سیّدناعکرمہ ابن ابی جہل
سیّدناعکرمہ ابن ابی جہل (تذکرہ / سوانح)
بن ہشام بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمربن مخزوم قریشی مخزومی۔ان کی والدہ ام مجالد خاندان بنی ہلال بن عامرکی ایک خاتون تھیں ابوجہل کانام عمروتھااورکنیت اس کی ابوالحکم تھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اورمسلمانوں اس کوابوجہل کہناشروع کیا اس طرح یہی کنیت اس کی مشہور ہوئی اوراس کانام عکرمہ اورپہلی کنیت ابوعثمان تھی فتح مکہ کےتھوڑے ہی دنوں بعد اسلام لےآئے تھے۔زمانہ جاہلیت میں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت دشمن تھےاورجو شخص اپنے باپ کے مثل ہواس کو لوگ برانہیں کہتے۔یہ بڑے مشہورشہسوارتھے جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو فتح کیاتویہ وہاں سےبھاگ گئے اوریمن میں جارہےرسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ کی طرف چلے توآپ نے عکرمہ کے قتل کاحکم دیااوران کے ساتھ اوربھی چندلوگوں کاحکم دیاہمیں ابوالفضل فقیہ مخزومی نے اپنی سندابویعلی تک پہنچاکرخبردی وہ کہتےتھے ہم سے ابوبکر بن شیبہ نے بیان کیاوہ کہتے تھےہم سےاحمد بن مفضل نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے اسباط بن نصرنے بیان کیا وہ کہتے تھے سدی نے مصعب بن سعدسےانہوں نےاپنے والدسےروایت کی کہ جب مکہ فتح ہوچکا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو امن دے دیاسواچارمردوں اوردوعورتوں کے کہ ان کی بابت حکم دیا تھاکہ جہاں پاؤ ان کوقتل کردو اگرچہ ان کو کعبہ کے پردہ میں لٹکاہواپاؤ (ان کے نام یہ تھے عکرمہ بن ابی جہل اورعبداللہ بن خبطل اورمقیس بن صبابہ اورعبداللہ بن سعد بن ابی سرح پس ابن خطل کو اس حالت میں پکڑلیاگیاکہ وہ کعبہ کے پردے سے لٹکاہواتھاپس سعیدبن حریث اورعماربن یاسر اس کی طرف بڑھے سعیدجوعمارسے تیزتھے آگےپہنچ گئےاورانہوں نے اس کو قتل کردیااور مقیس بن صبابہ کولوگوں نے بازارمیں گرفتارکرلیااوروہیں قتل کیااورعکرمہ میں کشتی میں سوارہوکربھاگ گئے اثنائے راہ میں ایک تیزہواچلی کشتی والے چلائے کہ اے بھائیواب تنہاخداکوپکارواب اورمعبود تمھارے اس وقت کام نہیں آسکتے عکرمہ نے کہاکہ جب دریامیں اللہ کے سواکوئی میرے کام نہیں آسکتاتوخشکی میں بھی اس کے سوادوسراکوئی کام نہیں آسکتا یااللہ میں عہدکرتاہوں کہ اگرتومجھے مصیبت سےبچائےتومیں ضرورمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے پاس جاؤنگااوراپناہاتھ ان کےہاتھ میں دے دوں گااس وقت یقیناً میں انھیں بخشش کرنے والااوربزرگی والاپاؤں گا۔چنانچہ (اس سفر سے صحیح سالم واپس آکر)حاضرہوئےاوراسلام لائےباقی رہے عبداللہ بن سعدوہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس جاکرچھپ رہےتھےپھرجب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا توحضرت عثمان ان کولےکرسامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےکھڑے ہوگئےاورعرض کیاکہ یارسول اللہ عبداللہ کی بیعت لیجئےحضرت نے اپناسرمبارک اٹھایااورتین مرتبہ عبداللہ بن سعد کی طرف دیکھابعد اس کے ان سے بیعت کرلی بعداس کے اپنے اصحاب کی طرف آپ متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ کیاتم میں کوئی سعادت مندایسانہ تھا کہ جب مجھے