ اے جمیل تم کو معلوم ہے کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں پس واللہ اس نے الٹ کے جواب بھی نہیں دیااوراپنی چادر کھینچتا ہو ااٹھ کھڑا ہوا حضرت عمر بھی اس کے پیچھے چلےاور میں بھی ان کے ساتھ تھا یہاں تک کہ وہ کعبہ کے دروازہ پر کھڑا ہوا اورچلایا کہ اے گروہ قریش عمربے دین ہوگئے حضرت عمر نے کہا تو جھوٹ بولتاہے میں بے دین نہیں ہوا بلکہ مسلمان ہوگیاہوں اس کے بعد پوری حدیث ذکرکی۔صحیح یہ ہے کہ حضرت ابن عمر کا پہلا غزوہ خندق ہے اور غزوہ موتہ میں بھی شریک تھے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار (عمل/ سنتوں)کے نہایت متبع تھےیہاں تک کہ (سفرحج میں) انھیں مقامات پراترتے تھے جہاں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اتراکرتےتھےاوراسی مقام پرنمازپڑھتے تھے جہاں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے حتٰی کہ ایک درخت کے نیچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز پڑھی تھی حضرت ابن عمر اس درخت کی آب پاشی کیاکرتے تھےتاکہ وہ خشک نہ ہوجائے۔ہمیں اسمٰعیل بن علی وغیرہ نے اپنی سند سے ابوعیسٰی یعنی محمد بن عیسٰی تک خبردی وہ کہتے تھے ہم سے احمد بن منیع نے بیان کیا وہ کہتے تھے میں نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھاکہ میرے ہاتھ میں ایک ٹکڑا استبرق کا ہے میں جنت کے جس مقام کی طرف اشارہ کرتاہوں وہ ٹکڑا مجھے وہیں اڑا لے جاتاہے میں نے اس خواب کو حفصہ سے بیان کیا حفصہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا آپ نے فرمایا کہ تمھارے بھائی ایک نیک آدمی ہیں یا یہ فرمایا کہ عبداللہ ایک نیک آدمی ہیں۔ہمیں حافظ ابو محمد یعنی قاسم بن ابی القاسم نے اجازۃً خبردی وہ کہتے تھے مجھے میرے والد نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں زاہربن طاہر نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکربیہقی نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے ابو نصر بن قتادہ نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ابو احمد حافظ نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالعباس نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے قتیبہ نے بیان کیا وہ کہتے تھےہم سے خنیسی یعنی محمد بن یزید بن خنیس نے عبدالعزیز بن ابی داؤد سے انھوں نے نافع سے روایت کرکے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے حضرت ابن عمر مدینہ کے بعض اطراف میں تشریف لے گئے اور ان کے ہمراہ ان کے اصحاب بھی تھےاُن لوگوں نے دسترخوان بچھایا اتنے میں ایک بکریوں کا چرواہااس طرف سے گزرا اوراس نے سلام کیاحضرت ابن عمر نے فرمایا کہ اے چرواہے آ اورتوبھی اس دسترخوان سے کھااس نے کہا میں روزہ دارہوں حضرت ابن عمرنے کہا کیا تو ایسی سخت گرمی کےدن میں بھی روزہ رکھتا ہے اور اسی حال میں بکریوں کو بھی چراتاہے اس نے کہا واللہ میں خالی دنوں میں ایساہی کرتاہوں پھراس سے حضرت ابن عمر نے بغرض امتحان کہا کہ کیا تو اس بات کو منظورکرے گا کہ اپنی ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمارے ہاتھ بیچ ڈالے ہم تجھے اس کی قیمت دیں گے اور اس کا گوشت بھی اس قدر دیں گے جس سے توروزہ افطار کرے اس چرواہے نے کہا یہ میری بکریاں نہیں ہیں یہ بکریاں تو میرے آقا کی ہیں حضرت ابن عمر نے اس سے کہا کہ اگر تیرا آقا ایک بکری نہ پائے گا تو تیراکیاکرے گاپس چرواہا وہاں سے چل دیا اور اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھا اور کہتاتھا۱؎ فاین اللہ ہے پس حضرت ابن عمر اس چرواہے کے اس قول کو باربار کہتے تھے کہ چرواہے نے کہا فاین اللہ پھرجب مدینہ آئے تو اس چرواہے کے آقا کے پاس آدمی بھیجا اور اس سے بکریوں اورچرواہے کو مول لے لیا پھرچرواہے کو آزاد کردیا اوربکریاں بھی اسی کو دے دیں۔