سیّدنا علی رضی اللہ عنہ
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
امیرالمومنین ابن عم رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم زوج سیدۃ النساء فاطمہ زہراء
ابن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب لوی قریشی ہاشمی ابن عم رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم۔ابوطالب کانام عبدمناف تھااوربعض لوگوں کابیان ہے کہ ابوطالب ان کا نام بھی تھااورہاشم کانام عمروتھا۔حضرت علی کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھیں کنیت ان کی ابوالحسن تھی۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے (چچازاد)بھائی اورآپ کے دامادیعنی آپ کی صاحبزادی فاطمہ سیدۃالنساءکے شوہرتھےاورآپ کے فرزند وں کے والد تھے۔یہ پہلے ہاشمی ہیں جو دوہاشمیوں کے درمیان میں پیداہوئے اورپہلے خلیفہ ہیں جوبنی ہاشم میں سے ہوئے۔حضرت علی جعفراورعقیل اورطالب سے چھوٹے تھےبقول اکثر علماسب سے پہلےاسلام لائے۱؎جیساکہ ہم بیان کریں گے اورمدینہ کی طرف ہجرت کی اوربدرمیں اورخندق میں اوربیعتہ الرضوان میں اورتمام مشاہد میں سواتبوک کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک رہے تبوک میں حضرت نے ان کواپنے اہل وعیال کی نگہداشت کے لئے چھوڑدیاتھا۔تمام مشاہد میں ان سے کارنمایاں ظاہرہوئے اوربہت سے مواقع میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے ہاتھ سے جھنڈا عنایت کیامنجملہ ان کے غزوہ بدرہےمگراس میں اختلاف ہے اورجب غزوہ احد میں مصعب بن عمیر جن کے ہاتھ میں جھنڈاتھاشہیدہوئے توپھررسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا حضرت علی کودیا اوران سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے دومرتبہ مواخات کی ایک مرتبہ آپ نے باہم مہاجرین میں مواخات کرائی اس کے بعد آپ نے ہجرت کے بعد مہاجرین وانصار میں مواخات کرائی اور دونوں مرتبہ آپ نے حضرت علی سے فرمایاکہ تم دنیاوآخرت میں میرے بھائی ہو۔
۱؎ اس میں اختلاف ہے کہ آیا سب سے پہلے حضرت علی اسلام لائے یا حضرت ابوبکرصدیق یاکوئی اور محققین نے فیصلہ یوں کیاہے کہ آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت صدیق اورغلاموں میں سب سے پہلے حضرت زیدعورتوں میں سب سےپہلے ام المومنین خدیجہ بچوں میں سب سے پہلے علی مرتضی اسلام لائےاورحضرت مولیٰناشیخ ولی اللہ محدث دہلوی ازالتہ الخفامیں لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے اسلام لانااس سبب سے فضیلت ہے کہ جوپہلے اسلام لایاہوگاوہ اپنے بعدوالوں کے اسلام کا ذریعہ بناہوگاپس اس لحاظ سے یہ فضیلت حضرت صدیق ہی کے حصہ میں رہی کیوں کی انھوں نے اسلام کی تبلیغ دین کوشش کی اوران کی کوشش سے بڑے بڑے لوگ اسلام لائے یہ کوشش نہ اور کسی سے ظاہرہوئی نہ ہوسکتی تھی۱۲۔
حضرت علی مرتضٰی کااسلامہمیں ابوجعفر یعنی عبیداللہ بن احد نے اپنی سندکویونس بن بکیر تک پہنچاکر خبردی وہ ابن اسحاق سے روایت کرتے تھے کہ انھوں نے کہاپھرحضرت علی بن ابی طالب ایک دن کے بعد یعنی جبکہ حضرت خدیجہ اسلام لاچکیں اورآپ کے ہمراہ نمازپڑھ چکیں اس کے ایک دن بعدآئے وہ کہتےتھے میں نے دیکھا کہ دونوں نمازپڑھ رہے ہیں حضرت علی نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیاچیزہے حضرت نے فرمایایہ خداکادین ہے جو اس نے اپنے لیے پسند کیااورجس کی تبلیغ کے لئے پیغمبروں کوبھیجا میں تمھیں اللہ کی طرف اوراس کی پرستش کی طرف بلاتا ہوں اورلات وعزی کے انکارکرنے کہ ترغیب دیتاہوں حضرت علی نے کہایہ توایک ایسی بات ہے جومیں نے آج سے پہلے نہ سنی تھی لہذامیں اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کرسکتاجب تک ابوطالب سے اس کاذکر نہ کرلوں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بات ناپسند ہوئی کہ قبل اس کے کہ آپ اپنے معاملے کااظہارکرناچاہیں افشاء رازنہ ہوجائے پس آپ نے فرمایا کہ اے علی اگرتم اسلام نہیں لاتے ہوتواس رازکوپوشیدہ رکھو پس حضرت علی اس شب کوخاموش رہے پھراللہ نے ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی اوروہ صبح کورسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کیاکہ اے محمد شب کوآپ نے مجھ سےکیافرمایاتھا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے یہ کہاتھاکہ تم اس بات کی شہادت دوکہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں وہ ایک ہے کوئی اس کاشریک نہیں اورلات وعزی کاانکارکردو اورخداکے ساتھ شرک کرنے سے بری ہوجاؤ۔حضرت علی نے اس کو منظور کرلیااوراسلام لائے حضرت ابوطالب کے خوف سے پوشیدہ طورپر آپ کے پاس آیا کرتےتھے اوراپنا اسلام مخفی رکھتے تھے۔
حضرت علی پرخداکاایک انعام یہ بھی تھاکہ انھوں نے قبل از اسلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پرورش پائی یونس نےابن اسحاق سے نقل کیاہے وہ کہتےتھے مجھ سےعبداللہ بن ابی نجیح نے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ مجاہد روایت کرتےتھے کہ حضرت علی دس برس کی عمرمیں اسلام لائے تھے۔ہمیں ابراہیم بن محمد بن مہران فقیہ وغیرہ نے اپنی سند کوابوعیسیٰ یعنی محمد بن عیسیٰ ترمذی بن محمد بن حمید بن ابراہیم بن مختار کت پہنچاکرخبردی وہ شعبہ سے وہ ابو بلخ سے وہ حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہاسب سے پہلے جوشخص اسلام لایاوہ حضرت علی تھے اورایساہی مقسم نے بھی ابن عباس سے روایت کی ہے۔ابوبلخ کانام یحییٰ بن ابی سلیم تھا۔نیزوہ کہتےتھے ہم سے ابوعیسیٰ نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے اسماعیل بن موسیٰ نے بیان کیاکہ وہ کہتےتھے ہم سے علی بن عباس سے مسلم ملائی سے انھوں نے انس بن مالک سے روایت کرکے بیان کیاکہ وہ کہتےتھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ کے دن مبعوث ہوئےاورحضرت علی سہ شنبہ کے دن اسلام لائے نیزوہ کہتےتھےہم سے محمدبن عیسیٰ نےبیان کیاوہ کہتےتھےہم سے محمد بن بشار نے اورابن مثنی نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے شعبہ نے عمروبن مرہ سے انھوں نے ابوحمزہ سے جوانصار میں سے ایک شخص تھےانھوں نے زید بن ارقم سے روایت کرکے بیان کیاکہ وہ کہتےتھےسب سے پہلے حضرت علی اسلام لائے عمروبن مرہ کہتےتھے میں نے اس کاذکرابراہیم نخعی سے کیاتوانھوں نے اس کاانکارکیااورکہاسب سے پہلے حضرت ابوبکراسلام لائےتھےہمیں ابوالفضل بن ابی الحسن بن ابی عبداللہ مخزومی نے اپنی سند کے ساتھ احمد بن علی سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے ابوہشام رفاعی نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سےمحمد بن فضیل نے بیان کیاکہ وہ کہتےتھے ہم سے اجلح نےسلمہ بن کہیل سے انھوں نے حبہ بن جوین سے انھوں نے حضرت علی سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے میں اس امت میں کسی کونہیں جانتاکہ اس نے مجھ سے پہلے خدا کی پرستش کی ہوبیشک میں نے پانچ برس یاسات برس پہلے خدا کی پرتش کی اس کواسمعیل بن ابراہیم بن بساعہ نے سعیدبن صفوان سے انھوں نے اجلح سے اسی طرح روایت کیاہے ہمیں عبداللہ بن احمد طوسی خطیب نے اپنی سند کے ساتھ ابوداؤد طیالسی سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے شعبہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے سلمہ بن کہیل نے حبہ عزنی سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے میں نے حضرت علی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں سب سے پہلا شخص ہوں جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نمازپڑھی اورہمیں ابوالطیب یعنی محمد بن ابی بکربن احمد معروف بہ کلی اصفہانی نے کتابتہً خبردی اورنیزمجھ سے عثمان بن ابی بکربن جلدک موصلی نے ابوالطیب سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے ہمیں ابوعلی حدادنے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں احمد بن عبداللہ بن اسحاق نے خبردی وہ کہتے تھےہمیں سلیمان بن احمد بن ایوب نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے ابن عبدالاعلی صنعانی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ثوری نے سلمہ بن کہیل سے انھوں نے ابوصادق سے انھوں نے عکیم کندی سے انھوں نے سلمان فارسی سے روایت کرکے خبر دی وہ کہتےتھے کہ اس امت میں سب سے پہلے (بروزقیامت)جواپنے نبی سے ملے گاوہ وہی ہوگا جو سب سے پہلے اسلام لایایعنی علی بن ابی طالب اس حدیث کو دیری نے بھی عبدالرزاق سے انھوں نے ثوری سے انھوں نے قیس بن مسلم سےروایت کیاہے۔ہمیں ذاکربن کامل خفاف نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں حسن بن محمد بن اسحاق بن ابراہیم باقرجی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوطاہر یعنی محمد بن علی بن محمد بن یوسف مقری علاف نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوعلی یعنی مخلد بن جعفر بن مخلہ باقرجی نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے محمد بن جریر طبری نےبیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے عبدالاعلی بن واصل نےبیان کیاوہ کہتےتھے ہم سےاسحاق بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن اسود نےمحمد بن عبیداللہ بن عبدالرحمٰن بن مسلم انھوں نے اپنے والد سے انھوں نےابوایوب انصاری سے روایت کر کےبیان کیا کہ وہ کہتےتھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ فرشتے میرے اورعلی کے لیے سات برس تک دعامانگاکئے اوروجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں سواعلی کےکسی نے نماز نہیں پڑھی۔ ہمیں یحییٰ بن محمود بن سعدنے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے حسن بن احمد نے قراءۃ بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے عباس بن فضل اسقاطی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عبدالعزیز بن خطاب نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے علی بن عزاب نے یوسف بن مہیب سے انھوں نے ابن بریدہ سے انھوں نے اپنے والدسے روایت کرکے خبردی وہ کہتےتھےکہ سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خدیجہ اسلام لائیں ان کےبعدحضرت علی اسلام لائے اورحضرت ابوذر اورمقداد اورخباب اورجابر اورابوسعید خدری وغیرہم کہتے تھے کہ حضرت خدیجہ کےبعدسب سےپہلے حضرت علی اسلام لائے اوریہ لوگ حضرت علی کو سب سےافضل کہتے تھےیہ ابوعمرکاقول ہے۔اورمعمرنے قتادہ سے انھوں نے حسن وغیرہ سے روایت کی ہے وہ کہتےتھے حضرت خدیجہ کےبعد سب سے پہلے جوشخص اسلام لایاوہ حضرت علی تھے اوریہ لوگ حضرت علی کواورلوگوں پر فضیلت دیتےتھے یہ ابوعمرکاکلام تھا۔ اورمعمرنے قتادہ سے انھوں نے حسن وغیرہم سےروایت کی ہے کہ وہ کہتےتھے حضرت خدیجہ کے بعدسب پہلے جوشخص اسلام لایاوہ حضرت علی تھےاس وقت ان کی عمرپندرہ برس کی تھی۔اورمحمد بن کعب قرظی سے پوچھاگیاکہ سب سے پہلے کون اسلام لایاحضرت علی یا حضرت ابوبکر انھوں نے کہا سبحان اللہ حضرت علی سب سے پہلے اسلام لائےلوگوں کوشبہ صرف اس سبب سےہواکہ حضرت علی نے اپنااسلام ابوطالب سے مخفی رکھاتھااورحضرت ابوبکرجواسلام لائے توانھوں نے اپنا اسلام ظاہرکیاتھا۔ہم عفیف کندی کی حدیث کہ حضرت علی سب سے پہلے اسلام لائے ان کے تذکرہ میں لکھ چکے ہیں ۔اورابوالاسود یعنی تیم بن عروہ نے بیان کیاہے کہ حضرت علی اورزبیردونوں آٹھ برس کی عمرمیں اسلام لائےتھےابوعمرنے کہاہے کہ میں نہیں جانتا کہ کسی اورنے بھی ایسابیان کیاہو۔اور ایک جماعت نے علاوہ ان لوگوں کے جن کوہم نے ذکرکیاکہاہے کہ حضرت علی سب سے پہلے اسلام لائے اوربعض لوگوں کابیان ہے کہ حضرت ابوبکرسب سے پہلے اسلام لائے واللہ اعلم۔
حضرت علی مرتضٰی کی ہجرتہمیں عبداللہ بن احمدنے اپنی سندکے ساتھ یونس بن بکیر سے انھوں نے ابن اسحاق سے روایت کرکے خبردی وہ کہتےتھے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب مدینہ کی طرف ہجرت کرکے توآپ بھی اس بات کے منتظررہتےتھے کہ جبریل علیہ السلام آئیں اورآپ کوخدا کی طرف سے مکہ سے نکلنے اور مدینے کی طرف ہجرت کرنے کاحکم پہنچائیں یہاں تک کے جب کفار قریش جمع ہوئے اورانھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ضرررسانی کی تدبیرشروع کی توجبریل آپ کے پاس آئے اورآپ کوحکم دیاکہ آج شب کو آپ اس مکان میں رہیں جس میں رہتےتھے پس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابن طالب کو بلایا اور انھیں حکم دیا کہ آج تم میرے بسترپر سورہنا اورمیری ہی چادرسبزاوڑھنا چنانچہ انھوں نے ایساہی کیا پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھرسے اس حال میں نکلے کہ کفار آپ کے دروازے پرجمع تھے ابن اسحاق نے بیان کیاہے کہ پھراس کے بعد لوگ پہ درپہ ہجرت کرنے لگے اور سب کے آخر میں جوشخص ہجرت کرکے آیا اورہم سے اپنے دین میں ذرابھی لغزش نہیں کھائی وہ علی بن ابی طالب تھےوجہ یہ تھی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مکہ میں چھوڑدیاتھااورحکم دیاتھاکہ میرے بسترپرسورہیں اورتین دن تک ان کووہاں رہنے کاحکم دیاتھااوریہ حکم دیاتھاکہ جن جن لوگوں کے حقوق۱؎ میرے اوپر ہیں وہ اداکردینا چنانچہ انھوں نے ایساہی کیا بعد اس کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے جاکرمل گئے۔ہمیں محمد بن قاسم بن علی بن حسن بن ہبتہ اللہ دمشقی نے اجازۃً خبردی وہ کہتےتھے مجھے میرے والد نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالاعز قراتکین بن اسعد نے خبردی وہ کہتےتھےہم سے ابومحمد جوینی نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ابوحفص بن شاہین نے بیان کیاوہ کہتے تھےہم سے احمد بن محمد بن سعیدہمدانی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے احمد بن یوسف نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے احمد بن یزید نخعی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عبداللہ بن حسن نے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے معاویہ بن عبیداللہ بن عبیداللہ بن ابی رافع نے اپنے والد سے انھون نے ان کے دادا ابورافع سے نقل کرکے بیان کیانیزعبیداللہ بن حسن کہتےتھے۔مجھ سے محمد بن عبیداللہ بن علی بن ابی رافع نے اپنے والد سے انھوں نے اپنے داداابورافع سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےہجرت کے متعلق روایت کرکے بیان کیاکہ آپ نے حضرت علی کوپیچھےچھوڑدیاتھا تاکہ وہ آپ کے گھروالوں کو لیکر آئیں اورانھیں حکم دیاتھا کہ جس قدر امانتیں اوروصیتیں آپ کے پاس ہیں ان کو اداکردینا چنانچہ حضرت علی نےایساہی کیا۔نیزجس شب کو آپ چلے اس شب کو حکم دیاتھا کہ میرے بسترپرسوؤ او ر فرمایاکہ جب تک تم میرے بسترپررہوگے قریش مجھ کو تلاش نہ کریں گے چنانچہ حضرت علی آپ کے بسترپرلیٹ رہے کفارقریش آپ کے بسترپرنظرلگائےہوئےتھے حضرت علی کواس پرلیٹاہوا دیکھ کرسمجھتےتھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے ہوئے ہیں یہاں تک کہ جب صبح ہوئی اورانھوں نے حضرت علی کو بسترپردیکھاتوکہنے لگے محمداگرباہرگئے ہوتے توعلی کوضروراپنے ساتھ لے جاتے۔ بس اسی خیال میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش سے بازرہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو حکم دیاتھاکہ تم مدینہ میں آکر مجھ سے ملنا چنانچہ حضرت علی آپ کے گھروالوں کو لے کر چلے شب کو چلتےتھےاوردن کو پوشیدہ ہوجاتےتھے۔یہاں تک کہ مدینہ پہنچ گئے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے آنے کی خبرملی تو آپ نے فرمایا کہ علی کومیرے پاس بلاؤ لوگوں نے عرض کیاکہ وہ آنے کی طاقت نہیں رکھتے پس آپ خود ان کے پاس تشریف لےگئے اوران کو دیکھ کر لپٹالیااور ان کے پیروں کی جوحالت دیکھی کہ ورم کرگئے ہیں اوران سے خون ٹپک رہاہےتوآپ ازراہ محبت رونے لگےبعداس کے آپ نےاپنالعاب دہن اپنےہاتھ میں لے کران کے پیروں پر مل دیااوران کو عافیت کی دعادی پس اس وقت سے کبھی ان کے پیروں میں کوئی شکایت نہیں ہوئی یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔
