ابن قیس۔ احنف سے (ان کا لقب ہے احنف کے معنی وہ شخص جس کے پیر میں کجی ہو) ان کے پیر میں کچھ کجی تھی۔
ان کا نام ضحاک ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کا نام صحر بن معاویہ بن حصین بن عبادہ بن نزال بن مرہ بن عبید بن حارث بن عمرو بن کعب بن زید مناۃ بن تمیم ہے۔ کنیت ان کی ابو بحر۔ تمیمی سعدی۔ انھوں نے نبی ﷺ کازمانہ پایا تھا مگر آپ کو دیکھا نہیں۔ اور چونکہ نبی ﷺ نے انھیں دعا دی تھی اس وجہ سے لوگوںنے ان کا تذکرہ (صحابہ میں) کیا ہے ان کی والدہ قبیلہ باہلہ کی ایک ختون ہیں۔ ہم سے ابو الفرح یحیی بن محمود بن سعد ثقفی نے اجازۃ اپنی اسناد سے ابن ابی عاصم تک خبر دی وہ کہتے تھے ہمس ے محمد بن مثنی نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں حجاج نے خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے ابن سلمہ نے علی بن زید سے انھوںنے حسن (بصری) سے انھوں نے حضرت احنف بن قیس سے نقل کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے اس حالت میں کہ ین حضرت عچمان کے زمانہ خلافت میں کعبہ کا طواف کر رہا تھا کہ قبیلہ بنی لیث کے ایک شخص نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور (مجھ سے) کہا کہ کیا میں تمہہیں بشارت نہ دوں میں نے کہا ہاں (ضرور دو) اس شخص نے کہا کیا تم کو یاد ہے جب مجھے رسول خدا ﷺ نے تمہاری قوم کے پاس بھیجا تھا میں (جب ان لوگوںکے پاس پہنچا تو) اسلام کی خوبیاں ان سے بیان کرنے لگا اور انھیں اسلام کی ترغیب دینے لگا تو تم نے (مجھ سے) کہا تھا کہ بے شک تم اچھی بت کی ترغیب دیتے ہو اور اچھی بات کا حکم کرتے ہو اور بے شک وہ (یعنی نبی ﷺ) بھی اچھی بات کی ترغیب دیتے ہیں یہ خبر نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اے اللہ احنف کو بخش دے۔ احنف (یہ روح افزا بشارت سن کے بہت خوش ہوئے اور) اکثر کہا کرتے تھے کہ میرے نزدیک میرا کوئی عمل اس سے یعنی نبی ﷺ کی دعا سے زیادہ قابل امید نہیں ہے۔ حضرت احنف بڑے ذکی اور دانشمند اور عقیل تھے بصرہ کے لوگوںکے ہمراہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی عقلمندی اور دینداری اور نیک روی ملاحظہ فرما کر ایک سال تک ان کو روک لیا پھر ان کو (ایک روز) اپنے سامنے بلایا اور فرمایا کہ اے احنف تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں اپنے پاس روکا انھوں نے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین (میں) نہیں جانتا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بے شک رسول خدا ﷺ نے ہمیں عقلمند منافقوں سے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے لہذا مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم ان میں سے تو نہیں ہو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں ایک خط لکھ دیا یا حاکم بصرہ کے نام اس میں انھیں یہ لکھ دیا کہ احنف اہل بصرہ کے سردار ہیں اس وقت سے ان کی عزت بڑھتی گئی۔
یہ ان لوگوں میں تھے جنھوں نے حضرت علی رضً الہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان میں جو جمل یں لڑائی ہوئی تھی اس سے کنارہ کشی کی اور جنگ صفین (٭جنگ صفین اس لڑائی کا نام ہے جو حضرت علی مرتضی اور حضرت معاویہ میں ہوئی تھی جنگ جمل اس لڑائی کا نام ہے جو حضرت علی اور حضرت عائشہ کے درمیان میں ہوئی تھی) میں حضرت علی مرتضی کے ساتھ تھے۔ معصب بن زبیر جس وقت عراق کے حاکم ہوئے اس وقت تک زندہ رہے کوفہ میں سن ۶۷ھ میں وفات پائی۔ مصعب بن زبیر جو اپنے بھائی عبداللہ ۰بن زبیر) کی طرف سے حاکم عراق تھے ان کے جنازہ کے ہمراہ گئی ابو الحسن مداینی نے ذکر کیا ہے کہ انھوںنے ایک بیٹا چھوڑا تھا۔ بحر نام اور انھیں کے ساتھ ان کی کنیت تھی (یعنی ابوالبحر) بحر کی جب وفات ہوئی تو ان کی کوئی نرینہ اولاد باقی نہ تھی۔ واللہ اعلم۔ ان کا تذکرہ تینوں نے کیا ہے۔\
(اسدالغابۃ جلد نمبر۔۱)