نیز حافظ ابو محمد کہتے تھے کہ مجھے میرے والد نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھے ابوالمعالی محمد بن اسمعیل نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے ابراہیم بن معقل نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں حافظ ابوعبداللہ نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے ابن وہب نے بیان کیا وہ کہتے تھے کہ (امام)مالک فرماتے تھے کہ حضرت ابن عمربعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساٹھ برس رہے موسم حج میں اور نیزاور اوقات میں برابر لوگوں کو فتویٰ دیتے تھے امام مالک کہتے تھے کہ حضرت ابن عمر ائمہ مسلمین سے تھے۔نیز حافظ ابو محمد کہتے تھےمجھے میرے والد نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر بن عبدالباقی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابومحمد جوہری نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر حیوٰہ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر بن معروف نے خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے حسین بن فہم نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے محمد بن سعد نے بیان کیا وہ کہتے تھےمجھے مجالد سے روایت کرکے خبردی گئی وہ شعبی سےروایت کرتے تھے کہ انھوں نے کہا حضرت ابن عمر کی حدیث بہت جید ہوتی تھی مگر فقہ جید نہ تھی حضرت ابن عمر فتویٰ دینے میں نہایت دیانت و احتیاط سے کام لیتے تھے اور خود اپنے عمل میں بھی نہا یت متقی تھے یہاں تک کہ انھوں نے خلافت میں نزاع کرناکبھی پسند نہیں کیا باوجودیکہ اہل شام کا میلان ان کی طرف بہت تھااور اہل شام ان سے محبت رکھتے تھے کبھی کسی فتنہ میں انھوں نے جنگ نہیں کی حضرت علی کے ساتھ بھی ان کی کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے مگربعد میں حضرت علی کے ساتھ
ترجمہ۱؎ پس اللہ کہاں ہے۔یعنی اگر میں بے ایمانی کروں تو خداکواسکا علم ہو ہی جائیگا۱۲
ہو کر نہ لڑنے پرنادم تھے۔ہمیں قاضی ابو غانم محمد بن ہبتہ اللہ بن محمد بن ابی جرادہ نے خبردی وہ کہتے تھے مجھے میرے چچا ابوالمجد عبداللہ بن محمد نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے ابوالحسن یعنی علی بن عبداللہ بن محمد بن ابی جرادہ نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالفتح یعنی عبداللہ بن اسمٰعیل بن احمد بن اسمٰعیل بن سعید نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالنحر یعنی حارث بن عبدالسلام بن زغبان قصی نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے محمد بن حسین بن یحییٰ کوفی نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ابونعیم نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے عبداللہ بن حبیب نے بیان کیا وہ کہتےتھےمجھے میرے والد نے خبردی کہ جب حضرت ابن عمر کی وفات کا وقت آیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں اپنے دل میں دنیا کی کسی بات کی آرزو نہیں پاتا ہاں اس کا مجھے افسوس ہے کہ میں نے گروہ باغی سے قتال کیوں نہ کیا اس حدیث کو ابو عمرنے بھی لکھا ہے اور انھوں نے اتنی بات زیادہ روایت کی ہے کہ علی کے ساتھ ہوکر میں نے گروہ باغی سے قتال کیوں نہ کیا۔حضرت جابر بن عبداللہ کہتے تھے کہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کی طرف دنیا نہ جھکی ہو اور وہ دنیا کی طرف نہ جھکاہو سواعمر اور ان کے بیٹے عبداللہ بن عمرکے ان کی نسبت مروان بن حکم نے کہا کہ ان سے خلافت کے لیے بیعت کیجائے اوران سے کہا کہ اہل شام آپ کو (خلیفہ بنانا)چاہتے ہیں حضرت ابن عمر نے کہا پھر میں اہل عراق کے ساتھ کیا معاملہ کروں گا مروان نے کہا اہل عراق سے ہم لڑیں گے حضرت ابن عمر نے کہا واللہ اگر تمام لوگ میرے مطیع ہوجائیں صرف فد ک کے لوگ رہ جائیں اور مجھے ان سے لڑنا پڑے اور لڑائی میں ان کے ایک آدمی کے مارے جانے کا بھی خیال ہو تو میں ہرگزخلافت قبول نہ کروں گا پس انھوں نے (ملتی ہوئی) خلافت کو چھوڑدیا۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حج بہت کیا کرتے تھے اور صدقہ بہت دیتے تھے اور اکثر ایک مجلس میں تیس ہزار روپیہ خیرات کردیتے تھے۔