حضرت علی مرتضٰی کابدروغیرہ میں شریک ہوناہمیں ابوجعفر بن سمین نے اپنی سند کو یونس بن بکیرتک پہنچاکرخبردی وہ ابن اسحاق سے ان لوگوں کےنام میں جو قریش کے خاندان بنی ہاشم سے بدرمیں شریک تھےروایت کی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب بھی ان میں تھےاوروہ پہلے شخص ہیں جوایمان لائےتھے اورتمام مورخین اورمحققین کا اس پر اجماع ہے کہ وہ بدرمیں اورتمام مشاہد میں شریک تھے صرف وہ غزوۂ تبوک میں شریک نہ تھے وجہ اس کی یہ تھی کہ رسول خدا نے ان کواس وقت اپنے گھروالوں کی خبرگیری کے لئے چھوڑدیا۔ہمیں ابوعبداللہ محمد بن محمد بن سرایا فقیہ وغیرہ نے اپنی سندکومحمد بن اسماعیل (بخاری) تک پہنچاکرخبردی وہ کہتےتھے ہم سے احمد بن سعید نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے ابوعبداللہ نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے اسحاق بن منصور سلونی نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے ابراہیم بن یوسف نے اپنے والدسے انھوں نے ابواسحاق سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ ایک شخص نے براء (بن عازب) سے پوچھا میں سن رہاتھا کہ کیا علی بدرمیں شریک تھے انھوں نے کہاہاں خوب ظاہراور کھلے ہوئے شریک تھے ہمیں یحییٰ بن محمود نے خبردی وہ کہتےتھے مجھ کو میرے چچاکے داداابوالفضل جعفر بن عبدالواحد ثقفی نے خبردی وہ کہتےتھے مجھے میرے والد کے چچاابوطاہر اورابوالفتح نے خبردی وہ دونوں کہتےتھے ہمیں ابوبکربن زادان نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے ابوعروبہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابورفاعہ نے بیان کیا وہ کہتےتھےہم سےمحمدبن حسن معروف بہ ہجیمی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابوعوانہ نے اعمش سے انھوں نے حکم سے انھوں نے مصعب بن سعدسے انھوں نے سعیدسے روایت کی ہے وہ کہتے تھےمیں نے انکو یعنی حضرت علی کودیکھاکہ تلوار لئےہوئے مشرکوں کے سراڑاتے تھےاوربطوررجز کے یہ کہتےجاتےتھے۱؎ شحشح اللیل کانی جنیہمیں ابواحمدیعنی عبدالوہاب بن علی امین نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالفتح یعنی محمد بن عبدالباقی بن احمد بن سلیمان نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالفضل احمد بن حسن بن صروان اورابوطاہراحمد ابن حسن بن احمد باقلانی نے اجازۃً خبردی وہ کہتے تھےہمیں ابوالحسن بن احمدشاذان نے خبردی وہ کہتےتھے کہ ابومحمد یعنی حسن بن محمد بن یحییٰ بن حسن بن جعفر بن عبیداللہ بن حسین بن علی بن ابی طالب کے سامنے تحریرپڑھی گئی میرے دادا ابوالحسین یعنی یحییٰ بن حس بن جعفرکہتےتھے کہ مجھ محمد بن علی اورمحمدبن یحییٰ محمد بن جنیدسے روایت کرکے خبردی وہ کہتےتھے کہ غزوہ احد میں حضرت علی کے سولہ زخم لگے تھے اورہر زخم ان کوزمین پرگرا دیتاتھاپھران کوحضرت جبریل علیہ السلام اٹھاتے تھے نیزوہ کہتےتھے مجھ سے میرے دادانے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے بکر بن عبدالوہاب نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمدبن عمرنے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے اسمٰعیل بن عیاش حمصی نے یحییٰ بن سعید سے انھوں نے ثعلبہ بن ابی مالک سے روایت کرکےبیان کیاوہ کہتےتھے کہ سعدبن عبادہ ہرمقام میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جھنڈالیتےتھےمگرجب لڑائی کاوقت آتاتوعلی ابن ابی طالب جھنڈا لیتےتھے۔ہمیں ابوالحسین بن فراء اورابوغالب اورابوعبداللہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں بناء نے خبردی وہ کہتےتھے
ہم سے زبیر بن بکار نے بیان کیاکہ اسید بن ابی ایاس بن زنیم نے حضرت علی کے متعلق یہ اشعارکہے تھےاس کا مقصود ان اشعارمیں یہ ہے کہ مشرکین قریش کوعاروننگ دلاکرحضرت علی کے قتل پر آمادہ کرےوہ اشعار یہ ہیں
۲؎ فی کل مجمع غایتہ اخراکم قد یتکر الحی الکریم ویستحی
اعطوہ خرجاواتقو ابضر یبتہ فی المضلات وابن زین الابطح
جذع ؟علی المذاکی القرح ہذاابن فاطمتہ الذی افناکم
فعل الذلیل وبیعتہ لم تریح افناہم فعصاوضربایفری
مقدورکم الماتنکروا ذبحا وقتلتہ قعصبتہ لم تذبح
این الکہول واین کل دعامتہ بالسیف یعمل حدہ لم یصنع
ہمیں ابوالفضل یعنی منصور بن ابی الحسین مدینی نے اپنی سند کے ساتھ احمد بن علی بن مثنی تک خبردی وہ کہتےتھے ہم سے ابوموسیٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمد بن مروان عقیلی نے عمارہ بن ابی حفصہ سےانھوں نے عکرمہ سے روایت کرکے خبردی وہ کہتےتھے کہ حضرت علی بیان کرتےتھے کہ غزوۂ احد میں جب لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہٹ ۳؎گئےتومیں نے شہداکی لاشوں میں دیکھناشروع کیامیں نے ان میں رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کونہ پایاپس میں نے (اپنے دل میں)کہاکہ خداکی قسم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم بھاگنے والے نہ تھےولیکن اللہ کاغضب ہم پر نازل ہوابسبب اس حرکت کے جو ہم نے کی پس اللہ نے نبی کواٹھالیاپس اب میرے لئے بہتریہی ہے کہ میں لڑوں یہاں تک کہ قتل کردیاجاؤں لہذا میں نے اپنی تلوار کی میان توڑڈالی اورکفار پر حملہ کیا پس وہ لوگ میری طرف جھک پڑے تومیں نے دیکھاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان میں تھےہمیں ابوالبرکات حسن بن محمد بن ہبتہ اللہ دمشقی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالشائریعنی محمدبن خلیل قیسی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالقاسم یعنی علی بن محمد علی بن ابی العلاء مصیصی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابومحمد یعنی عبدالرحمن بن عثمان بن قاسم نےخبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابواسحاق یعنی ابراہیم بن محمدبن ابی ثابت نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے یحییٰ بن ابی طالب نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہمیں زید بن حباب نے خبردی وہ کہتےتھےہم سے حسین بن واقد نے عبداللہ بن بریدہ سے انھوں نے اپنے والدسےروایت کرکے خبردی وہ کہتے تھے کہ جب واقعہ خبیرپیش آیاتو حضرت ابوبکرنے جھنڈالیا پھرجب دوسرادن ہواتوحضرت عمرنے جھنڈالیااوربعض لوگوں نے کہا ہے کہ محمد بن مسلمہ نے پس رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب میں جھنڈا اس شخص کودوں گاجوبغیرفتح کے نہ لوٹے گا پھررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز صبح پڑھ کر جھنڈامانگا اور علی کوبلایاان کی آنکھوں میں دردتھاآپ نے ان کی آنکھوں پرہاتھ پھیردیابعداس کے جھنڈاانھیں دے دیااللہ نے ان کے ہاتھ پرفتح دی حسین بن واقدکہتےتھے کہ میں نے عبداللہ بن بریدہ سے سنا وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیاکہ مرحب (نامی مشہورآفاق پہلوان خیبر)کے حریف حضرت علی ہی تھے حضرت علی کی اور اس کی لڑائیوں کے واقعات بہت ہیں جن کوبیان کرکے ہم طول دینا نہیں چاہتے۔
۱؎ ترجمہ۔رات دوڑی چلی جارہی ہے گویامیں میوہ توڑرہاہوں۱۲۔
۲؎ترجمہ۔ہرمجمع میں تمھیں انتہادرجہ ذلیل کیا٘اس نوجوان نے جوعمدہ گھوڑے پر سوار ہوکر آتا ہے تم کویہ ناگوارنہیں ہے٘بزرگ قبیلہ کوکبھی کوئی بات ناگوارگذرتی ہے مگر وہ شرم کرتا ہے ٘ یہ فاطمہ بنت اسد کابیٹا (یعنی علی)ہے جس نے تم کوفناکردیا٘اس نے تم کو ذبح کرڈالااوراس شکار کی طرح مارا جوجلدی میں ذبح نہ ہوسکے٘(اچھا)اب اس کوخراج دواوراس کی مارسے بچو٘ذلیلوں کے مانند اور بیعت کرلو جس میں کچھ بھلائی نہ ہوگی٘کہاں ہیں وہ پختہ عمرسردار قوم کے ٘ جو مشکلات میں کام آتے تھےاوران سے ابطح کی زینت تھی٘سب کو(فاطمہ کے بیٹے نے) فنا کردیا اورخوب مارماری٘ ایسی تلوارسے ماراجس کی باڑھ مڑی۱۲۔
۳؎غزوۂ احد میں ابلیس لعین نےیہ مشہورکردیاکہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم شہیدہوگئےاس خبر کے مشہورہوتے ہی مسلمانوں کے پاؤں اکھڑگئےاکثرصحابہ اس مصلحت سے وہاں سے ہٹ آئے کہ اپنی قوت فراہم کرکےپھرآئیں غرض وہاں سے ہٹ جانے والوں کی نیت بخیرتھی۱۲۔
حضرت علی مرتضٰی کا علمحضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت حدیثیں روایت کی ہیں ان سے ان کے صاحبزادوں حسن اورحسین اورمحمداورعمرنےاورعبداللہ بن مسعود اورابن عمراورابن عباس اورعبداللہ بن جعفراورعبداللہ بن زبیراورابوموسیٰ اشعری اور ابوسعید خدری اورابورافع اور صہیب اورزید بن ارقم اورجابربن عبداللہ اورابوامامہ اورابوسریحہ یعنی حذیفہ بن اسید اورابوہریرہ اورسفینہ اورابوحجیفہ سوائی اورجابر بن سمرہ اورعمروبن حدیث اور ابولیلی اوربراء بن عازب اورعمارہ بن رویبہ اوربشربن سجیم اورابوالطفیل اورعبداللہ بن ثعلبہ بن صفیراور جزیربن عبداللہ اورعبدالرحمن بن اشیم وغیرہ صحابہ نے روایت کی ہے اورمنجملہ تابعین کے سعیدبن مسیب اورمسعود بن حکم زرقی اورقیس بن ابی حازم اورعبیدہ سلمانی اورعلقمہ بن قیس اور اسعد بن یزید اورعبدالرحمن ابن ابی لیلی اوراحنف ابن قیس اورابوعبدالرحمن سلمی اور ابوالاسود ویلی اورزربن حبیش اورشریح بن ہانی اوراحنف ابن قیس اوران کےعلاوہ بہت لوگوں نے روایت کی ہے۔
ہمیں یحییٰ بن محمود نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں زاہربن طاہرنے خبردی وہ کہتےتھےہمیں محمد بن عبدالرحمن نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوسعید یعنی محمد بن عبدالرحمن نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوسعد یعنی محمد بن بشربن عباس نےخبردی وہ کہتےتھےہمیں ابوالولید یعنی محمد بن ادریس شامی نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے سوید بن سعید نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہمیں علی بن مسہرنے اعمش سے انھوں نے عمروبن قرہ سے انھوں نے ابوالبختری سے انھوں نےحضرت علی سے روایت کی ہے کہ وہ کہتےتھے مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجامیں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ آپ مجھے یمن بھیجتےہیں اورلوگ مجھ سے مقدمات کافیصلہ کرائیں گے حالاں کہ مجھےاس کوکچھ علم نہیں ہے حضرت نے فرمایاقریب آؤ میں قریب آگیاپس آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینہ پرپھیرابعداس کے فرمایاکہ اے اللہ ان کی زبان کو ثابت قدم رکھ اور ان کے قلب کو ہدایت کرپس قسم اس کے جس نے دانہ سے درخت نکالااورجان کوپیداکیااس کےبعدکبھی کسی مقدمہ کے فیصلہ کرنے میں مجھے شک نہیں۔