دیکھاکہ میں نے اس کی بیعت میں تامل کیافوراً اٹھتااوراس کی گردن ماردیتااوربعض لوگوں نے بیان کیاہے کہ عبداللہ بن سعد کی بی بی ام حکیمہ جو ان کے چچاحارث بن ہشام کی بیٹی تھیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے امان کی خبرلے کران کے پاس یمن گئی تھیں وہ اپنے شوہرسے پہلےفتح مکہ کے دن اسلام لے آئی تھیں پس ام حکیمہ ان کولے کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس واپس لوٹیں اوروہ اسلام لائےاوران کااسلام اچھاہوا اوروہ نیک مسلمانوں میں سے تھے تورسول خداصلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھ کراٹھ کھڑے ہوئے اوران سے معانقہ کیااورفرمایاکہ مرحباہوسوارمہاجرکوجب یہ اسلام لائے تومسلمان کہاکرتے تھے کہ یہ دشمن خدایعنی ابوجہل کابیٹاہےیہ بات ان کو ناگوارگذرتی تھی لہذاانھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےاصحاب سے فرمایاکہ ان کے باپ کوبرا مت کہوکیوں کہ مردہ کوبراکہنازندہ کوتکلیف دیتاہے اور یہ بھی ممانعت کردی کہ لوگ ان کوعکرمہ بن ابی جہل نہ کہیں۔ اللہم صلی علی محمدوعلی آل محمددیکھویہ خلق کیسااچھااورکیسا بڑاتھا۔جب عکرمہ اسلام لائے توانھوں نے کہاکہ یارسول اللہ میں نے جس قدر مال آپ کی ضرر رسانی میں خرچ کیاہے اب اسی قدر میں اللہ کی راہ میں خرچ کروں گا۔ان کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے سال میں ہوازن کے صدقات وصول کرنے کے لئے مقررکیاتھا۔ہمیں ابراہیم بن محمد وغیرہ نے اپنی سند کے ساتھ ابوعیسیٰ ترمذی سےروایت کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے عبدبن حمیدوغیرہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے موسیٰ بن مسعود نے سفیان سے انھوں نے ابو اسحاق سےانھوں نے مصعب بن سعد سے انھوں نے عکرمہ بن ابی جہل سے روایت کرکے بیان کیا کہ وہ کہتےتھےجب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہواتوآپ نے فرمایا کہ مرحبابالراکب المہاجریعنی اے سوارمہاجر تم کو مرحباہے قتال مرتدین میں ان سے بڑے کارنمایاں ظاہرہوئے۔حضرت ابوبکرصدیق نے ان کوایک لشکرکاسردارمقررکرکے اہل عمان کے پاس بھیجاتھاوہ لوگ مرتدہوگئےتھےپس یہ ان پر غالب آئےپھرحضرت ابوبکر نے ان کویمن کی طرف بھیجا جب یہ مرتدین کے قتل سے فراغت پاکرمسلمانوں کے لشکرکے ہمراہ بعہد حضرت ابوبکربارادہ جہاد ملک شام کی طرف چلےجب مسلمانوں نے مقام جرف میں جو مدینہ سے دومیل ہے قیام کردیاتوحضرت ابوبکرپوشیدہ طورپران کے قیام گاہ اور لشکرکی حالت کااندازہ کرنے کے لیے چلے توانھوں نےایک بڑاخیمہ دیکھا جس کے گردآٹھ گھوڑے اورنیزہ اورعمدہ سامان مہیاتھاحضرت ابوبکر اس خیمہ کے قریب پہنچےتومعلوم ہواکہ یہ خیمہ حضرت عکرمہ کاہے حضرت ابوبکرنے ان کو سلام کیااور ان کے لیے جزائےخیرکی دعامانگی اوران سے کہاکہ تم ہم سے کچھ مدد لے لوحضرت عکرمہ نے کہامجھے کچھ حاجت مددکی نہیں ہےمیرے پاس دوہزاردینار موجود ہیں پس حضرت ابوبکرنے ان کو دعائے خیردی پھرحضرت عکرمہ شام کی طرف چلے گئے اور غزوہ اجناد میں شہیدہوئےاوربعض لوگ کہتےہیں کہ واقعہ یرموک میں اوربعض کہتےہیں کہ واقعہ صفرمیں ہمیں بہت سے لوگوں نے کتابتہً ابوالقاسم بن سمرقندی سے نقل کرکےخبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسین بن نقور نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوطاہرمخلس نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں ابوبکر بن سیف نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے سیف بن عمرنے ابوعثمان خسانی یعنی یزید بن اسد سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کرکے خبردی وہ کہتے تھے کہ عکرمہ بن ابی جہل نے یرموک میں(کفار سے مخاطب ہوکربطوررجزکے)کہامیں ہرجنگ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم(جیسے اشجع الاشجعین) سے لڑچکاہوں توکیاآج تم (جیسے بزدلوں)سے بھاگ جاؤں گاپھربلندآواز زے (مسلمانوں سے مخاطب ہوکر)کہاکہ کون ہے جو مجھ سے موت کےاوپر بیعت کرے پس ان کے چچا حارث بن ہشام اورضراربن ازورنے مع چارسوسرداران مسلمین و شہسواران مومنین کے(اسی شرط پر)ان سے بیعت کی ان سب لوگوں حضرت خالد کےخیمے کے سامنے کھڑے ہوکر قتال کیا یہاں تک کہ خوب زخمی ہوکرسب شہیدہوگئےسواضرار بن ارور کے۔
نیزانھیں راویوں نے بیان کیاکہ ہمیں ابوالقاسم نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوعلی بن مسلمہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسن بن حمامی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوعلی بن صواف نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے محمدبن حسن بن علی بن قطان نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے اسماعیل بن نیسی عطارنے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے اسحاق بن بشر نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمدبن اسحاق نے زہری سے روایت کرکے خبردی نیزمحمد بن اسحاق کہتےتھے مجھے ابن سمعان نے بھی زہری سے روایت کرکے خبردی کہ عکرمہ بن ابی جہل نے اس دن یعنی یوم قحل (جنگ یرموک)میں بڑاکار نمایاں کیانیزوں کے اندرگھستے ہوئےچلے جاتے تھے یہاں تک کہ ان کاسینہ اورچہرہ زخمی ہوگیاان سے کہاگیا کہ خداسے ڈرواپنی جان پررحم کرو توانھوں نے جواب دیا کہ میں اپنی جان لات وعزی کے جہاد میں توفداکرتاتھاتوکیااب میں اللہ ورسول سے اپنی جان بچاؤں نہیں خداکی قسم ایساکبھی نہیں ہوگاراوی بیان کرتے ہیں کہ پھران کی تیزی اوربڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ شہیدہوگئےاللہ تعالیٰ ان پررحم کرے۔نیزہمیں بہت سے لوگوں نے اجازۃً خبردی وہ کہتےتھے ہم سے عبداللہ بن محمد بن عبداللہ ہلال عدی نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے یوسف بن یعقوب بن احمدحصاص نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے مطلب بن کثیرنے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے زبیرابن موسیٰ نے مصعب بن عبداللہ بن ابی امیہ سے انھوں نے ام سلمہ زوجۂ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتی تھیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے(ایک روز)فرمایاکہ میں نے(خواب میں) ابوجہل کاایک خوشہ جنت میں دیکھاہے پھرجب عکرمہ بن ابی جہل اسلام لائے توحضرت نے فرمایا کہ اے ام سلمہ یہی(اس خواب کی تعبیر) ہے حضرت عکرمہ کی کوئی اولاد نہ تھی ابوجہل کی نسل صرف اس کی دختری اولاد سے چلی۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اُسد الغابۃ ۔جلد ۷،۶)