نافع کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمر کی عادت تھی کہ جب اپنے مال میں سے کوئی چیز ان کو پسند آتی تو اس کو اللہ کہ راہ میں دے دیتے انکے غلاموں کو ان کی یہ عادت معلوم ہوگئی تھی پس اکثر ان میں سے کوئی شخص مسجد میں آمدورفت زیادہ کرنے لگتا پس ابن عمر جب اس کو اس اچھے حال میں دیکھتے تو اسے آزاد کردیتے ان کے احباب ان سے کہتے کہ اے ابو عبدالرحمٰن واللہ یہ لوگ آپ کو فریب دیتے ہیں حضرت ابن عمر فرماتے کہ جو شخص ہم کو اللہ کے نام سے فریب دیگا ہم اس کے فریب میں آجائیں گے۔نافع کہتے تھے ایک مرتبہ دوپہرکے بعد حضرت ابن عمر اپنے ایک اونٹ پر سوار جارہے تھے اس کی رفتار ان کو بہت پسند آئی تو انھوں نے اس کو اسی مقام پر بٹھلادیا اور اس سے اتر پڑے اور فرمایا کہ اے نافع اس سے مہار اور کجاوا اتار لو اور اس کا اشعار کردواوراس کوجھول پہنادو اورقربانی کے اونٹوں میں اس کوشامل کردو نافع
ترجمہ۔ ذرا انصاف سے دیکھنا چاہیے ترک خلافت کوئی معمولی کام نہ تھا فی الواقع یہ اتنے بڑے حوصلہ اور ہمت کا کام تھا جس کی نظیر حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے سوااور کسی میں نہیں ملتی ۲اونٹ کی کوہان پر محض شناخت قربانی کے لیے کچھ زخم لگادیتے تھے اس کو اشعار کہتے ہیں۱۲
کہتے تھےحضرت ابن عمرکعبہ کے اندر ایک مرتبہ گئے میں نے ان کو سناوہ سجدہ میں یہ کہہ رہے تھے کہ اے میرے پروردگارتوجانتاہے کہ دنیا یعنی خلافت کی بابت جو مدینے میں قریش سے مزاحمت نہیں کہ اس کا سبب صرف تیرا خوف ہے نافع کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمر جب اس آیت کو پڑھتے الم یان للذین امنو ان تخشع قلوبہم لذکراللہ تو روتےیہاں تک کہ روتے روتے بیخود ہوجاتے حضرت ابن عمر اکثر کہاکرتے تھےالبر شئی ہیں وجہ طلق و کلام لین حضرت ابن عمر نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت حدیثیں روایت کی ہیں اور حضرت ابوبکروعمرو عثمان و ابوذر و معاذ بن جبل ورافع بن خدیج وابوہریرہ وعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی روایت کی ہے اور ان سے ابن عباس اور جابر برادر اغرمزنی نے صحابہ میں سے اورتابعین میں سے ان کے بیٹوں سالم اور عبداللہ اور حمزہ اور ابوسلمہ اورحمید فرزندان عبدالرحمٰن اور مصعب بن سعد اور سعید بن مسیب مسلم مولائے حضرت عمر اور نافع مولائےابن عمر نے اور بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے۔ہمیں عبداللہ بن احمد بن عبدالقاہرطوسی نے خبردی وہ کہتے تھے مجھے میرے دادا محمد بن عبیداللہ بن فضل نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے حماد بن زید نے ایوب سے انھوں نے انھوں نے نافع سے انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کرکے بیان کیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے تھے کہ آپ نے فرمایاہر نشہ پیدا کرنے والی چیز شراب (کے حکم میں) ہے اور ہر نشہ پیدا کرنے والی چیزحرام ہے اور جو شخص دنیا میں شراب پی لے گا اور اس حال میں مرے گا کہ شراب کا عادی ہوگاتو آخرت میں اس کو شراب نہ ملے گی ہمیں ابومنصور مسلم بن علی بن محمد سنجی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالبرکات یعنی محمد بن محمد بن خمیس جہنی موصلی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابونصر یعنی احمد بن عبدالباقی بن طوق نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے ابوالقاسم بن نصربن احمد بن خلیل مرجی نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ابویعلیٰ نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سےسوید بن سعید نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے فضیل بن عیاض نے لیث سے انھوں نے مجاہد سے انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت کرکے بیان کیا وہ فرماتے تھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن میراجسم پکڑا اور فرمایا کہ اے عبداللہ دنیا میں اس طرح رہو کہ گویاتم مسافرہو یا راہ چلنے والے ہواور اپنے آپ کو مردوں میں شمارکرو پھرمجھ سے فرمایا کہ اے عبداللہ بن عمر آخرت میں نہ درہم ہوں گے نہ دینار وہاں تونیکیاں اور بدیاں ہوں گی بس انھیں نیکیوں سے ہرایک کا بدلہ دلوایاجائے گا(اے ابن عمر) تم دنیا میں اپنے لڑکے سے اپنی براءت نہ کرو ورنہ خداتم سے براء ت کرے گا اور تم کو سب لوگوں کے سامنے فضیحت کرے گا اور جو شخص بوجہ تکبر کے لمبا کپڑا پہنے گا اللہ اس کی طرف قیامت کے دن نظر(عنایت ) نہ فرمائیگا۔
ترجمہ کیا ابھی ایمانداروں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کا دل یاد خداسے ڈرجائے۱۲
نیکی آسان چیز ہے یعنی کشادہ پیشانی اور تمام کلام۱۲
حضرت عبداللہ بن عمر کی وفات ۷۲ھ میں حضرت ابن زبیر کی شہادت کے تین ماہ بعد ہوئی حضرت ابن عمر کی وفات کا سبب یہ ہوا کہ حجاج نے ایک شخص کوحکم دیا تواس نے اپنے نیزے کی نوک زہر میں بجھائی اورراستے میں حضرت ابن عمر سے بھڑکرنکلا اور ان کے پیرکی پشت پروہ نیزہ ماردیا۔ حجاج نے یہ صرف اس سبب سے کیا کہ اس نے ایک دن خطبہ پڑھنا شروع کیا نماز میں دیر ہونے لگی تو حضرت ابن عمر نے کہا کہ(نماز پڑھ لےورنہ)آفتاب تیرامنتظر نہ رہے گا حجاج نے کہا میرادل اس وقت یہ چاہتاہے کہ میں تمھارا سراڑادوں حضرت ابن عمرنے کہا اگرتوایسا کرے (توکیابعید کیونکہ) توبےوقوف حاکم ہے۔اور یہ بھی بیان کیا جاتاہے کہ حجاج نے حضرت عبداللہ ابن عمرکے ساتھ حج کیاتھاعبدالملک بن مروان نے اسے حکم دیاتھا کہ تو ابن عمر کی اقتداکر پس حضرت ابن عمر تمام مقامات میں عرفہ وغیرہ میں حجاج سے آگے رہتے تھےیہ بات حجاج پر بہت شاق تھی پس حجاج نے ایک اپنے ساتھی کوحکم دیا کہ زہرکابجھاہواحربہ ابن عمرکوماردےچنانچہ جب لوگ عرفہ سے چلنے لگے تو اسی اژدھام میں اس نے زہریلا حربہ حضرت ابن عمر کی پشت پر ماردیا اس زخم سے حضرت ابن عمرکئی روز بیماررہے حجاج ان کی عیادت کوگئےاور اسی قاتل کانام پوچھا حضرت ابن عمر نے کہاتم اس کوکیاکروگے حجاج نے کہا خدامجھے غارت کردے اگر میں اسے قتل نہ کردوں حضرت ابن عمر نے کہا میں نہیں جانتا کہ تم ایساکروگے تمھیں نے تو اس شخص کوحکم دیاتھا جس نے حربہ مجھے مارا حجاج نے کہا اے ابوعبدالرحمٰن آپ ایسا نہ کہیے پھر حجاج چلاگیاکئی روز کے بعد حضرت ابن عمر کی وفات ہوگئی حجاج نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی حضرت ابن عمرکی عمر چھیاسی سال کی تھی اور بعض لوگ کہتے ہیں چوراسی سال اور بعض لوگ کہتےہیں ۷۴ھ میں ان کی وفات ہوئی۔مقام محصب میں دفن کیے گئے اور بعض لوگ کہتے ہیں ذی طویٰ میں اور بعض لوگ کہتے ہیں فج میں اور بعض کا بیان ہے کہ سرف میں۔بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ان کی ولادت بعثت سے ایک سال پہلے ہوئی مگر یہ انھیں لوگوں کا قول کے موافق صحیح ہوسکتاہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام مکہ میں بعد بعثت کے دس برس کہتے ہیں کیوں کہ انھوں نے۷۳ھ میں وفات پائی اور ان کی عمر چوراسی برس کی تھی پس ہجرت کے وقت یہ گیارہ برس کے ہونگے بعثت سے ایک سال پہلے پیداہوئے ہوں گےاس کی تائید ان لوگوں کاقول جو کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنگ احد میں بھی نہیں لیا کیوں کہ اس وقت ان کی عمر چودہ برس ہوگی اور غزوہ احد۳ھ میں ہواہےاس حساب سے ہجرت کے وقت ان کی عمرگیارہ برس ہوگی مگرجولوگ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام مکہ میں بعد بعثت کے تیرہ برس رہااور حضرت عبداللہ بن عمر کی عمرچوراسی برس کی تھی ان کے حساب سے ان کی ولادت بعثت کے دو برس بعد ہوگی اورجولوگ ان کی عمر چھیاسی برس کی بیان کرتے ہیں ان کے نزدیک ان کی ولادت عین بعثت کے وقت ہوگی۔واللہ اعلم۔