ہمیں زید بن حسن بن زید یعنی ابوالیمن وغیرہ نے کتابتہً خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابومنصور یعنی زریق نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں احمد بن علی بن ثابت نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں محمد بن احمد بن رزق نےخبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوبکربن مکرم بن احمدبن مکرم قاضی نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے قاسم بن عبدالرحمن نباری نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابوالصلت ہروی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سےابومعاویہ نے اعمش سے انھوں نے مجاہد سے انھوں نے ابن عباس سے روایت کرکے بیان کیا کہ وہ کہتےتھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں علم کا شہرہوں اورعلی اس کے دروازہ ہیں پس جوشخص علم کوچاہے وہ اس کے دروازہ سے آئےاس حدیث کوابومعاویہ کے علاوہ اورلوگوں نے بھی اعمش سے روایت کیاہے ابومعاویہ پہلے اس حدیث کوروایت کرتےتھے مگرآخرمیں ترک کردیا اورشعبہ نے ابواسحاق سے انھوں نے عبدالرحمن بن یزید سے انھوں نے علقمہ سے انھوں نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم باہم چرچاکیاکرتےتھے کہ اہل مدینہ میں سب سے زیادہ عہدہ قضا کاعلم رکھنے والے علی بن ابی طالب ہیں اورسعید بن مسیب نے کہاہے کہ علی ابن ابی طالب کے سواکوئی شخص ایسانہ تھاجوکہ کہے مجھ سے سوالات کرواوریحییٰ بن معین نے عبدہ بن سلیمان سے انھوں نے عبدالملک بن سلیمان سے روایت کی ہے کہ وہ کہتےتھے میں نے عطاء سے پوچھاکہ کیااصحاب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)میں علی بن ابی طالب سے زیادہ کوئی شخص عالم تھاعطاء نے کہاخداکی قسم میں نہیں جانتااورابن عباس نے کہاہے کہ علی کو نو حصہ علم کے دئے گئے تھےاور دسواں حصہ جواورلوگوں کوملاتھا اس میں بھی وہ شریک تھےاورسعید بن عمروبن سعیدبن عاص نے عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ سے پوچھاکہ اے چچالوگ علی بن ابی طالب کی طرف کیوں جھک پڑے تھےانھوں نے کہااے میرے بھتیجے علی کو علم میں بڑاکمال تھااورمعاشرت کے بہت اچھے تھے قدیم الاسلام تھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دامادتھےاوراحادیث کی سمجھ اورجنگ میں دلیری اورنفع عام کی اشیاء میں سخاوت ان کی طبیعت میں تھی اورابن عینیہ نے یحییٰ بن سعید سے انھوں نےسعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ وہ کہتےتھے حضرت عمراس مشکل سے پناہ مانگا کرتےتھےجس کے (حل کرنے کے)لئے ابوالحسن نہ ہوں۔اورسعیدبن جبیرنے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ وہ کہتےتھےجب کوئی بات ہمارے نزدیک حضرت علی سے ثابت ہوجاتی ہےتوپھرہم اس سے عدول نہیں کرتے۔اوریزیدبن ہارون نے قطرسے انھوں نے ابوالطفیل سے روایت کی ہے کہ وہ کہتےتھے بعض اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاقول یہ تھاکہ حضرت علی کی ایک فضیلت تمام مخلوقات پرتقسیم کردی جائے توسب فائدہ میں رہیں حضرت علی کے متعلق اس قسم کے اقوال بہت ہیں ہم اسی قدرپرقناعت کرتے ہیں اوراگرہم وہ مسائل ذکرکریں جو ان سے صحابہ نے مثل حضرت عمرکے پوچھے توبہت طول ہوجائے۔
حضرت علی مرتضٰی کا زہداورعدلہمیں ابواحمد یعنی عبدالوہاب بن علی امین وغیرہ نے خبر دی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالقاسم یعنی ہبتہ اللہ بن عبدالواحد نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوطالب بن غیلان نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابواسحاق یعنی ابراہیم بن محمد مزنی نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے محمد بن مسیب نے بیان کیاوہ کہتےتھے میں عبداللہ بن حنیف سے سناوہ کہتےتھے کہ یوسف بن اسباط کہتےتھے کہ دنیاظالموں کے لئے آسائش کاگھرہے اورعلی بن ابی طالب فرماتےتھےکہ دنیامردار ہے جوشخص دنیامیں کچھ لیناچاہے تووہ کتوں کے ساتھ اختلاط کرنے پراپنے نفس کو مجبورکرے۔ ہمیں ابویاسریعنی عبدالوہاب ابن ہبتہ اللہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوغالب بن بناء نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن احمد بن محمد بن حسنون نرسی نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے سہل بن صقیرنے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سےیحییٰ بن ہشام غسانی نے علی بن جزء سےروایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے میں نے ابومریم سلولی سے سناوہ کہتےتھے میں عماربن یاسرکویہ کہتے ہوئےسناکہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے آپ علی بن ابی طالب سے فرماتےتھے کہ اے علی اللہ عزوجل نے تم کوایسی خوبی عنایت فرمائی ہےکہ اس سے بہترخوبی اپنے بندوں میں سے کسی کونہیں دی وہ خوبی کیاہے دنیاکی طرف سے زاہد(یعنی بے رغبت)رہناتم کو اللہ نے ایسابنایاہے کہ نہ تم دنیا سے کچھ لیتے ہو نہ دنیاتم سے کچھ لیتی ہے اوراللہ نے تم کومساکین کی محبت عنایت فرمائی ہے۔وہ تم کو اپنا پیشوا بناکر خوش ہیں اورتم ان کواپناپیروبناکرخوش ہو۔پس خوشی ہو اس کوجوتم سے محبت رکھے اورتم پر سچ بولےاورخرابی ہو اس کوجوتم سے جلے؟اورتم پر جھوٹ بولے جولوگ تم سے محبت رکھتے ہیں اور تم پر سچ بولتے ہیں وہ(جنت میں)تمہارے گھرکے پڑوسی اورتمھارے رفیق ہوں گے اورجولوگ تم سے بغض رکھتےہیں اورتم پرجھوٹ باندھتے ہیں اللہ پرحق ہے کہ ان کو قیامت کے دن جھوٹوں کے کھڑے ہونے کی جگہ پرکھڑاکرے ہمیں عمربن محمد بن طبرز دنے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوغالب بن بناء نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالفضل یعنی عبیداللہ بن عبدالرحمن زہری نے خبردی وہ کہتے تھےہم سے امام حمزہ بن قاسم نےبیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حسین بن عبیداللہ نے بیان کیاوہ کہتے تھےمجھ سے ابراہیم یعنی جوہری نےبیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے امیرالمومنین مامون نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سےہارون الرشید نےبیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے شریک بن عبداللہ نے عاصم بن کلیب سے انھوں نے محمدبن کعب قرظی سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھےمیں نے علی بن ابی طالب کو یہ کہتے ہوئےسناکہ میں نے اپنی وہ حالت بھی دیکھی کہ میں اپنے شکم پر مارے بھوک کے پتھر باندھتاتھااور(یہ حالت بھی دیکھتاہوں کہ)آج میراصدقہ چارہزاردینارنکلتاہے۔اس حدیث کو حجاج اصفہانی اوراسود نے شریک سے روایت کیاہے اوران دونوں نے(بجائے چارہزارکے)چالیس ہزار بیان کیاہے اوراس حدیث کو حجاج نے شریک سے روایت کیاہے انھوں نے بھی چالیس بیان کیا ہے۔تعدادبیان کرنے والوں کامقصد یہ ہے کہ اس قدرصدقہ نکلتاتھاجودفعہ دفعہ کرکے اس مقدار کوپہونچ جاتاتھانہ یہ کہ یک مشت اس قدرنکلتاتھاکیوں کہ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے کبھی مال جمع نہیں کیااوردلیل اس کی ان کے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کاوہ کلام ہے جوہم حضرت علی کی شہادت کے بیان میں ذکرکریں گےکہ حضرت علی صرف چھ سو درہم چھوڑ گئےتھے جس سے انھوں نے ایک غلام مول لیاتھا مجھے فقیہ ابومحمد یعنی ہبتہ اللہ بن سہل نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ہمارے دادا ابوالمعانی یعنی عمربن محمد بن حسین نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ہمارے والد نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں ابوبکریعنی احمد بن حسین نے خبردی وہ نون کہتےتھےہم سے حافظ بن عبداللہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابوقتیبہ یعنی سالم بن فضل آدمی نے مکہ میں بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمد عثمان بن ابی شیبہ نے اپنے والد سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے میں نے ابونعیم سے سناوہ کہتے تھے کہ حضرت علی نے نہ کبھی اینٹ کےاوپراینٹ رکھی اور نہ کبھی لکڑی کے اوپرلکڑی رکھی(یعنی کبھی کوئی عمارت نہیں بنائی)مدینہ سے ان کے لئے غلہ گٹھڑیوں میں آتاتھا۔ہمیں سید ابوالفتوح یعنی حیدربن محمد بن زید علوی حسینی نے خبردی ہو کہتےتھے ہمیں ابومحمد یعنی عبداللہ بن جعفردورستی نے موصل میں خبردی وہ کہتےتھے ہمیں طاہرابوعبداللہ احمد بن علی بن معمرحسینی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسین بن عبدالجبار نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوطاہر یعنی محمد بن علی بن محمد بن یوسف نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوبکربن مالک نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں عبداللہ بن احمد بن حنبل نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سےمیرے والدنے بیان کیا وہ کہتےتھےہم سے وکیع نے بیان کیاوہ کہتے تھےمشعرنے ابی بحر سے انھوں نے اپنے کسی استادسے روایت کرکے بیان کیا وہ کہتےتھے میں نے حضرت علی کے جسم پرایک موٹی تہ بند دیکھی جس کی نسبت وہ فرمارہےتھے کہ میں پانچ درم میں خریدی ہے کوئی مجھے اس میں ایک درہم نفع دےگامیں اس کے ہاتھ اسے بیچ ڈالوں گاوہ یہ بھی کہتے تھےکہ میں نے حضرت علی کے پاس کچھ درہم تھیلی میں دیکھے جن کی بابت انھوں نے یہ کہا یہ ہمارے خرچ سے بچ رہے ہیں جن صاحب کوضرورت ہووہ ان کولے لے ۔اورہم سے عبداللہ بن احمد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمد بن یحییٰ ازدی نےبیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ولید بن قاسم نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہمس مطیربن ثعلبہ تمیمی نے بیان کیا وہ کہتےتھے ابوالنور پارچہ فروش نے بیان کیا وہ کہتےتھے کہ علی بن ابی طالب میرے پاس آئے اوران کے ہمراہ ان کا ایک غلام بھی تھا انھوں نے دوکرتےکپڑے کے خریدے پھراپنے غلام سےفرمایاکہ ان میں سے جو چاہے تولےلے چنانچہ ایک اس نے لے لیااوردوسرا علی نے لے لیااورپہن لیاپھرحضرت نے اپناہاتھ بڑھایااورفرمایا کہ جس قدرآستین میرےہاتھ سےبڑی ہےاس کوکاٹ دوچنانچہ غلام نےکاٹ دیاپس انھوں نے اس کرتہ کوپہن لیااورچلے گئے۔ہمیں عبداللہ بن احمد خطیب نے خبردی وہ کہتےتھے ابوالحسین بن طلحہ نعال نے اجازۃ خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسین بن بشران نےخبردی وہ کہتےتھے ہم سے اسماعیل بن محمد صفاء نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے جعفر بن زیاد احمر نے عبدالملک بن عمیرسے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سےقبیلۂ ثقیف کے ایک شخص نے بیان کیاوہ کہتےتھےمجھے علی بن ابی طالب نے مقام شاپورپرعامل مقررکیااورفرمایاکہ کسی شخص کو ایک درم کی علت میں ایک کوڑابھی نہ مارنااورنہ کسی سے کچھ کھانے کومانگنانہ جاڑے یا گرمی کاکپڑا مانگنانہ کوئی ایساجانورمانگنا جس سے وہ لوگ کام لیتےہوں اور نہ کسی شخص کوجو ایک درہم کی طلب میں پریشان ہو روکنا میں نے کہا یا امیرالمومنین اگرایساہوگاتو میں جیساجاتاہوں ویساہی لوٹ آؤں گاحضرت علی نے فرمایالوٹ آ(کچھ پرواہ نہیں)تیری خرابی ہونے میں تویہ حکم دیاگیاہے کہ جو مال ان کی حاجت سے زائد اس کولیں۔حضرت علی مرتضٰی کے زہدوعدل کے واقعات اس قدرہیں کہ ان کاپورے طورپرذکرکرناناممکین ہے لہذا ہم اسی قدر پراکتفاکرتےہیں۔
حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ کے فضائلہمیں ابوالعباس یعنی احمد بن عثمان بن ابی علی دزداری نے اپنی سند کے ساتھ استاد ابواسحاق یعنی احمد بن محمد بن ابراہیم ثعلبی مفسرسے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے میں نے بعض کتابوں میں دیکھاہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کاارادہ کیاتوعلی بن ابی طالب کو مکہ میں اپنا قرض اداکرنے کے لئے اوران امانتوں کے واپس کرنےکے لیےجو حضرت کے پاس تھیں چھوڑدیا اورجس شب کوآپ غارکی طرف چلے ہیں اور مشرکوں نے آپ کا گھرگھیرلیاہے اسی شب کو حضرت علی کوحکم دیاکہ میرے بسترپر سوؤ اور ان سے فرمایاکہ میری حضرمی چادر سبزرنگ کی اوڑھ لینا انشاء اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف تم کو ان لوگوں سے نہ پہنچ سکے گی۔چنانچہ انھوں نے ایساہی کیا پس اللہ نے جبریل ومیکائیل ؟ پروحی بھیجی کہ میں نے تم دونوں کے درمیان مواخات کرادی اورایک کی عمربہ نسبت دوسرے کے طویل کردی ہے اب بتاؤ تم دونوں میں سے کون ایساہے جواپنے ساتھی کواپنی زندگی دےدے مگرہرایک نے اپنی زندگی کو ترجیح دی پھر اللہ عزوجل نے ان پر وحی بھیجی کہ کیاتم دونوں علی بن ابی طالب کے مثل بھی نہیں ہو میں نے ان کے اوراپنے نبی محمد کے درمیان میں مواخات کرائی ہے(جس کانتیجہ یہ ہواکہ)علی محمد کے بسترپرلیٹے ہیں اوراپنی جان محمد پرفداکرنے میں اوران کی زندگی کواپنی زندگی پرترجیح دیتےہیں اچھازمین پرجاؤ اوردشمنوں سےان کی حفاظت کرو چنانچہ وہ دونوں زمین پرآئے حضرت جبریل حضرت علی کے سرکےپاس کھڑے ہوئے حضرت جبریل یہ نداکررہےتھے کہ مبارک ہو مبارک ہو اے ابن ابی طالب تمھارامثل کون ہے اللہ عزوجل ملائکہ کے سامنے تم پر فخر کرتاہے پس اللہ عزوجل نے اپنےرسول پر جبکہ وہ مدینہ کی طرف جارہےتھےحضرت علی کی شان میں یہ آیت نازل کی۱؎ و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہہمیں ابومحمدیعنی عبداللہ بن علی بن سویدہ تکریتی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالفضل یعنی احمد بن ابی الخیر مہینی نے اورحسین بن فرحان سمنانی نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں علی بن احمد نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوبکر تمیمی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابومحمد بن حبان نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں محمد بن یحییٰ بن مالک ضبی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں محمد بن سہل جرجانی نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عبدالوہاب بن مجاہد نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابن عباس سے اللہ تعالیٰ کے قول الذین ینفقون اموالہم باللیل والنہار سرااوعلانیہکی تفسیرمیں روایت کیاہے وہ کہتےتھے یہ آیت علی بن ابی طالب کے حق میں نازل ہوئی ان کے پاس چاردرم تھے ایک انھوں نے شب کو (راہ خدا میں)دیااورایک دن کواورایک چھپاکراورایک اعلانیہ طورپر۔ اس حدیث کو عفان بن مسلم نے وہیب سے انھوں نے ایوب سے انھوں نے مجاہد سے انھوں نے ابن عباس سےاسی کی مثل روایت کیاہے ہمیں اسماعیل بن علی اورابراہیم بن محمد وغیرہمانے اپنی سند کے ساتھ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے قتیبہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بکیربن مسمار سے انھوں نے عامر بن سعد بن سعد بن ابی وقاص سے انھوں نے اپنے والدسے روایت کی ہے وہ کہتےتھے کہ حضرت معاویہ نے سعد سے پوچھا کہ ابوتراب کی بدگوئی سے تم کوکون چیزمانع ہے حضرت سعد نے کہاآگاہ ہو جب تک وہ تین باتیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہیں مجھے یاد رہیں گی اس وقت تک میں ہرگزان کوبرانہ کہوں گا۔