سیدنا) اکثم (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) اکثم (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن صیفی۔ یہ ابن مندہ کا قول ہے اور ان کا ذکر ہوچکا۔ عبدالملک بن عمیر نے اپنے والد سے رویات کی ہے کہ انھوں نے کہا اکثم بن ابی الجون رسول خدا ﷺ کے نبوت کی خبر پہنچی تو انھوں نے ارادہ کیا کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں مگر ان کی قوم نے انھیں نہ آنے دیا تب انھوںنے کہا کہ کوئی شخص ان کے پاس جائے جو ان کی خبر مجھے پہنچائے ور میری خبر ان کو پہنچائے لہذا دو آدمیوں کو انھوںنے بھیجا وہ دونوں نبی ﷺ کے حضور یں گئے اور دونوں نے کہا کہ ہم اکثم کے قصد ہیں یہ ایک بہت طویل حدیث ہے۔ ان کا تزکرہ صرف ابن مندہ نے لکھا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اکثم کے تین تذکرے ابن مندہ نے لکھے ہیں ور ابو نعیم نے صرف پہلے دو تذکرے لکھے ہیں تیسرا تذکرہ نہیںلکھا اور ان دونوں تذکروں میں نسب ویسا ہی لکھا ہے جیسا ہم نے بیان کیا۔ یہ ایک عجیب بات ہے اس لئے کہ ابن مندہ اور ابو نعیم دونوں نے پلے اور دوسرے تذکروں میں نسب ایک ہی بیان کیا ہے اور اس میں شک نہیں کہ انھوںنے چونکہ پہلے تذکرے ہیں نسب کو حارچہ بن عمرو مزیقیا تک فصل دیکھا اور دوسرے تذکرے میں متصل نہیں پایا لہذا انھوں نے اس تذکرہ کو پہلے تذکرہ سے مغائر سمجھ لیا حالانکہ یہ وہی ہے۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے اتنی بات اور بڑھا دی جو کہ پہلے تذکرے میں اکثمس ے یہ روایت کی ہے کہ رسول خدا ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اے اکثم تم اپنے اغیار کے ساتھ معاشرت رکھو تاکہ تمہارے اخلاق اچھے ہو جائیں پھر ابن مندہا ور ابو نعیم نے اکثم کو حنظلہ بن ربیع کائب اسدی کے نام میں بھی ذکر کیا ہے اور انکو قبیلہ اسید بن عمرو بن تمیم سے قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اکثم بن صیفی کے بھتیجے ہیں پھر کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اکثمبن صیفی اس تذکر میں تو خزاعی ہوں وار حنظلہ کے ترجمہ میں تمیمی ہو ایں اور صحیح یہ ہیکہ یہ اکثم بیٹے ہیں صیفی ابن رباح بن حارث بن مخاشن بن معاویہ بن شریف ابن جروہ بن اسید بن عمرو بن تمیم کے ان کا نسب بہت سے علما نے اسی طرح لکھا ہے منجملہ ان کے ابن حبیب اور ابن کلبی اور ابو نصر بن ماکولا وغیرہ ہیں ان میں باہم اس بات میں اختلاف نہیں کہ یہ اکثم قبیلہ تمیمس ے پھر بنی اسید سے ہیں اور اگر ابن مندہ اور ابو نعیم ان اکثم تمیمی کا نسب اکثم بن ابی الجون کی طرح نہ بیان کرت تو بہتر ہوتا۔ پھر ابن مندہ اور ابو نعیم دونوں نے اکثمبن صیفی کے نسب میں بیان کیا ہے کہ یہ کعب بن عمرو یعنی خزاعہ کی اولاد میں ہیں پھر انھوں نے ان کو اہل حجاز میں قرار دیا کیوںکہ انھوں نے ان کو خزاعی سمجھا ہے ورنہ اگر وہ ان کو تمیمی سمجھتے تو ان کو اہل حجاز میں نہ قرار دیتے اور ایسی بات اس شخص پر پوشیدہ نہیں رہ سکتی جو ابن مندہ اور ابو نعیم سے کم درجہ کا ہو چہ جائیکہ یہ دونوں مگر سوار ہی کرتا ہے اور تلوار ہی پھسلتی ہے۔
اکیدر
ابن عبدالملک صاحب دومۃ الجندل۔ انھیں نبی ﷺ نے خط لکھ تھا آپ نے اکیدر کی طرف ایک لشکر بھی سمراہی خالد بن ولید بھیجا تھا اور ان سے فرایا تھا کہ اکیدر کو قلعہ سے باہر پائو گے اور ابن مندہ اور ابو نعیم نے ذکر کیا ہے کہ یہ اکیدر مسلمان ہوگئے تھے اور انھوں نے نبی ﷺ کو ایک ریشمی حلہ بھیجا تھا حضرت وہ حلہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیدیا تھا ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔ میں کہت ہوںکہ خالد بن ولید کے ساتھ لشکر بھیجنا تو صحیح ہے مگر انھوں نے رسول خدا ﷺ کو ہدیہ خض بغرض صلح کرنیکے بھیجا تھا مسلمان نہیں ہوئے تھے علمائے سیر کا اس میں اختلاف نہیں ہے اور جس نے لکھا ہے کہ یہ مسلمان ہوگئے تھے اس نے خطا کی ہے۔ اکیدر نصرانی تھے جب ان سے نبی ﷺ نے صلح کر لی تو یہ پھر اپنے قلعہ لوٹ گئے اور وہیں رہے پھر حضرت خالد نے حضرت ابوبکر رضی الہ عنہ کے زمانہ میں جب دومۃ الجندل کا محاصرہ کیا ہے تو ان کو گرفتار کر لیا اور انھیں بحالت شرک و نصرانیت قتل کر دیا۔ بلاذری نے لکھا ہے کہ اکیدر جب حضرت خالد کے ہمراہ نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے تو مسلمان ہوگئے پھر جب نبی ﷺ کی وفات ہوئی تو یہ مرتد ہوگئے اور اپنے پہلے طریقہ سے پھر گئے پھر جب حضرت خالد عراق سے شام گئے تو انھوںنے ان کو قتل کر دیا۔ اس قول کی بنا پر بھی ان کا تذکرہ صحابہ میں زیبا نہیں ورنہ چائے کہ رسول خدا ﷺ کی حات میں جس قدر لوگ مسلمان تھے پھر مرتد ہوگئے سب کا ذکر کیا جائے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)