ابن جون۔ اور بعض لوگ ان کو ابن ابی الجون کہتے ہیں نام ان کا عبدالعزی ابن منقد بن ربیعہ بن اصرم بن ضبیس بن حرام بن حبشیہ بن کعب بن عمرو بن ربیعہ۔ ربیعہ کا ام محی بن عمو مزیقیا اور عمو بن ابی ربیعہ جو قبیلہ خزاعہ کے والد ہیں انھیں کی طرف سب لوگ منسوب ہیں۔ ہشامنے ان کا نسب ایس طرح بیانکیا ہے بعض لوگوںکا بیان ہے کہ یہ بو معبد خزاعی ہیں ام معبد کے شوہر اور یہی ہیں جن کی نسبت رسول خدا ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں نے دجال کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ سبس ے زیدہ اس کے مشابہ اکثم بن عبدالعزی ہیں تو اکثم کھڑے ہوگئے اور انھوں نے عرض کیا کہ اس کی مشابہت مجھے کچھ مضر ہے حضرت نے فرمایا نہینتم مومن ہو وہ کافر ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے ان سے فرمایا تھاکہ اے اکثم بن جون میں نے عمرو بن لحی کو دیکھا کہ وہ اپنی اتریان آگ میں گھسیٹ رہا تھا میں نے تم سے زیادہ اس سے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا اکثم نے عرض کیاکہ یارسول اللہ اس کی مشابہت میرے لئے کچھ مضرہے حضرت نے فرمایا نہیں تم مومن ہو اور وہ کافر ہے وہ پلا شخص ہے جسے دین اسمعیل کو بدلا اور بت قائم ئے اور سائبہ (٭زامنہ جاہلیت مویشی کو نام پر آزاد کرنے لگے اسی کو سائبہ کہتے ہیں کے بچہ کو کہتے ہیں جس کو بتوں کے نام پر نذر کر کے کان پھاڑو دیتے اس بچے کو کہتے ہیں کہ جب وہ شکم میں ہو اس وقت اس کا مالک یہ نذر کرے کہ اگر نر پیدا ہو تو بت کے نام پرذبح کر دوں اور مادہ ہو تو اور اگر دونوں ہوے تو میں دونوں کو گا) اور بحیر اور حامی بنائے۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ وہ حدیث جس میں دجال کا ذکرہے صحیح نہیں ہے صحیح وہی ہے جو عمرو بن یحیی کے بارے میں منقول ہے۔ یہ اکثم سلیمان بن صرہ خزاعی رئیس التوابین کے چچا ہیں وہ سلیمان جو حضرت حسین بن علی کا انتقام لینے کے لئے نکلے تھے اور چشمہ وردہ کے پاس شہید ہوگئے تھے عنقریب ان کا ذکر آئے گا۔ اکثم کی ایک حدیث وہ ہے جو صحرہ بن ربیعہ نے عبداللہ بن شودب سے انھون نے ابو خشل سے انھوں نے خشل بن ثعلبہ مزنی سے انھوں نے اکثم بن ابی الجون سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا ہم لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ فلاں شخص لڑائی میں بہت جری ہے حضرت نے فرمایا وہ دوزخی ہے اکثم کہتے ہیں کہ ہم لوگوںنے عرض کیا کہ وہ شخص باوجود کثرت عبادت و اجتہاد و خوش خلقی کے دوزخی ہے تو ہم لوگوںکا کیا ٹھکانا حضرت نے فرمایا کہ وہ منافق ہے اس سببس ے دوزخی ہے اکثم کہتے ہیں ہ ہم لوگ لڑائی میں س کو دیکھتے رہے جو سوار یا پیادہ کافروںکا اس کی طرف سے گزرتا تھا وہ اس کو قتل کر ڈالتا تھا یہاں تک کہ جبوہ بہت زخمی ہوا تو ہم لوگ رسول خدا ﷺ کے حضور میں گئے اور ہم نے کہا کہ یارسول الہ وہ شخص تو شہید ہوگیا حضرت نے فرمایا کہ وہ دوزخی ہے پھر جب زخم کی تکلیف اسے زیادہ ہوئی تو اس نے اپنی تلوار لے کے اپنے سینہ پر رکھ لی اور اس پر جھک پڑا یہاں تک کہ وہ تلوار اس کی پشت کی طرف سے نکل گئی تو میں نبیﷺ کی خدمت میں گیا اور میں نے عرض کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے رسول ہیں حضرت نے فرمایا کہ کوئی شخص جنتیوںکے کام کرتا ہے حالانکہ دوزخی ہوتا ہے اور کوئی شخص دوزخیوںکے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے جان نکلتے وقت شقاوت یا سعادت ظاہر ہو جاتی ہے اور اسی پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)