اگرمجھے ان تین باتوں میں سے ایک بھی مل جائے توسرخ اونٹوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سناکہ آپ علی کی نسبت فرماتےتھے جب آپ نے ان کوکسی غزوہ میں پیچھے چھوڑ دیاتھااورانھوں نے آپ سے کہاتھا کہ یارسول اللہ کیاآپ مجھ کو عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جاتے ہیں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیاتم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میری طرف سے اس مرتبہ پرہوجوہارون کوموسیٰ کی طرف سے تھافرق یہ ہوگا کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے اور میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ خیبر کے دن فرتاتےتھے کہ بے شک میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جواللہ اور اس کے رسول کودوست رکھتاہوگااوراللہ ورسول اس کودوست رکھتےہوں گےپس ہم سب لوگ جھنڈا ملنے کے امیدوارتھے کہ آپ نے فرمایاعلی کو میرے پاس بلاؤ چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور ان کی آنکھ میں دردتھا بس آپ نے اپنالعاب ان کی آنکھ میں لگادیااورجھنڈاان کودے دیااور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح دی (تیسری بات یہ ہے کہ) جب یہ آیت نازل ہوئی۱؎ قل تعالو ندع ابناءنا وابناءکم ونساءناونساءکم وانفسناوانفسکمتورسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے علی کو اورفاطمہ کواورحسن اورحسین کو بلایااورفرمایاکہ یااللہ یہ میرے اہل ہیں نیزاسماعیل بن علی کہتےتھے ہم سے محمد بن عیسیٰ نے بیان کیا وہ کہتےتھےہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے ہمارے والد نے شریک سے انھوں نے منصورسے انھوں نے ربعی بن خراش سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے علی بن ابی طالب نے(مقام)رحبہ میں بیان کیاوہ کہتےتھے کہ جب حدیبیہ کا واقعہ پیش آیاتو کچھ مشرکین ہمارے پاس آئے جن میں ایک شخص سہیل بن عمروتھے اورکچھ لوگ مشرکوں کے سردارتھے اور انھوں نے (حضرت سے)عرض کیاکہ آپ کے پاس کچھ لڑکے اور کچھ بھائی ہمارے اورکچھ غلام ہمارے چلے گئے ہیں وہ دین کی سمجھ نہیں رکھتے وہ صرف ہمارے مال واسباب(کے کاروبار)سے (گھبراکر)بھاگ آئے ہیں ان کوآپ ہمیں واپس کردیجئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے گروہ قریش ان باتوں سے باز آؤ ورنہ اللہ تم پر ایسے شخص کومسلط کردے گاجودین کے لیے تلوار سے تمھاری گردنیں مارے گااللہ نے اس کے قلب کوایمان کے لیئے جانچ لیاہوگا کہایارسول اللہ وہ کون شخص ہوگا ابوبکر نے پوچھا کہ یارسول اللہ وہ کون شخص ہوگا عمررضی اللہ عنہ نے بھی پوچھا کہ یارسول اللہ وہ کون شخص ہوگافرمایایہ جو تہ سینے والا او راس وقت حضرت نے اپناجوتہ علی کو سینے کے لیے دیاتھاپھرعلی ہماری طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے کہاکہ رسول خد اصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ جوکوئی عمداًمیرے اوپر جھوٹ باندھے وہ اپنی جگہ دوزخ میں ڈھونڈھ لے ۔نیزاسماعیل بن علی کہتےتھے کہ ہم سے محمد بن عیسیٰ نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے عیسیٰ بن عثمان برادر یحییٰ بن عیسیٰ رملی نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے اعمش نے عدی بن ثابت سے انھوں نے زربن جیش سے انھوں نے حضرت علی سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتےتھےمجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم سے وہی شخص محبت رکھےگاجومومن ہوگااوروہی شخص بغض رکھےگا جومنافق ہوگا نیزاسماعیل کہتےتھےہم سےمحمد بن عیسیٰ نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے محمدبن یسار اوریعقوب بن ابراہیم وغیرہ نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے عاصم نے ابوالجراح سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے جابربن صبح نےبیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے ام شراحیل نے ام عطیہ سے نقل کرکے بیان کیاکہ وہ کہتی تھیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر(کسی طرف)بھیجاتھاجس میں علی بھی تھے تو میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کویہ دعامانگتے ہوئے سنا کہ یااللہ مجھے موت نہ دے تا وقت یہ کہ مجھےعلی کونہ دکھادےاس سے معلوم ہوتاہے کہ علی مرتضیٰ کے ساتھ آپ کی محبت کس حد تک پہنچ گئی تھی رضی اللہ عنہہمیں ابومنصوریعنی مسلم بن علی بن محمد بن سنجی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالبرکات بن خمیس نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابونصر بن طوق نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالقاسم بن مرجی نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں ابویعلی موصلی نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے سعید بن مطرف باہلی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے یوسف بن یعقوب ماجشون نے ابوالمنذر سے انھوں نے سعید بن مسیب سے انھوں نے عامربن سعد سے انھوں نے حضرت سعد سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھےمیں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ (علی سے)فرماتےتھے کہ تم میری طرف سے اس مرتبہ پرہوجس پرہارون موسیٰ کی طرف سے تھےفرق یہ ہے کہ میرےبعد کوئی نبی نہ ہوگاسعید کہتےتھے کہ مجھے اس بات کی خواہش پیداہوئی کہ خود بالمشافہ سعد سے اس حدیث کو پوچھوں چنانچہ میں ان سے ملااور میں نے ان سے پوچھاکہ کیا یہ حدیث آپ نے خود سنی ہےتوانھوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پررکھے اورکہاہاں(انہیں کانوں سے سنی ہے)ورنہ یہ دونوں بہرے ہوجائیں۔ہمیں ابوبکر یعنی مسمار بن عامربن عویس بغدادی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالعباس یعنی احمد بن غالب بن طلابہ نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں ابوالقاسم یعنی عبدالعزیز بن علی بن احمد بن حسین انماطی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوطاہر مخلص نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے محمد بن ہارون حضرمی یعنی ابوحامد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابوہشام یعنی محمد بن یزید بن رفاعہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے اعمش نے ابوالزبیر سے انھوں نے حضرت جابرسے نقل کرکے بیان کیاکہ جب غزوۂ طائف پیش آیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کوبلایااوران سے بہت دیرتک راز کی باتیں کرتے رہے تو آپ کے بعض اصحاب نے کہاکہ حضرت نے اپنے چچازادبھائی سےبہت دیرتک سرگوشی کی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے ان سے سرگوشی نہیں کی بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہمیں ابراہیم بن محمد وغیرہ نے اپنی سند کے ساتھ ابوعیسیٰ ترمذی تک خبردی وہ کہتےتھے ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا وہ کہتےتھےہم سے جعفربن سلیمان ضبعی نے یزیدرشک سے انھوں نے مطرف بن عبداللہ سے انھوں نے حضرت عمران بن حصین سے نقل کرکے بیان کیاکہ وہ کہتےتھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکربھیجا اور اس پر علی بن ابی طالب کو سرداربنایا چنانچہ وہ اس لشکر کےہمراہ گئے غنیمت میں سے ایک لونڈی ملی اس سے حضرت علی نے خلوت کی یہ بات اورلوگوں کو بری معلوم ہوئی توچارآدمیوں نے اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےاس بات پر اتفاق کیاکہ جب ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سےملیں گے توآپ کواطلاع دیں گے اس فعل سے جوعلی نے کہااور(یہ دستورتھاکہ)مسلمان جب کسی سفرسے لوٹتے تھے تو سب سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتےتھےاورآپ کوسلام کرنے کے بعد اپنے گھروں کوجاتے تھے چنانچہ اس لشکرکے لوگ جب لوٹ کرآئے اوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کوگئے توان چار میں سے ایک شخص کھڑاہوااوراس نےکہایارسول اللہ آپ دیکھیےتوعلی بن ابی طالب نے ایساایسا کیارسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوٹال دیاپھردوسراشخص کھڑاہوا اوراس نے بھی ایساہی کہاآپ نے اس کوبھی ٹال دیاپھرتیسراشخص کھڑاہوا اور اس نے بھی ایساہی کیاآپ نے اس کو بھی ٹال دیا پھر چوتھاشخص اٹھااور اس نے بھی ایساہی کہاپس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئےاورغصہ کے آثارآپ کے چہرہ سے ظاہرہورہےتھےاورآ پ نے فرمایا تم علی سے کیا چاہتےہو تم علی سے کیاچاہتےہوتم علی سے کیاچاہتےہو علی میراہے اور میں علی کا ہوں اوروہ میرے بعد ہرمومن کامحبوب ہے ہمیں ابوجعفر یعنی عبیداللہ بن احمد نے اپنی سند کے سات یونس بن بکیرسے انھوں نے ابن اسحاق سے روایت کرکے خبردی وہ کہتےتھے مجھ سے یحییٰ بن عبداللہ بن ابی عمرہ نے یزیدبن طلحہ بن یزید بن رکازسے نقل کرکے بیان کیاکہ وہ کہتےتھے کہ حضرت علی کالشکر جو یمن میں آپ کے ہمراہ تھااس وجہ سےآپ سے ناراض ہواکہ آپ نے اپنی جگہ پرایک شخص کوقائم مقام کرکے خبربیان کرنے کےلئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے میں جلدی کی اس شخص نے کیاکیاکہ (مال جزیہ سے)تمام لشکرکوایک ایک جوڑا دے دیا جب لشکرکے لوگ (مدینہ کے)قریب آگئے توحضر ت علی ان کے استقبال کوتشریف لے گئے دیکھاتو سب لوگ وہی لباس پہنے ہوئے ہیں پوچھاکہ یہ کیاکیالوگوں نے بیان کیاکہ آپ کے قائم مقام نے یہ لباس ہمیں دیا ہے حضرت علی نے اس شخص سےکہاکہ تم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورمیں حاضر ہونے سے پہلےایساکیوں کیاوہ جوچاہتےکرتے پس حضرت علی نے وہ لباس سب سے اتروالئے(یہ بات سب کو ناگوارگزری تو)جب وہ لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے تو اسی وجہ سے انھوں نے حضرت علی کی شکایت کی۔اہل یمن رسول خدا سے صلح کرچکے تھے حضرت علی کوآپ نے صرفہ مقررہ جزیہ وصول کرنے کے لئے بھیجاتھا۔ہمیں ابوالفرج یعنی محمد بن عبدالرحمن بن ابی العلاء واسطی اورابوعبداللہ یعنی حسین بن ابی صالح بن فتاخسروویلمی تکرینی نے خبردی وہ محمد بن اسمعیل سے روایت کرتےتھےکہ انھوں نے کہاہم سے قتیبہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سےیعقوب بن عبدالرحمن نےابوحازم سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھے سہل بن سعد نے خبردی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکے دن فرمایاکہ میں جھنڈا ایسے شخص کودوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دےوہ اللہ ورسول کودوست رکھتاہو اوراللہ ورسول اس کو دوست رکھتے ہوں پس سب لوگ رات بھراس کاانتظارکرتےرہے کہ دیکھئے جھنڈاکس کوملتاہے (صبح کو)حضرت نے فرمایاکہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ ان کی آنکھوں میں درد ہے آپ نےفرمایاان کو بلواؤ چنانچہ وہ آئے آپ نے ان کی آنکھوں میں اپنالعاب دہن لگادیااوران کے لئے دعاکی وہ اچھے ہوگئے گویاکہ دردتھاہی نہیں پھر آپ نے ان کو جھنڈا دیاحضرت علی نے عرض کیاکہ یارسول اللہ کیا میں ان سے لڑتارہوں یہاں تک کہ وہ ہمارے مثل ہوجائیں آپ نے فرمایاٹھہرو جب تم ان کے مقابل پہنچناتوان کواسلام کی دعوت دینااورانہیں خبردینااس حق کی جواللہ کاان پر ہے اللہ کی قسم اگراللہ تمھارے ذریعہ سے ایک آدمی کوہدایت کردے توتمھارے لئے سرخ اونٹوں سے بہترہےہمیں عقبہ ابوالفضل بن ابی عبیداللہ نے اپنی سند کے ساتھ ابویعلیٰ یعنی احمد بن علی سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں قورایری نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے یونس بن ارقم نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے یزید بن ابی زیاد نے عبدالرحمن بن ابی لیلی سے روایت کرکےخبردی وہ کہتے تھےمیں نے(مقام)رحبہ میں حضرت علی کو دیکھا وہ لوگوں کو قسم دلاکر پوچھتےتھے کہتےتھے میں اللہ کی قسم دلاتاہوں اس شخص کو جس نے غدیرخم میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو من کنت مولاہ فعلی مولاکہتےسناہوکہ وہ کھڑاہوجائے عبدالرحمن کہتےتھےپس بارہ صحابی بدری کھڑے ہوگئے ان میں سے ایک شخص کی صورت اب تک میری نظر میں ہے وہ پائجامہ پہنے ہوئےتھے ان سب لوگوں نے کہا کہ ہم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کوغدیرخم میں یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ کیامیں سب مسلمانوں کاان کی جان سے زیادہ محبوب نہیں ہوں اورکیامیری ازواج ان کی مائیں نہیں ہیں ہم سب لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں یارسول اللہ آپ نے فرمایاتومیں جس کامولی(یعنی محبوب) ہوں علی بھی اس کے مولی(یعنی محبوب ہیں)یااللہ محبت کراس سے جومحبت کرے علی سے اور دشمنی کراس سے جودشمنی کرے علی سے۔اس قسم کی روایت براءبن عازب سے بھی مروی ہے انھوں نے صرف اس قدراورزیادہ روایت کیاہے کہ عمربن خطاب نے کہاکہ اے علی تم اب ہرمومن کے محبوب ہوگئے۔ہمیں حسن بن محمد بن ہبتہ اللہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالعشائر یعنی محمد بن خلیل قیسی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالقاسم یعنی علی بن محمد بن علی ابوالعلاء مصیصے نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابومحمد یعنی عبدالرحمن بن عثمان بن قاسم بن ابی نصر نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے خثیمہ بن سلیمان بن حیدرہ یعنی ابوالحسن طرابلسی نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے سفیان بن منصور سے انھوں نے ہلال بن یساف سے انھوں نے ابن ظالم سے روایت کرکےبیان کیاوہ کہتےتھے کہ ایک شخص حضرت سعید بن زید بن عمروبن نفیل کے پاس آیا اوراس نے کہامیں علی سے ایسی محبت رکھتاہوں کہ ایسی کسی سے محبت نہیں رکھتاحضرت سعید نے کہاتم ایک ایسے شخص سے محبت رکھتے ہو جو اہل جنت میں سے ہےپھرانھوں نے ہم سے حدیث بیان کی کہ ہم لوگ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کوہ حراپرتھے توآپ نے دس آدمیوں کا جنتی ہونا بیان کیاابوبکراورعمراورعثمان اور علی اور طلحہ اورزبیر اور عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن مالک۲؎اورعبداللہ بن مسعود۔