۔ہمیں ابومنصور بن مکارم نے اپنی سند سے معافی بن عمران تک خبردی انھوں نے یونس بن ابی اسحاق سے انھوں نے مغیرہ بن عبداللہ یشکری سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کرکے بیان کیا وہ کہتے تھے کہ میں کسی ضرورت سے مسجد میں یابازارمیں گیا تو میں نے یکایک وہاں ایک جماعت کودیکھا پس اس جماعت کے قریب گیا تو ان لوگوں نے مجھ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کیے۔پس اس کے بعد یکایک مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک راستہ میں ملاقات ہوئی جو کہ عرفات اورمنیٰ کے درمیان میں تھا۔پس چند سوار میرے سامنے آئے(ان لوگوں کو میں نے انھیں اوصاف کے ساتھ جوکہ مجھ سے بیان کیے گئے تھے پہچانا)اور ایک نے مجھ سے کہا کہ اے شخص تم گھوڑے کے سامنے سے علیحدہ ہوجاؤ اس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس سوارکوچھوڑدو نہ معلوم اس کی کیاحاجت ہےپس میں آگے بڑھا یہاں تک کہ میں نےآپ کی اونٹنی کی باگ تھام لی اوریہ عرض کیا کہ یارسول اللہ مجھ کوایسی چیز بتلائیے جومجھ کو جنت سے قریب کرلے اور جہنم سے دوررکھے پس آپ نے جواب دیا کہ تم اللہ کی عبادت کرو شرک نہ کرو اور نمازپڑھواورزکوٰۃ اداکیاکرو اور رمضان کے روزے رکھو اورحج کرو اور لوگوں کےلیے اسی کو بہترسمجھو جس کو اپنے لیے اچھا سمجھتے ہو(یہی چیزیں تم کو جنت سے قریب کردیں گی) اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اونٹنی کی باگ چھوڑدو(پس میں نے چھوڑدیا)یہ حدیث عبداللہ یعنی ابومغیرہ اور عبداللہ بن منتفق کے تذکرہ میں گذرچکی ہے سب حدیث ایک ہی ہے۔
الحمدللہ ان لوگوں کانام تمام ہوگیاجن کانام عبداللہ تھا۔عبدیت کے ساتھ جتنے نام ہیں ان میں سے میں نے عبداللہ کے نام کو مقدم کیااس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے جتنے نام ہیں ان میں سے اللہ زیادہ مشہورہے۔پس اسی وجہ سے میں نے ترتیب چھوڑدی واللہ اعلم۱۲۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)