ابن حفض بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم کنیت ان کی ابو عمرو مخزومی۔
یہ چچازاد بھائی ہیں حضرت خالد بن ولید کے اور ابوجہل بن ہشام کے ور خثیمہ بنت ہاشم بن مغیرہ کے جو حضرت عمر بن خطاب رضیاللہ عنہ کی والدہ ہیں۔ (اس رشتے سے یہ حضرت عمر رضیاللہ عنہ کے چچیرے ماموں ہوئے)
ابو عبدالرحمن نسائی نے ابراہیم بن یعقوب جو زجانی سے نقل کیا ہے کہ انھوںنے ابو ہشام مخزومی سے جو نبی مخزوم کے نسب کے بڑے عالم تھے ابو عمرو بن حفص کا نام پوچھا انھوں نے کہا احمد اور ان کی والدہ درہ بنت خزاعی بن حارث بن حویرث ثقفی ہیں۔ علی بن رباح نے ناشزہ بن سمی یزنی سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جابیہ (٭جابیہ ایک شہر ہے ملک شام میں اضلاع دمشق سے) والے دن خطبے میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (اے مسلمانو) میں تم سے خالد بن ولید کی بابت عذر خواہی کرتا ہوں میں نے انھیں حکم دیا تھا کہ وہ یہ مال ضرف مہاجرین کو دیں مگر انھوں نے جاہ اور شرف والے لوگوںکو اور باتونی آدمیوں (٭یہ اشرہ ہے اس امر کی طرف کہ حضرت خالد نے ایک شاعر کو کچھ روپیہ دے دیا تھا) کو بھی دیا لہذا میں نے انھیں معزول کر دیا اور ابو عبیدہ بن جراح کو ان کی جگہ پر مقرر کیا پس ابو عمرو بن حفص کھڑے ہوگئے اور انھوں نے کہا خدا کی قسم (٭حضرت عمر رضیاللہ عنہ کا حلم اور ان کی بردباری اور للہیت قابل آٰرین ہے ورنہ کس کی مجال تھی کہ اتنے بڑے شہنشاہ کے سامنے ایسی سخت گفتگو کرتا ساتھ ہی اس کے حضرت ابو عمرو کی حق گوئی بھی قابل تعریف ہے۔ اس مقام پر اگر کوئی نافہم یہ اعتراض کرے کہ حضرت بو عمرو نے قسم کھا کر حضرت عمر رضیاللہ عنہ کی ناانصافی وغیرہ کو بیان کیا ہے پس اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں یہ باتیں نہ تھیں تو حضرت ابو عمرو کا جھوٹا ہونا اور جھوٹی قسم کھانا لازم آئے گا تو جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ حضرت ابو عمرو نے جو کچھ کہا اپنی سمجھ کے موافق کہا اس وقت ان کی سمجھ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل خلاف انصف ہوگا۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرات خلفائے راشدین نے کس قدر اختیارات نکتہ چینی کے عام طور پر دے رکھے تھے) اے عمر تم نے انصاف نہیں کیا تم نے ایک ایسے عامل کو موقوف کر دیا جسے رسول خدا ﷺ نے عامل بنیا تھا اور تم نے ایک ایسی تلوار میان میں کر لی جو رسول خدا ﷺ نے (کافر کشی کے لئے) میان سے نکالی تھی اور تم نے ایک ایسے جھنڈے کو جھکا دیا جسے رسول خدا ﷺ نے بلند کیا تھ اور بے سک تم نے حق قرابت کا لحاظ نہ کیا اور تم نے اپنے چچا کے بیٹے پر حسد کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (ان سخت و درشت الفاظ کے جواب میں نہایت نرمی سے) فرمایا کہ تم چونکہ خالہ کے قریب رشتہ دار ہو اور ابھی نوجوان ہو اس لئے تم کو اپنے چچا کے بیٹے کی حمایت میں غصہ آگیا۔
(اسدالغابۃ جلد نمبر۔۱)