نیزوہ کہتے تھےہم سے خثیمہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابوعبیدہ سری بن یحییٰ نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے قبیضہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے سفیان نے عبداللہ بن محمد بن عقیل سے انھوں نے حضرت جابربن عبداللہ سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینہ کی کسی دیوار کے پاس تھے آپ نے فرمایا کہ ایساشخص آنے والاہے جواہل جنت میں سے ہے پس ابوبکر آئے ہم سب نے ان کومبارک باد دی بعداس کے آپ نے فرمایاکہ اہل جنت سے ایک شخص آنے والاہے پس عمرآئے ہم سب نے ان کومبارک باد دی بعد اس کے آپ نے فرمایاکہ ایک شخص اہل جنت میں سےآنے والاہے اس وقت میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ اپناسرمبارک دیوارکی طرف جھکائے ہوئے فرمارہےتھےکہ اگرتوچاہے تواس آنے والے کوعلی کردے پس علی آئے ہم سب نے ان کومبارک باد دی ۔ہمیں ابواسحاق یعنی ابراہیم بن محمدوغیرہ نے خبردی وہ اپنی سند کے ساتھ ابوعیسیٰ ترمذی سے نقل کرتےتھے کہ انھوں نے کہاہم سے یوسف بن موسیٰ قطان بغدادی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سےعلی بن قادم نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے علی بن صالح بن حی نے حکیم بن جبیرسے انھوں نے جمیع بن عمیرتیمی سے انھوں نے حضرت ابن عمرسے روایت کی ہے وہ کہتےتھےکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے درمیان میں مواخات کرائی پس علی آئے اورانھون نے کہاکہ یارسول اللہ آپ نے اپنے اصحاب کے درمیان میں مواخات کرائی مگرمیری مواخات آپ نے کسی سے نہیں کرائی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم میرے بھائی ہودنیاوآخرت میں ہمیں ابوالفضل فقیہ مخزومی نے اپنی سند کے ساتھ احمد بن علی سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوخثیمہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے محمد بن عبداللہ اسدی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے سفیان نے زبیدسے انھوں نے شہربن حوشب سے انھوں نے حضرت ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اورفاطمہ اورحسن اورحسین کوایک کملی اڑھائی بعداس کے فرمایا کہ یااللہ یہ لوگ میرے اہل بیت اورمیرے مددگارہیں یااللہ ان سے ناپاکی کودورکراور ان کو خوب پاک کر ام سلمہ نے کہامیں نے عرض کیایارسول اللہ میں بھی ان میں سے ہوں آپ نے فرمایا تم (ان سے)اچھی حالت میں ہو اورہمیں کئی آدمیوں نے اپنی سند کے ساتھ محمد بن عیسیٰ سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سےخلاد بن اسلم بغدادی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے نضربن شمیل نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عوف نے عبداللہ بن عمرو بن ہندعلی سے روایت کرکےبیان کیاوہ کہتےتھےکہ حضرت علی فرماتےتھے کہ میں جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگتاتھاتوآپ مجھے دیتےتھے اورجب میں چپ بیٹھاہوتاتھاتوآپ مجھ سے ابتدائے کلام کرتے تھے نیزہم سے محمد بن عیسیٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے نصربن علی جہضمی نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے علی بن جعفربن محمد نے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھے میرے بھائی موسیٰ بن جعفرنے اپنے والد جعفر بن محمد سے انھوں نے اپنے والد محمدبن علی (یعنی امام باقر)سے انھوں نے اپنے والد علی بن حسین (زین العابدین)سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے ان کے دادا علی بن ابی طالب سے روایت کرکے بیان کیاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ)حسن وحسین کاہاتھ پکڑا اورفرمایاکہ جو شخص مجھ سے محبت رکھتاہواور ان دونوں سے اوران کے باپ اورماں سے محبت رکھتاہووہ قیامت کے دن میرے ہمراہ میرے ہی درجہ میں ہوگا نیزوہ کہتےتھےہم سے محمد بن عیسیٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے قیتبہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے جعفر بن سلیمان نے ابوہارون عبدی سے انھوں نے ابوسعیدخدری سے روایت کرکے بیان کیاکہ وہ کہتےتھےہم گروہ انصارنے منافقوں کی پہچان رکھی تھی کہ و ہ علی بن ابی طالب سے بغض رکھتےتھے۔ہمیں فقیہ منصورابن ابی الحسن نے اپنی سند کے ساتھ ابویعلی سے روایت کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے حسن بن حماد نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سےمسہربن عبدالملک نےبیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عیسیٰ بن عمرنے سدی سے انھوں نے انس بن مالک سے روایت کرکےبیان کیاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک (بھنا ہوا)پرندہ رکھاہواتھااس وقت آپ نے یہ دعاکی کہ یااللہ میرے پاس ایک ایسے شخص کوبھیج دے جوتیری مخلوق میں سب سے زیادہ ۳؎تجھے محبوب ہوکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کو کھائے پس ابوبکرآئے آپ نے ان کو واپس کردیاپھرعثمان آئے آپ نے ان کوواپس کردیا پھرعلی آئے توآپ نے ان کواجازت دی۔ابوبکروعثمان کاذکراس حدیث میں نہایت غریب۴؎ ہے یہ حدیث بہت سی سندوں کے ساتھ حضرت انس سے مروی ہے اورحضرت انس کے علاوہ اورصحابہ نے بھی اس کوروایت کیاہےہمیں ابوالفرج ثقفی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں حسن بن عیسیٰ نے خبردی وہ کہتے تھےہم سے حسن بن احمد نے بیان کیامیں اس وقت موجودتھاسن رہاتھاوہ کہتےتھے ہم سے حافظ احمد بن عبداللہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمد بن اسحاق بن ابراہیم اہوازی نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے حسن بن عیسیٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حسن بن سمیدع نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے بن ابی ایوب نے شعیب بن اسحاق سے انھوں نے (امام اعظم)ابوحنیفہ سے انھوں نے میسرسے انھوں نے حماد سے انھوں نے ابراہیم (نخعی)سے انھوں نے حضرت انس بن مالک سے روایت کرکے بیان کیاکہ وہ کہتےتھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک (بھناہوا )پرندہ کسی نے ہدیتہً بھیجاتھاآپ نے فرمایا یا اللہ میرے پاس کسی ایسے شخص جوبھیج جوتمام مخلوق میں تجھے زیادہ محبوب ہو پس علی آئے اور انھوں نے اس پرند کوآپ کے ساتھ شریک ہوکرکھایا۔اس حدیث کی روایت کرنے میں شعیب بن امام ابوحنیفہ سے منفرد ہیں ۔ہمیں محمدبن ابی الفتح بن حسن نقاش واسطی نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے ابوروح یعنی عبدالمعزبن محمد بن ابی الفضل بزازنے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے زاہربن طاہر سحامی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہمیں ابوسعید کنجرودی نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے محمد بن مصفی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حفص بن عمرمعری نے بیان کیاوہ کہتے تھےہم سے موسیٰ بن سعدبصری نے بیان کیاوہ کہتےتھے میں نے حسن(بصری)سے سناوہ کہتےتھے میں نے انس بن مالک سے سناوہ کہتےتھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک پرند بھناہوابھیجاگیاتوآپ نے فرمایاکہ یااللہ کسی ایسے شخص کومیرے پاس بھیج جس کواللہ اوراللہ کارسول دوست رکھتےہوں حضرت انس نے کہاکہ پھرعلی آئے اورانھوں نے دروازہ کھٹکھٹایامیں نے کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کام میں ہیں اورمیری خواہش یہ تھی کہ یہ فضیلت انصارمیں سے کسی کو ملےپھرعلی نے دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایاپھرسہ بارہ انھوں نے ایساہی کیاتورسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اے انس ان کو آنےدو میں انہیں کو چاہتاتھا پس جب علی سامنے آئے توحضرت نے فرمایایااللہ (ان سے )محبت کریااللہ(ان سے)محبت کر۔اس حدیث کو حضرت انس سے بہت لوگوں نے روایت کیاہے ہم سے حمید بن طویل اورابوالہندی اوریغنم بن سالم نے بھی بیان کیا۔
۱؎ترجمہ۔اے نبی کہدوکہ آؤ بلائیں ہم اپنے بیٹوں کو اورتم کو ہم اپنی عورتوں کوہم اپنے آپس والوں کوتم اپنے آپس والوں کو۔
۲؎حضرت سعد بن مالک اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کانام مشہورروایت می نہیں ہے بلک بجائے ان کے سعدبن ابی وقاص اورابوعبیدہ کانام ہے اور سعد بن ؟کانام اس میں چھوٹ گیاہے۔
۳؎اس قسم کے کلمات کامقصود یہ ہوتاہےکہ وہ شخص منجملہ ایسے لوگوں کے ہومثلاً جمعہ کو بھی احادیث میں افضل الایام فرمایاہے اورعرفہ کوبھی اگریہ مطلب نہ لیاجائے تودونوں حدیثوں میں اختلاف پڑجائےگااسی طرح اس حدیث کایہ مطلب ہے کہ وہ شخص ان لوگوں میں ہوجوتجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۱۲۔
۴؎غریب اس حدیث کوکہتےہیں جوکسی طبقہ میں صرف ایک راوی کی روایت پرموقوف ہو۱۲۔
حضرت علی مرتضٰی کی خلافتہمیں عبدالوہاب بن ہبتہ اللہ نے اپنی سندکے ساتھ عبداللہ بن احمد کے ساتھ نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے اسود بن عامرنے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے عبدالحمید بن ابی جعفریعنی فراء نے اسرائیلی سے انھوں نے ابواسحاق سے انھوں نے زید بن نبیع سے انھوں نے حضرت علی سے روایت کرکےبیان کیاکہ وہ کہتےتھے (ایک مرتبہ)عرض کیاگیاکہ یارسول اللہ ہم آپ کے بعد کس کو خلیفہ بنائیں حضرت نے فرمایاکہ اگرابوبکر کوتم خلیفہ بناؤگے تو ان کودنیا کی طرف سے بے رغبت اور آخرت کی طرف راغب پاؤگےاوراگرتم عمرکوخلیفہ بناؤگے تو ان کو صاحب قوت اورامین پاؤگے وہ اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کاخوف کریں گے اوراگرتم علی کو خلیفہ بناؤگے مگرمیں سمجھتاہوں کہ تم ایسانہ کروگے تو ان کوہدایت کرنے والااورہدایت یافتہ پاؤگے۔وہ تمھیں راہ راست پرچلائیں گے ہمیں عبداللہ بن احمدبن عبدالقاہر نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوغالب یعنی محمد بن حسن باقلانی نے اجازۃً خبردی وہ کہتےتھے ہم سے محمد بن زکریاعلائی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عباس بن بکار نے شریک سے انھوں نےسلمہ سے انھوں نےصنابحی سےانھوں نے حضرت علی سے روایت کرکے خبردی کہ وہ کہتےتھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(اے علی)تم کعبہ کے مثل ہو(جاؤ)کہ لوگ اس کے پاس آتے ہیں وہ کسی کے پاس نہیں جاتاپس اگرقوم تمھارے پاس آئے اورخلافت تمھارے حوالے کرے توقبول کرلینا اوراگروہ لوگ تمھارے پاس نہ آئیں توتم ان کے پاس نہ جانا یہاں تک کہ وہ خود تمھارے پاس آئیں گے۔ہمیں یحییٰ بن محمودنے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں حسن بن احمد نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے عبداللہ بن محمدنے بیان کیاوہ کہتےتھے ہمیں ابونعیم نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں ابوعلی یعنی محمدبن احمدحسن نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابراہیم بن یوسف صیرفی نے بیان کیاوہ کہتےتھےمجھ سے میرے والد صیرفی نے یحییٰ بن عروہ مرادی سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتے تھے میں نے علی رضی اللہ عنہ سے سناوہ کہتےتھے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تومیں سمجھتاتھا۱؎ کہ سب سے زیادہ خلافت کا مستحق میں ہوں مگرجب مسلمانوں کااتفاق ابوبکرپرہوگیا تومیں نے (ان کے احکام کو)سنااوراطاعت کی پھرمیں نے خیال کیاکہ ابوبکرمیرے سوااورکسی کو خلافت نہ دیں گےمگرانھوں نے عمرکودے دی پس میں نے (ان کے احکام کو)سنااوراطاعت کی پھرجب عمرزخمی ہوئے میں نے خیال کیاکہ وہ میرے سوااورکسی کو خلیفہ نہ کریں گے مگرانھوں نے خلافت کوکچھ آدمیوں میں دائرکردیاجن میں سے ایک میں بھی تھا پس لوگوں نے عثمان کو خلیفہ بنادیاتومیں نے (ان کے احکام کوبھی) سنااور اطاعت کی پھرجب عثمان شہیدہوئے تولوگ میرے پاس آئے اورانھوں نے مجھ سے بیعت کی خواہش کی کوئی جبرنہ تھاپھرانھوں نے میری بیعت توڑدی تو خداکی قسم میں نے کچھ چارہ کارنہ دیکھا سوااس کے کہ تلوارہاتھ میں لی جائے یاکفرکیاجائے اس چیزکاجواللہ عزوجل نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کیاہے ہمیں ذاکر بن کامل بن ابی غالب خفاف وغیرہ نے اجازۃً خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوغالب بن بنانے خبردی وہ کہتےتھےہمیں ابوالحسین یعنی محمد بن احمد بن محمد آبنوسی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالقاسم یعنی عبیداللہ بن عثمان یحییٰ بن خیقا نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابومحمد یعنی اسماعیل بن علی بن اسماعیل خطمی نے خبردی وہ کہتےتھے کہ امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ مدینہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجدمیں حضرت عثمان کی شہادت کے بعد ذی الحجہ ۳۵ھ ہجری میں خلیفہ کیے گئے اوران سے بیعت کی گئی نیزوہ کہتےتھے ہم سے محمد بن عبدالرحمن بن ابی ذیب نے زہری سے انھوں نے ابن مسیب سے نقل کرکے بیان کیاکہ جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو لوگ دوڑتے ہوئے علی کے پاس گئے جن میں اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)بھی تھےاوراورلوگ بھی تھےیہ سب لوگ کہتےتھے کہ مسلمانوں نے خلیفہ علی ہیں یہاں تک کہ یہ لوگ علی کے گھرمیں داخل ہوئے اورکہاکہ ہم آپ سے بیعت کریں گے آپ اپناہاتھ بڑھائیے کیوں کہ آپ سب سے زیادہ خلافت کے مستحق ہیں علی نے کہاخلیفہ بنانے کا اختیار تم کو نہیں ہے یہ اختیار اہل بدرکوہے جس سے اہل بدرراضی ہوجائیں وہی خلیفہ(برحق)ہےپسجب سب لوگ علی کے پاس آگئےاورکوئی باقی نہ رہااورسب نے کہاکہ ہم خلافت کا مستحق آپ سے زیادہ کسی کو نہیں پاتے آپ اپناہاتھ بڑھائیےہم آپ سے بیعت کریں گےحضرت علی نے پوچھا کہ طلحہ اورزبیرکہاں ہیں پس سب سےپہلے جس نے زبانی بیعت کی وہ طلحہ تھے اور سب سے پہلے جس نے ہاتھ سے بیعت کی وہ سعد(بن ابی وقاص تھے) جب حضرت علی نے یہ کیفیت دیکھی تومسجد میں گئے اورمنبرپررونق افروزہوئے (کہ اب جس کو کرناہو بیعت کرے)پس سب سے پہلے جس نے منبرکے پاس جاکران سے بیعت کی وہ طلحہ تھے اور ان کے بعد زبیرنے بیعت کی نیزاوراصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ ان سب سے راضی رہے۔ہمیں ابومحمدبن ابی القاسم دمشقی نے اجازۃً خبر دی وہ کہتےتھے مجھے میرے والد نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالقاسم ؟یعنی علی بن ابراہیم بن رشابن نطیف نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے حسن بن اسماعیل نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے احمد بن مروان نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمد بن موسیٰ بن حماد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمد بن حارث نے مداینی سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ جب حضرت علی کوفہ گئے تو ایک شخص حکمائے عرب میں سے ان کے پاس گیااور اس نے کہاواللہ یاامیرالمومنین خلافت کوآپ سے زینت ہوئی آپ کو خلافت سے زینت نہیں ہوئی اور خلافت کارتبہ آپ نے بلند کردیاآپ کا رتبہ خلافت نے بلندنہیں کیاخلافت آپ کی طرف زیادہ محتاج تھی نہ نسبت اس کے کہ آپ کواس کی ضرورت ہو۔ہمیں ابویاسربن ابی حبہ نے اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن احمد سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے قبیصہ نے ابوبکربن عیاش سے انھوں نے عاصم سے انھوں نے ابووائل سے روایت کرکےبیان کیاوہ کہتےتھے میں نے عبدالرحمن بن عوف سے پوچھاکہ آپ لوگوں نے علی کوچھوڑ کر عثمان کی بیعت کس طرح کی عبدالرحمن بن عوف نے کہااس میں میراکچھ قصورنہیں میں نے توپہلے علی ہی سے بیعت کرناچاہی تھی اورمیں نے کہاتھاکہ میں آپ سے اس شرط پر بیعت کرناچاہتاہوں کہ آپ کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ اورسیرے ابی بکروعمرپر عمل کریں تو انھوں نے کہا جہاں تک۲؎مجھ میں قوت ہوگی(ایساہی کروں گاٰپھر میں نے یہی شرط عثمان سے بیان کی توانھوں نے اس کو (بغیرکسی شرط کے)منظورکرلیا جب حضرت علی کی بیعت سے چند صحابہ نے کہ منجملہ ان کے ابن عمر اورسعداوراسامہ وغیرہ تھے تخلف کیا توحضرت علی نے ان کو مجبورنہ کیابلکہ ان سے پوچھاگیاکہ جن لوگوں نے آپ سےبیعت نہیں کی وہ کیسے ہیں کہ حق سے بیٹھ رہے اورباطل کی بھی مددنہ کی اور اہل شام نے معاویہ کے ساتھ ہوکران سے تخلف کیااوربیعت نہ کی بلکہ ان سے لڑے ہمیں ابوالقاسم یعنی محمد بن سعد بن یحییٰ بن بوش نے کتابتہً خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوطالب یعنی عبدالقادر بن محمد بن عبدالقادر بن یوسف نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابومحمد جوہری نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسین یعنی حافظ محمد بن مظفر بن موسیٰ نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں محمد بن حسن بن طازادموصلی نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے علی ابن حسین خواص نے عفیف بن سالم سے انھوں نے قطربن خلیفہ سے انھوں نے ابوالطفیل سے انھوں نے ابوسعید سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے آپ کی جوتی کاتسمہ ٹوٹ گیا اس کو حضرت علی درست کررہے تھےپھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ تذکرہ شروع کیااورفرمایاکہ تم میں سے ایک شخص ایسا ہوگا کہ وہ قرآن کی تاویل پر لڑےگا جس طرح میں اس کی تنزیل پر لڑا اس فضیلت کے سب منتظر تھے پس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ شخص یہ ہے جوجوتی ٹانک رہاہے پھرعلی آئے تو ہم نے ان کو بشارت دی وہ کچھ اس طرف متوجہ نہ ہوئے گویاوہ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن چکے تھے ہمیں ارسلان ابن بعان صوفی نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے ابوالفضل یعنی احمد بن طاہر بن سعید بن ابی سعید مسینی نے بیان کیاوہ کہتےتھےہمیں ابوبکر یعنی احمد بن خلف شیرازی نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں حاکم یعنی حافظ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں ابوجعفر یعنی محمد بن علی بن وحیم شیبانی نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے حسین بن حکم حیری نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے اسحاق بن ابراہیم ازدی نے ابوہارون عبدی سے انھوں نےابوسعید خدری سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھےہمیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ناکثین اورقاسطین اورمارقین سے لڑنے کاحکم دیاتھاہم لوگوں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ ہمیں آپ ان لوگوں سے لڑنے کاحکم دیتےہیں توہم کس کے ساتھ ہوکے لڑیں آپ نے فرمایاعلی بن ابی طالب کےساتھ اورانہیں کے ساتھ عمار بن یاسرشہیدہوں گے۔نیز و ہ کہتےتھےحاکم نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسن یعنی علی بن ممشادعدل نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے ابراہیم بن حسین بن دیرک نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے عبدالعزیز بن خطاء نے بیان کیا وہ کہتےہم سے محمد بن کثیر نے حارث بن حصیرہ سے انھوں نے ابوصادق سے انھوں نے مخفف بن سلیم سے روایت کرکے بیان کیا وہ کہتےتھے (جب حضرت علی کی لڑائیاں مسلمانوں سے شروع ہوئیں تو)ہم ابوایوب انصاری کے پاس گئے اورہم نے کہاکہ آپ اپنی تلوار سے مشرکوں کاقتال کرچکے ہیں اب آپ مسلمانوں سے قتال کرتےہیں انھوں نےکہا مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ناکثین اورقاسطین اورمارقین کے قتال کاحکم دیاتھا۔اورہم سے ابوالفضل بن ابی الحسن نے اپنی سند کے ساتھ ابویعلیٰ سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے اسماعیل بن موسیٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ربیع بن سہل نے سعید بن عبید سے انھوں نے علی بن ربیعہ سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے میں نے حضرت علی کو تمھارے اسی منبرپریہ کہتےہوئے سناکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مجھےناکثین اورقاسطین اور مارقین سے لڑنے کی وصیت کرگئے ہیں۔ہمیں ابوخانم یعنی محمدبن ہبتہ اللہ بن محمد بن ابی جرادہ حلبی نے خبردی وہ کہتےتھےمجھ سے میرے چچاابوالمجدیعنی عبداللہ بن محمد بن ابی جرادہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسن یعنی علی بن عبداللہ بن محمد بن ابی جرادہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابوالفتح یعنی عبداللہ بن اسماعیل بن احمد بن اسمعیل بن سعید نے حلب میں بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے استاذ ابوالبتمر یعنی حارث بن عبدالسلام بن زغبان حمصی نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے ابوعبداللہ یعنی حسن بن موسیٰ کوفی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے تجنعیم نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے عبداللہ بن حبیب نے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے میرے وال دنے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ حضرت (عبداللہ)ابن عمرکی وفات کاوقت جب قریب آیا توانھوں نے فرمایاکہ میرے دل میں دنیاکی طرف سے کوحسرت باقی نہیں ہے سوا اس کے کہ میں نے (علی کے ساتھ ہوکر)گروہ باغی سے جہادکیوں نہ کیااور ابوعمرنے لکھاہے کہ بہت سندوں سے بواسطہ حبیب بن ابی ثابت کے حضرت ابن عمرسے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ کسی بات کی مجھے حسرت نہیں ہے سوااس کے کہ میں نے علی بن ابی طالب کے ساتھ ہوکرگروہ باغی سے قتال کیوں نہ کیااور شعبی نے کہاہے کہ مسروق رحمہ اللہ کی جب وفات ہونے لگی توانھوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت علی کا ساتھ نہ دینے کی توبہ کی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قتال خوارج وغیرہ میں بڑے کارنمایاں ظاہرہوئے جو تواریخ میں مذکور ہیں اورہم اپنی کتاب تاریخ کامل میں ذکرکرچکے ہیں۔
۱؎اس روایت سے بہت بہت عمدہ نتائج حاصل ہوتےہیں منجملہ ان کے کہ یہ شیخین کی طرف حضرت علی کوکیساحسن ظن تھا کہ ان کی طرف یہ خیال نہ کیاکہ وہ اپنے کسی عزیزکوخلافت دے جائینگے حضرت علی کااپنے کو منسب کا زیادہ مستحق خلافت سمجھنا محض اس وجہ سے تھا کہ عقد خلافت شارع کی طرف سے نہیں ہواتھااورشجاعت آدمی کو اس قسم کے خیالات میں اکثر مبتلاکردیاکرتی ہے۱۲۔
۲؎ چونکہ اس وقت ایک معاملہ ہورہاتھا اور معاملہ میں اس قسم کے الفاظ شک دلاتے ہیں اس واسطے حضرت عثمان کو ترجیح دی گئی۱۲۔
حضرت علی مرتضٰی کی شہادت اوران کا اپنی شہادت کی خبردیناہمیں نصراللہ بن سالم ہیتی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں قاضی ابوالفضل یعنی محمد بن عمربن یوسف ارموی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالغنائم یعنی عبدالصمد بن علی مامون نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں حافظ علی بن عمر نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے ابوالحسن یعنی علی بن محمد بن علی بن عبداللہ بن یحییٰ بن زاہر بن یحییٰ رازی نے بصرہ میں خبردی وہ کہتےتھے مجھ سے احمد بن محمد بن زیادقطان رازی نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے عبداللہ بن زاہربن یحییٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھےمجھ سے میرے والد نے اعمش سے انھوں نے زید بن اسلم سے انھوں نے ابوسنان دولی نے انھوں نے حضرت علی سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے صادق مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ تم نہ مروگے یہاں تک کہ ایک ضرب تمھاری اس پراشارہ داڑھی اورسرکی طرف فرمایا ماری جائے گی اوراس امت کا شقی ؟تم کو قتل کرے گاجیساقبیلۂ محمود کے فلان شقی ترنےخداکی اونٹنی کے پیرکاٹے تھے۔علی بن عمرنے بیان کیاہے کہ یہ حدیث بروایت اعمش عن زیدبن اسلم عن ابی سنان عن علی غریب ہے اس کی روایت میں عبداللہ بن زاہراپنے والد سے منفرد ہیں مگرمیں کہتاہوں کہ اس حدیث کو عبداللہ بن جعفر نے زید سے انھوں نے ابوسنان سے بہ نسبت اس کے زیادہ کامل روایت کیاہے۔ہمیں ابوالفضل مخزومی نے اپنی سند کے ساتھ احمد بن علی سے روایت کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے اسحاق بن اسرائیل نے سنان سے انھوں نے عبدالملک بن اعین سے انھوں نے ابوحرب بن ابی الاسود سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت علی سے روایت کرکے بیان کیاکہ وہ فرماتے تھے عبداللہ بن سلام میرے پاس اس وقت آئے جب میں اپناپیررکاب میں(بہ عزم سفر کوفہ) رکھ چکاتھاانھوں نے مجھ سے کہاکہ آپ عراق نہ جائیےکیوں کہ مجھے خوف ہے کہ وہاں تلوار آپ کے لگے گی حضرت علی نے کہاخدا کی قسم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی خبردی ہے ابوالاسود کہتےتھے میں نے خداکی قسم اس دن کے سواکسی لڑنے والے کونہیں دیکھا کہ وہ اپنے متعلق ایسی خبربیان کرنیزوہ کہتےتھے ہمیں احمد بن علی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوخثیمہ نے خبر دی وہ کہتےتھے ہم سے جریر نے اعمش سے انھوں نے سلمہ بن کہیل سے انھوں نے سالم بن ابی اجعد سے انھوں نے عبداللہ بن سبع سے روایت کرکے خبردی وہ کہتےتھے کہ ایک روز حضرت علی بن ابی طالب خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے اور اس میں بیان کیا کہ قسم اس کی جس نے دانہ کو پھاڑا (اور اس میں سے درخت نکالا)اورجان پیداکی کہ میری یہ ڈاڑھی اس سے یعنی سرکے خون سے رنگی جائے گی ایک شخص نے کہاواللہ جو شخص ہم میں سے ایسی حرکت کرے گاہم اس کی نسل مٹادیں گے حضرت علی نے فرمایامیں تم کواللہ کی یاد دلاتاہوں اورقسم دیتاہوں کہ میرے عوض میں سوا میرے قاتل کے اورکوئی قتل نہ کیاجائے ہمیں ابوالفرج یعنی عبدالمنعم بن عبدالوہاب بن کلیب نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالخیر یعنی مبارک بن حسین بن احمد عسالی مصری شافعی نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے ابومحمد خلال نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابوالطیب یعنی محمد بن حسین نحاس نے کوفہ میں بیان کیاوہ کہتےتھے اسحاق بن عبدالمطلب بن کیسانی نے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے میرے والد نے عکرمہ سے انھوں نے ابن عباس سے روایت کرکے بیان کیاکہ وہ کہتےتھے کہ علی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ آپ نے غزوۂ احد میں جب مجھے شہادت نصیب نہ ہوئی اور بہت سے لوگ شہید ہوگئےفرمایاتھا کہ شہادت تو تمھارے پیچھے ہے بس تم کیونکرصبرکروگے جب تمھاری داڑھی تمھارے خون سے رنگین کی جائے گی تو یارسول اللہ اگرمیری یہی حالت قائم رہی جواب ہے تووہ وقت صبر کرنے کا نہ ہوگا بلکہ خوش ہونے اوربزرگی حاصل کرنے کاوقت ہوگا۔
ہمیں ابوالمنصوربن ابی الحسن نے اپنی سند کے ساتھ احمد بن علی بن مثنی سے روایت کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں سوید بن سعید نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے راشد بن سعدنے یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہاد سے انھوں نے عثمان بن صہیب سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ حضرت علی بیان کرتےتھے کہ مجھ سے فرمایاتم جانتےہو کہ اگلی امتوں میں سب سے زیادہ شقی کون تھا۔میں نے کہا وہ شخص جس نے(صالح علیہ السلام کی)اونٹنی کے پیرکاٹے تھے آپ نے فرمایاتم نے سچ کہااچھابتاؤ اس امت میں سب زیادہ شقی کون ہے میں نے کہایارسول اللہ اس کا علم مجھے نہیں ہے حضرت نے فرمایا وہ شخص جو تمھارے دماغ پر(تلوار)مارےگاحضرت علی (نہایت شوق کی حالت میں)یہ فرمایاکرتےتھے کہ میں آرزوکرتاہوں کہ تمھاراشقی اٹھے اورمیری داڑھی کو خون سے رنگین کردے۔
ہمیں ابویاسر بن ابی حبہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوغالب بن بنا نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے محمد بن احمد بن محمد بن حسین ؟نے بیان کیاوہ کہتےتھےہمیں ابوالقاسم یعنی موسیٰ بن عیسیٰ بن عبداللہ سراج نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں عبداللہ بن ابی داؤد نے خبردی ہم سے اسحاق بن اسماعیل نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے اسحاق بن سلیمان نے قطربن خلیفہ سے انھوں نے ابوالطفیل سے روایت کرکے بیان کیاکہ حضرت علی نے ایک مرتبہ لوگوں کو بیعت کے واسطے جمع کیاپس عبدالرحمن بن ملجم مرادی(ان کا قاتل)آیا آپ نے دومرتبہ اس کو واپس کیابعد اس کے فرمایاکہ اس امت کے شقی ترین شخص کوکیاچیزروک رہی ہے خداکی قسم یہ ڈاڑھی اس (سرکے خون)سےرنگین کی جائے گی بعد اس کے انھوں نے یہ شعرپڑھا۔
۱؎ اشد وحیازیمک للموت فان الموت لاقیک
ولا تجزع من القتل اذاحل بوادیک
۱؎ترجمہ اے دل موت کے لئے اپنے سامان درست کرلے ٘کیونکہ موت تجھے ملنے والی ہے ٘اور قتل سے ہراساں نہ ہو٘ جب وہ میرےسامنے آجائے۱۲۔
ہمیں ابویاسر نے اجازۃ ً خبر دی وہ کہتےتھے ہمیں ابوبکریعنی محمدبن عبدالباقی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابومحمد جوہری نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوعمروبن حیویہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں احمد بن معروف نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے حسین بن فہم نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمد بن سعد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے خالد بن مخلد اورمحمد بن صلت نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ربیع بن منذر نے اپنے والد سے روایت کرکے بیان کیاکہ محمد بن حنفیہ(فرزند علی مرتضے) کہتےتھے ابن ملجم حمام میں ہمارے پاس آیا اس وقت ہم اور حسن اور حسین حمام میں بیٹھے ہوئےتھے جب وہ آیا تہ حسنین اس سخت مکدرہوئے اوردونوں نے کہا تجھ کو کس نے جرات دلائی کہ ہمارے پاس چلاآیامیں نے کہاکہ اب اس کو چھوڑ دیجیے خداکی قسم اس سے زیادہ خفگی کاخیال اس کو آپ کی طرف نہ ہوگا پھرجب وہ دن آیا کہ وہ (بجرم قتل علی مرتضے)گرفتارہوکرآیا توابن حنیفہ کہتےتھے کہ میں اس کو اسی دن خوب پہچان گیاتھاجس دن یہ حمام میں ہمارے پاس گھس گیاتھا۔حضرت علی نے فرمایاکہ یہ قیدی ہے اس کی مہمانی اچھی طرح کرواور اس کی خوب عزت کرواگرمیں زندہ رہوں گاتومجھے اختیار ہے خواہ قتل کردوں یامعاف کردوں اوراگرمیں مرجاؤں تو تم لوگ اس کو قتل کردینا مگرقتل میں (اس پر)زیادتی نہ کرناکیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
ہمیں ابواحمد یعنی عبدالوہاب بن علی امین وغیرہ نے اجازۃً خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالفتح یعنی محمد بن عبدالباقی بن احمد بن سلیمان نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں ابوالفضل بن خیرون نے اورابوطاہر یعنی احمد بن حسن باقلانی نے اجازۃً خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوعلی بن شاذان نے خبردی وہ کہتےتھےیہ روایت ابومحمد یعنی حسن بن محمد بن یحییٰ بن حسن بن جعفر بن عبیداللہ بن حسن بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کے سامنے پڑھی گئی وہ کہتےتھے کہ مجھ سے میرے داداابوالحسین یعنی یحییٰ بن حسن نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سےسعید بن نوح نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابونعیم یعنی فضل بن دکین نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے عبدالجبار بن عباس نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے جب رمضان کامہنیہ آیا توحضرت علی ایک شب کو حسن کے یہاں ایک شب حسین کے یہاں ایک شب عبداللہ بن جعفرکے یہاں کھاناکھانے لگے مگرتین لقموں سے زیادہ نہ کھاتے تھےاورفرماتے تھے کہ(میں چاہتاہو کہ مجھے)موت اس حال میں آئے کہ میں بھوکاہوں اب میری موت میں صرف ایک یادوشب باقی ہیں نیزوہ کہتےتھے مجھے میرے دادانے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے زید بن علی نے عبیداللہ بن موسیٰ سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حسن بن کثیر نے اپنے والد سے روایت کرکے بیان کیا وہ کہتےتھے کہ حضرت علی نمازفجر کے لیے نکلے توبطیں ان کے سامنےچیخنے لگیں ہم لوگ ان کو ہٹانے لگے حضرت علی نے فرمایاان کو چھوڑدو کیونکہ یہ رورہی ہیں اورآپ باہر چلے گئے اور زخمی ہوگئے اس سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت علی وہ سال وہ مہینہ وہ شب جانتےتھے جس میں وہ شہیدہوں گے واللہ اعلم۔
ہمیں خطیب ابوالفضل یعنی عبداللہ بن احمد نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں نقیب طراد بن محمد نے اجازۃً خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسین بن بشران نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں حسین بن صفوان نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں عبداللہ بن ابی الدنیانے خبردی وہ کہتےتھے مجھ سے عبدالرحمن بن صالح نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عمروبن ہاشم حسینی نے حکاب سے انھوں نے ابوعون ثقفی سے انھوں نے ابوعبدالرحمن سلمی سے روایت کرکے خبردی وہ کہتےتھے مجھ سے حسین بن علی نے کہاکہ حضرت علی فرماتےتھے شب کو میرے خواب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروزہوئے میں نے عرض کیایارسول اللہ آپ کی امت سے میں نے بہت تکلیف اورزحمت اٹھائی حضرت نے فرمایا توتم ان کے لیے بددعاکروپس میں نے دعاکی کہ یااللہ مجھے ان کے عوض ایسے لوگ دے جو ان سے بہترہوں اوران کو میرے عوض میں ایسا شخص دے جو مجھ سے بدترہو پھرحضرت علی باہرنکلے تو ان کو اس شخص نے مارااس روایت میں حسین بن علی کانام ہے حالاں کہ صحیح حسن ہے ہمیں عبدالوہاب بن ہبتہ اللہ بن عبدالوہاب نے اجازۃً خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوبکرانصاری نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابومحمد جوہری نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوعمربن حیویہ نے خبردی وہ کہتےتھے خوارج میں سے تین شخص باہم متفق ہوگئے عبدالرحمن بن ملجم مرادی جوقبیلہ ہمیرکاہے اوربنی مراد میں ان کا شمارہےبنی جبلہ کے حلیف تھے جوکندہ کی ایک شاخ ہے برک بن عبداللہ تمیمی اورعمربن بکیرتمیمی یہ تینوں آدمی مکہ میں جمع ہوئے اورباہم عہدوپیمان کیاکہ ان تین شخصوں کو ضرور قتل کو ضرور قتل کرناچاہیے علی بن ابی طالب کو اورمعاویہ کو اورعمروبن عاص کو اوربندگان خداکوان تینوں سے نجات دیناچاہئے اب ملجم نے کہا میں علی کو قتل کروں گا برک نے کہامیں معاویہ کا کام تمام کردوں گا عمروبن بکیرنے کہاعمروبن عاص کے لیے کافی ہوں اور خوب مضبوطی کے ساتھ سب نے معاہدہ کیاکہ کوئی شخص اپنے نامبردہ کے قتل سے باز نہ رہے یاقتل کرے یاخود ماراجائے سترھویں رمضان کی شب کو ان لوگوں نے یہ معاہدہ کیااورہرشخص اپنے اپنے نامبردہ کے شہر کی طرف چلا عبدالرحمن ابن ملجم کوفہ آیا اوراپنے خارجی دوستوں سے ملامگران سے ظاہر نہیں کیاکہ میں اس (ملعون)ارادہ سے آیاہوں یہ برابران کی ملاقات کوجاتاتھااور وہ اس کی ملاقات کو آتے تھے ایک روز بنی تیم رباب کے کچھ لوگوں کی ملاقات کو گیاوہاں اس نے ایک عورت کو دیکھا جس کانام قطام بنت سخبہ بن عدی بن عامر بن عوف بن ثعلبہ بن سعد بن ذہل بن تیم رباب تھاحضرت علی نے اس عورت کے باپ اوربھائی کونہروان میں قتل کیاتھایہ عورت ابن ملجم کو پسند آئی اور ابن ملجم نے اس سے نکاح کی درخواست کی وہ کہنے لگی میں تیرے ساتھ نکاح نہ کروں گی تا وقتیکہ تومیرامہرنہ مقررکرے ابن ملجم نے کہاتوجو مانگے گی میں دونگا اس عورت نےکہا تین ہزار روپیہ اورعلی بن ابی طالب کاقتل میں چاہتی ہوں(اس وقت)ابن ملجم نے کہاکہ میں تویہاں علی بن ابی طالب ہی کے قتل کےلیے آیاہوں اچھاجوتومانگتی ہے میں نے تجھے دیا پھرابن ملجم شبیب بن بجرہ سے ملااوراس کواپنے ارادہ سے آگاہ کیااوراس سے کہا کہ توبھی میرے ساتھ ہوجااس بدبخت نے اس کومنظورکرلیا جس شب کی صبح علی مرتضے کہ قتل کا ارادہ تھا اس شب کو رات بھرابن ملجم اشعث ابن قیس کندی سے سرگوشی کرتارہا یہاں تک کہ فجر طلوع ہوئی اوراشعث نے اس سے کہاکہ دیکھ صبح ہوگئی پس ابن ملجم اورشبیب بن بجرہ دونوں اٹھے اوراپنی تلواریں لیے ہوئے اس ڈیوڑھی کے مقابل آکربیٹھ گئے جس سے حضرت علی نکلاکرتےتھے حضرت حسن بن علی فرماتےتھے کہ میں اس دن بہت تڑکے اپنے والد ماجد (رضی اللہ عنہ )کے حضور میں گیااوران کے پاس بیٹھ گیامجھ سے فرمایاکہ آج رات بھرمیں اپنے گھر والوں کو جگاتارہا کچھ دیربے اختیار بیٹھے ہی بیٹھے نیند آگئی میں نے دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتےہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ میں نے آپ کی امت سے بہت تکلیفیں اٹھائیں حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ تم ان کےلیے بددعاکرومیں نے عرض کیا کہ یااللہ مجھے ان کے عوض میں ایسے لوگ دے جوان سے بہترہوں اوران کو میرے عوض میں ایسا شخص دے جو ان کے حق میں مجھ سے بدترہو اسی حالت میں ابن تیاخ موذن آگئے اورانھوں نے کہانمازتیارہے پس ابن تیاح (حضرت والد ماجد کے)کے آگے آگے چلتےتھے اورمیں ان کے پیچھے پیچھے چل رہاتھا جب وہ دروازہ سے نکلے تو الصلوۃ الصلوۃ پکارنے لگے اس طرح ہرروزکیاکرتےتھے اوراپنے ساتھ اپنادرہ لے کرنکلاکرتےتھے لوگوں کو جگاتے جاتےتھے پس اثنائے راہ میں دو شخص ملے اورتلوار کی چمک معلوم ہوئی اور کسی کو میں نے کہ کہتےسنا کہ اے علی۱؎تیراحکم نہیں ہے بلکہ حکم اللہ ہی کاہے اس کے بعد میں نے دوسری تلوار دیکھی ان دونوں نے ایک ساتھ تلواریں ماریں مگرابن ملجم کی تلوار ان کی پیشانی پرلگی جوابروئے مبارک تک اترآئی اوردماغ میں پہنچ گئی اور شبیب کی تلوارمسجد کی محراب پر پڑی پھرحضرت علی کو یہ کہتےہوئے سناگیاکہ خبرداریہ شخص جانے نہ پائے اورلوگ ہرطرف سے ان دونوں پردوڑ پڑے مگرشبیب بھاگ گیااور ابن ملجم پکڑکرحضرت علی کے پاس لایاگیا حضرت علی نے فرمایااس کو عمدہ کھانادو اورنرم فرش پر سلاؤ اگرمیں زندہ رہاتو مجھے اپنے خون کی بابت اختیارہے چاہونگامعاف کرونگا چاہونگا قصاص لونگااوراگرمرگیاتو اس کو بھی مجھ سےملادینامیں رب العالمین کے یہاں اس سے جھگڑلونگاام کلثوم بنت علی کہنے لگیں کہ اے دشمن خدا تونے امیرالمومنین کوقتل کردیا وہ (بدبخت )بولانہیں میں نے تمھارے باپ کو قتل کیاہے ام کلثوم نے کہا خداکی قسم میں امید رکھتی ہوں کہ امیرالمومنین کو(اس زخم سے )کوئی نقصان نہ پہنچے گا اس (کمبخت )نے کہا پھرتم کیوں روتی ہو پھراس نے کہا خداکی قسم میں نے اس تلوارکوایک مہینے تک زہرمیں بجھایاہے اگراب بھی یہ مجھکو دھوکادے گئی تواللہ اس کوغارت کرے اور اشعث بن قیس نے اپنے بیٹے قیس بن اشعث کواس دن جب حضرت علی ذخمی ہوئے بھیجا کہ اے بیٹے دیکھ آؤامیرالمومنین کی کیا حالت ہے چنانچہ قیس دیکھنے گئے اورلوٹ کرکہاکہ میں نے دیکھا ان کی دونوں آنکھیں سرمیں گھس گئی ہیں اشعث نے کہاخداکی قسم دماغ میں صدمہ پہنچ گیاپھرحضرت علی جمعہ کے دن اور ہفتہ کے دن زندہ رہے اور شب یکشنبہ انیسویں رمضان ۴۰ھ ہجری تک زندہ رہے اس کے بعد وفات پائی اللہ کی رضامندی ان پرنازل ہو ان کو حسن اور حسین اور عبداللہ بن جعفر نے غسل دیااورتین کپڑے کفن میں دئیےگئے جس میں قمیص نہ تھالوگوں نے بیان کیاہے کہ عبدالرحمن بن ملجم قید میں تھاجب حضرت علی کی وفات ہوگئی اوران کو دفن کرچکے توحسن بن علی نے ابن ملجم کو قتل کرنے کے لیے نکلوایا پس سب لوگ جمع ہوگئےاور روغن اور چٹائیاں اورآگ لے آئے کہ ہم اس کو جلائیں گےعبداللہ بن جعفر اور حسین بن علی اورمحمد بن حنفیہ نے کہاکہ ہمیں چھوڑدوہم اپنے لوگوں کوٹھنڈاکرلیں چنانچہ عبداللہ بن جعفر نے اس کے دونوں ہاتھ اوردونوں پیرکاٹ ڈالے مگروہ کچھ نہ بولا پھرانھوں نے اس کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں اوروہ کچھ نہ بولا اورکہنےلگا تواپنے چچا کی یعنی میری آنکھوں میں بہت آسان سلائیاں پھیررہاہے اور اقراء باسم ربک الذی خلقپڑھنے لگااخیرتک پڑھ گیا اوراس کی آنکھیں بہتی جاتی تھیں بعد اس کے عبداللہ بن جعفر نے حکم دیاتواس کی زبان پکڑلی گئی تا کہ کاٹ لی جائے پس فریاد کرنے لگا اس سے کہاگیاکہ اے دشمن خداہم نے تیرے ہاتھ اورپیر کاٹ ڈالے اورتیری آنکھوں میں سلائی کردی اور تونہ چلایامگرجب ہم تیری زبان کی طرف متوجہ ہوئے توتوچلانے لگااس نے جواب دیا کہ یہ چلانا صرف اس سبب سے ہے کہ میں اس بات کو براسمجھتاہوں کہ دنیا میں اس حال میں رہوں کہ اللہ کویاد نہ کروں پھرلوگوں نے اس کی زبان کاٹ ڈالی اوراس کو ایک چٹائی میں رکھ کرآگ میں جلادیا۔عباس بن علی اس وقت چھوٹے تھے تھوڑے ہی دنوں کے بعد بالغ ہوئے۔
۱؎ خوارج کایہ مذہب ہے کہ خدا کے سوا اورکسی کو حاکم بنناجائزنہیں۱۲۔
ابن ملجم گندمی رنگ کا تھااس کی پیشانی میں سجدہ کانشان تھا۔ہمیں عمربن محمد بن طبرزد نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالقاسم بن سمرقندی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوبکربن طبری نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسین بن بشران نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوعلی بن صفوان نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے ابن ابی الدنیانے بیان کیاوہ کہتےتھےمجھ سے ہارون بن ابی یحییٰ نے قریش کے ایک شیخ سے روایت کرکے بیان کیاکہ حضرت علی کوجب ابن ملجم نے ماراتوانھوں نے کہاکہ قسم رب کعبہ کی میں اپنی مراد کوپہنچ گیا۔
ہمیں عبدالوہاب بن ابی منصوربن سکینہ نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں ابوالفتح یعنی محمد بن عبدالباقی بن سلمان نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں احمد بن حسین بن خیرون نے اوراحمد بن حسن باقلانی نے اجازۃً خبردی وہ کہتےتھےہمیں ابوعلی بن شاذان نے خبردی وہ کہتےتھے کہ ابومحمد یعنی حسن بن محمد بن یحییٰ علوی کے سامنے پڑھاگیاوہ کہتےتھے مجھ سے میرے دادانے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے احمد بن محمد بن یحییٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھے اسماعیل بن ابان ازدی نےبیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے فضیل بن زبیر نے عمرذی مرسے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ حضرت علی جب اس (نامراد)ضرب سے زخمی ہوئے تو میں ان کی خدمت میں حاضرہواان کے سرمیں ایک پٹی بندھی ہوئی تھی میں نے عرض کیا کہ یاامیرالمومنین مجھے اپنا زخم دکھائیے چنانچہ انھوں نے زخم کوکھولا میں نے کہا خفیف زخم ہے کچھ ہی نہیں فرمایا میں تم لوگوں کو چھوڑناچاہتاہوں پس ام کلثوم پردہ کے اندرسے رونے لگیں حضرت علی نے ان سے فرمایاکہ چپ رہو اگرتم وہ دیکھتیں جومیں دیکھ رہاہوں توہرگز نہ روتیں میں نے عرض کیاکہ یاامیرالمومنین آپ کیادیکھ رہےہیں فرمایافرشتے آئےہیں اوریہ انبیاہیں اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ اے علی خوش ہو کیونکہ تم جس حالت کی طرف رجوع کرنے والے ہووہ اس حالت سے بہترہےجس میں تم ہو۔یہ ام کلثوم حضرت علی کی صاحبزادی اورحضرت عمربن خطاب کی زوجہ تھیں۔
ہمیں خطیب بن عبداللہ بن احمد بن عبدالقاہر نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوسعد مطرز نے اور ابوعلی حدادنے اجازۃً خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابونعیم یعنی احمد بن عبداللہ نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے عبداللہ بن محمد بن جعفر نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمدبن عبداللہ بن احمد نے بیان کیاوہ کہتے تھےہم سے محمد بن بشربرادرخطاب نے بیان کیاوہ کہتےتھے عمربن زراہ حدثی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے فیاض بن محمد رقی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عمروبن عبس انصاری نے ابومخفف سے انھوں نے عبدالرحمن بن حبیب بن عبداللہ سےانھون نے اپنے والد سے روایت کرکے بیان کیا وہ کہتےتھے کہ حضرت علی جب اپنی وصیت ختم کرچکے توفرمایاالسلام علیکم ورحمتہ اللہ بعد اس کے ہے لاالہ الااللہکےسواکچھ کلام نہ کیایہاں تک کہ اللہ نے ان کی روح قبض کرلی۔اللہ کی رحمت اور اس کارضوان ہو ان پر۔
حضرت علی کوغسل ان کے دونوں صاحبزادوں یعنی حسنین رضی اللہ عنہما اورعبداللہ بن جعفرنے دیا اورنماز حضرت حسن نے پڑھائی نماز میں چارتکبیریں کہیں اور کفن میں تین کپڑے دئیے جن میں قمیص نہ تھااورسویرے صبح کے وقت دفن کئے گئے۔بعض لوگوں کابیان ہے کہ حضرت علی کے پاس کچھ مشک تھا جورسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حنوط سے بچ رہاتھاانھوں نے وصیت کی تھی کہ وہی مشک ان کے حنوط میں دیاجائے۔
حضرت علی کی عمرمیں اختلاف ہے محمد بن حنفیہ نے حجاف میں یعنی ۸۱ھ ہجری میں بیان کیاکہ اب میری عمر پینسٹھ برس کی ہے اورمیری عمرمیرے والد کی عمرسے زیادہ ہوگئی ہے میرے والد کی عمر جب وہ شہید ہوئے ترسٹھ برس کی تھی واقدی نے کہاہے کہ یہ روایت ہمارے نزدیک صحیح ہے ابوبکر برقی نے کہاہے کہ ۵۷ھ ہجری میں حضرت علی کی وفات ہوئی تھی اوربعض لوگوں نے کہاہے کہ ۵۸ھ میں تین دن کم پانچ سال خلافت کی اوربقول چارسال اورنوماہ اورچھ دن اوربقول بعض تین دن محمد بن علی (یعنی امام)باقر نے بیان کیاہے کہ حضرت علی کارنگ گندمی تھاآنکھیں بڑی اور کشادہ تھیں شکم پر بال نہ تھے میانہ قدتھےخضاب نہ لگاتے تھے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیاہے کہ میں نے حضرت علی کودیکھاہے ان کے سر اورداڑھی کے بال سفید تھے اورکبھی وہ اپنی داڑھی میں خضاب لگایاکرتےتھے ابورجاءعطاردی نے کہاہے کہ میں نے حضرت علی کودیکھاان کاقدمیانہ تھا پیٹ بڑاتھاداڑھی بڑی تھی کہ اس نے سینہ مبارک کوبھرلیاتھاپیٹ پر بال نہ تھابالکل صاف تھا ۔ محمدبن سعد نے ابونعیم یعنی فضل بن دکین سے انھون نے رزام بن سعد ضبی سے روایت کی ہے کہ وہ کہتےتھے میں نے اپنے والدسے سناوہ حضرت علی کاحلیہ اس طورپربیان فرماتےتھے کہ قد ان کا میانہ سے کچھ زیادہ تھادونوں شانے پرگوشت تھے داڑھی لمبی تھی جب ان کو تم( دورسے)دیکھو تو کہو کہ کھلتاہواگندمی رنگ ہےاوراگرقریب سے دیکھو تو کہوکہ گندمی رنگ سے کچھ دباہوارنت ہے اورمحمد بن سعد نے بیان کیاہے کہ ہم سےعفان بن مسلم نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عوانہ نے مغیرہ سے انھوں نے قدامہ بن عتاب سے روایت کرکے بیان کیاہے کہ وہ کہتےتھے کہ حضرت علی کا شکم مبارک بڑاتھااورشانے پرگوشت تھے اورکہنیاں پر گوشت تھیں پنڈلیاں بھی پرگوشت تھیں میں نے کوجاڑے کے زمانے میں خطبہ پڑھتے ہوئے دیکھا ایک قمیص اور ایک قطری پہنے ہوئےتھے اور کسی ایسے کپڑے کاتھاجوتمھارے یہاں بناجاتاہے عمامہ باندھے ہوئےتھے ابن ابی الدنیا نے کہا ہے کہ مجھ سے ابوہریرہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عبداللہ بن داؤد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے مدرک یعنی ابوالحجاج نے بیان کیاوہ کہتےتھے میں نے حضرت علی کو خطبہ پڑھتے ہوئے سنا وہ نہایت حسین تھے اورایسامعلوم ہوتاتھا کہ گویاان کی صورت خوب گڑھ گڑھ کے بنائی گئی ہے سفید بالوں کارنگ وہ نہ بدلتےتھے بہت ہلکی چال چلتے تھے دانتوں پر مسکراہٹ رہتی تھی۔
المختصر ان کے مناقب بہت بڑے بڑے ہیں ہم یہاں اسی قد ر پرقناعت کرتےہیں جس کوزیادہ شوق ہو توہم نے ایک جامع کتاب میں ان کےمناقب بیان کردئیے ہیں والحمدللہ رب العالمین۔
لوگوں نے ان کے مرثیے بہت کہے ہیں منجملہ ان کے وہ ہے جوابوالاسود ولی نےکہاہے اوربعض لوگ اس کوام ہیثم بنت عریان نخعیہ کہ طرف منسوب کرتےہیں وہ یہ ہیں۔
۱؎ الایاعین ویحک اسعدینا الاتبکے امیرالمومنینا
تبکے ام کلثوم علیہ بعبرتھاوقدرات الیقینا
الاقل للخوارج حیث کانوا فلاقرت عیون الشایتنا
افی الشہر الحرا م فجعتمونا بخیرالناس طرااجمعینا
قتلتم خیر من رکب المطایا فذللہا و من رکب السفینا
ومن لبس النعال ومن حذاہا ومن قرالمثانی والمبینا
۱؎ ترجمہ اے آنکھ کچھ ہماری مددکر٘ توامیرالمومنین کے لیے کیوں نہیں روتی ٘ام کلثوم ان کے لئے رورہی ہیں٘اپنی آنکھوں سے وہ یقین کو دیکھ چلی ہیں ٘آگاہ ہوجاؤخوارج سے کہدوجہاں وہ ہیں ٘بدگویوں کی آنکھ میں ٹھنڈک نہ پڑے ٘کہ تم نے ماہ حرام میں ہمیں داغ دیا٘اس شخص کی (مفارقت)کاجوسب سے بہترتھا ٘تم نے قتل کردیااس شخص کوجو تمام سوارہونے والوں سے بہترتھا٘ اور جو کشتی میں بیٹھنے والوں سے بہترتھا٘جوجوتی پہننے والوں میں (یعنی تمام آدمیوں سے)افضل تھا ٘ اور جس نے مثانی اور منین (یعنی سورہ قرآنی )پڑھی تھیں۔
۱؎ وکل مناقب الخیرات فیہ وحب رسول رب العالمین
لقد علمت قریش حیث کانوا بانک خیرہاحباودینا
اذااستقبلت وجہ ابی حسین رایت البدرراق الناظرینا
وکناقبل مقتلہ بخیر نری مولی رسول اللہ فینا
یقیم الحق لا یرتاب فیہ وبعدل فی العداد لاقربینا
ولیس بکاتم علما لدیہ ولم یخلق من المجبرینا
کان الناس اذافقد واعلیا نعام حارفی بلد سنینا
فلاتشمت معاویہ بن حرب فان بقیتہ الخلفاء فیمنا
فضل بن عباس بن عتبہ بن ابی لہب نے بھی ان کا مرثیہ کہاہے وہ یہ ہے۔
۲؎ ماکنت احسب ان الامرمنصرف عن ہاشم ثم منہاعن ابی حسن
البرادل من صلے لقبلتہ واعلم الناس بالقرآن والسنن
وآخرالناس عہدابالنبی ومن جبریل عون لہ فی الغسل والکفن
من فیہ مافیہم لاتمترون ولیس فی القوم مافیہ من الحسن
اوراسماعیل بن محمد جمیری نے کہاہے۔
۳؎ مسائل قریشابہ ان کنت ذاعمہ من کان اثبتہافی الدین اوتاد
من کان اقدام اسلاماواکثرہا علماواطہرہااہلاواولادا
من وحداللہ اذکانت مکذبتہ تدعو من اللہ واثاناواندادا
من کان یقدم فی الحاءان نکلا عنہا وان یبخلو ا فی ازمتہ جادا
من کان اعدلہاحکماوابسطہا کفاواصدقہاوعداوایعادا
ان یصدقوک فلن یعدہ باحسن ان انت لم تلق للابرارحساوا
ان انت لم تلق اقواماذوی صلف وذاعنادلحق جحاوا
۱؎ تمام نیکیاں اس میں جمع تھیں ٘اوروہ رسول رب العالمین کا محبوب تھا ٘(اے علی مرتضی)تمام قریش اس بات کوجانتےہیں٘کہ تم ان سب میں بہترہوحسب میں بھی دین میں بھی٘(اے مومن)جب تو حسین کے والد کاچہرہ مبارک دیکھتا٘ تومعلوم ہوتا کہ ماہ کامل ہے جولوگوں کی نظرکوخوش کررہاہے ٘ہم ان کی شہادت سے پہلے اچھی حالت میں تھے٘رسول اللہ کے محبوب کو اپنے میں موجوددیکھتےتھے٘جوحق کوقائم رکھتاتھا اوراس کوشک و شبہ نہ ہوتاتھا٘اوراپنے پرائے سب کے حق میں انصاف کرتاتھا اورجوعلم اس کےپاس تھااس کو چھپاتانہ تھابدخواورمغرورلوگوں میں سے نہ تھا٘جب لوگوں نے علی کونہ پایا٘توان کی حالت مثل ان شترمرغوں کی تھی جوکسی مقام پر سالہاسال سرگرداں رہیں٘(اے شخص)اب معاویہ بن حرب کوبرانہ کہہ(غنیمت جان) کیوں کہ وہ بھی ہم خلفاکی یادگارہیں٘(ان کے بعد)ان کا ساملنابھی دشوارہے٘
۲؎میں نہیں خیال کرتاتھاکہ امرخلافت ٹل جائےگا٘خاندان ہاشم سے اورہاشم میں ابوالحسن (یعنی علی مرتضیٰ سے)جونیکوکارتھے٘ اورجنھوں نے سب سے پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی٘اورجو قرآن و حدیث کاعلم سب سے زیادہ رکھتےتھے٘اورجونبی کے سب سے آخری دیکھنے والے تھے٘ اور(نبی کے)غسل وکفن میں جبریل جن کے مددگارتھے٘وہ ایسے تھے کہ جوفضائل اوروں میں تھے وہ ان میں بھی تھے تم اس میں شک نہیں کرسکتے٘مگرجوخوبیاں ان میں تھیں وہ اوروں میں نہ تھیں٘
۳؎(اے شخص)اگرتجھے خود بصیرت نہ ہو توقریش سے پوچھ٘کہ دین میں سب سے زیادہ مضبوط کون تھا٘اسلام میں سب سے قدیم کون تھا٘علم میں سب سے زیادہ اور بی بی بچے سب سے زیادہ پاکیزہ کس کے تھے٘خداکو ایک کس نے کہا جب لوگ تکذیب کرتےتھے٘اورخدا کے ساتھ بتوں کوشریک کہتےتھے٘میدان رزم میں کون جاتاتھا جب اور لوگ سست ہوجاتے تھے٘ اور جب لوگ بخل کرتےتھے تو سخاوت کرتاتھا٘حکومت کس کی زیادہ انصاف والی اور سخاوت کس کی بڑھی ہوئی اور وعدہ وعید کا سب سے زیادہ سچاکون تھا ٘اگروہ لوگ سچ بولیں گےتوسواابوالحسن (یعنی علی مرتضی کے)کسی کو(ان اوصاف کا)نہ بتاسکیں گے٘بشرطیکہ تم ایسے لوگوں سے نہ ملوجونیکوں کے حاسد ہوں٘ایسے لوگوں سے نہ ملوجوحق خداکے دشمن اور منکر ہوں٘
حضرت علی مرتضیٰ کے مناقب اوران کے مراثی بہت ہیں اللہ ان سے راضی ہو ہم یہاں اسی(قدر قلیل)پراختصارکرتےہیں (اہل ایمان کے لئے )یہی کافی ہے اللہ کا شکرہے اورسلام ہو اللہ کے ان بندوں پرجن کو اس نے برگزیدہ کیا۔
ضمیمہ از مترجم عفااللہ عنہ
حضرت علی مرتضی کی فضیلت میں یہ اوراسی قسم کی بہت سی حدیثیں مروی ہیں جن سے اہل باطل احتجاج کرتےہیں بعض ان میں سے ان احادیث سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بعدرسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت علی ہی مستحق خلافت تھے اوریہ کہ حضرت علی کے ہوتے کسی دوسرے کی خلافت صحیح نہیں ہوسکتی اورجتنی خلافتیں ان سے پہلے ہوئیں وہ ناجائزتھیں اوربعض ان میں سے یہ نتیجہ تونہیں نکالتےمگراتناضرورکہتےہیں کہ حضرت علی تمام صحابہ سے افضل تھے۔یہ دونوں فرقہ گمراہ ہیں اول شیعہ تبرائی اور دوسرے شیعہ تفضیلی کے نام سے موسوم ہیں لہذااس مقام پرایک مختصر تقریران شبہات کے ازالہ کے لیے کرناچاہتاہوں اوراس تقریر کودونکتوں کے ضمن میں بیان کرناچاہتاہوں۔
پہلانکتہ جس چیزکی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اورجس کے متعلق کوئی واقعہ درپیش ہوتاہے لوگوں کے طبائع فطرۃً اس طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اورجوباتیں اس کے متعلق ہوتی ہیں وہ زیادہ محفوظ رہ جاتی ہیں اوران کا چرچہ بھی زیادہ ہوتاہے یہ ایک عام قاعدہ ہے جس کے نظائر بکثرت موجود ہیں لہذا چونکہ شارع علیہ السلام کومعلوم تھاکہ ایک زمانہ آنے والاہے کہ لوگ علی مرتضی سے مخالفت کریں گےاوران سے لڑیں گےاورایک فتنہ عظیم مسلمانوں میں برپاہوگااس وجہ سے حضرت مرتضی کے فضائل زیادہ بیان میں آئے اورجب ان کی مخالفت شروع ہوئی اوروہ فتنہ درپیش ہوگیاتوان فضائل کاچرچہ ہوا اوراہل حق نے ان کی اشاعت میں کوشش کی تدوین حدیث کےزمانے تک چونکہ علی مرتضی کی مخالفتوں کاقوی اثر قائم تھااس وجہ سے محدثین نے بھی ان کے فضائل خوب جمع کئے اوران کی ترویج میں کوشش کی اورچونکہ فضائل کی حدیثوں میں زیادہ جانچ کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
اوران کی ترویج میں کوشش کی اورچونکہ فضائل کےراویوں پرچنداں التفات نہ کیاگیاحالانکہ ان راویوں میں بہت سے مفتری کذاب شیعہ مذہب کےشامل تھے جوحضرت علی مرتضیٰ کے فضائل میں ہجوملیح کے درج کرنےکے بڑے کوشاں تھے نتیجہ یہ نکلا کہ حدیثیں فضائل کی بہت جمع ہوگئیں مگرتنقید کے وقت ان میں صحیح بہت کم نکلیں۔ حضرت علی مرتضی کاصاحب فضائل اور کثیرالمناقب ہونااہل سنت کومسلم ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سنی ہونے کی علامات میں شمارکی جاتی ہے اورسچ پوچھو توان کذابوں نے حضرت علی مرتضی کے فضائل کواصل سے منہدم کرنا چاہاتھاعلمائے اہل سنت کی کوششوں کاحق تعالیٰ اچھابدلہ دے یہ محض انہیں کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اب بھی حضرت علی مرتضیٰ کے فضائل کاایک معقول وغیرہ جو ہرطرح قابل اطمینان ہے نہایت محفوظ طریقہ سے مل جاتاہے۔مگرباوجود اس کے کہ حضرت علی مرتضیٰ کے فضائل بیان کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ بہت سے مسلمان ان کے مخالف ہوگئےتھے اورشیخین کے فضائل بیان کرنے کی اس وقت ایسی ضرورت نہ تھی کیونکہ ان کے فضائل ہر مسلمان کے دل پر نقش تھے اورکوئی مسلمان ان کا مخالف نہ تھاپھربھی حضرت علی مرتضی کے فضائل شیخین سے زیادہ نہیں ملتے فرق اس قدرہے کہ علی مرتضی کے فضائل کی روایتیں باسانید متکثرہ مروی ہیں اوران میں سے اکثر میں ضعف ہے اورشیخین کے فضائل میں جو روایتیں ہیں ان کی اسانید میں گووہ تکثرنہیں ہے مگرصحت و قوت کاوصف غالب ہے۔
لہذااہل سنت کاسلف لے کرآج تک اس پراجماع ہے کہ بعد رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے اس امت میں سب سے بہتروبرترابوبکرصدیق ہیں ان کے بعد عمرفاروق ان کے بعد عثمان ذوالنورین ان کے بعد علی مرتضیٰ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم وارضاہم)جواس کے خلاف عقیدہ رکھے وہ دائرہ اہل سنت سے خارج اورگمراہ ہے یہ بالکل غلط ہے کہ حضرات صوفیاکرام رحمتہ اللہ علیہم کا مسلک اس کے خلاف ہےاوروہ حضرت علی مرتضیٰ کو خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے افضل جانتےہیں بڑےبڑے اکابرصوفیا نے اپنے کلمات میں اس کی تصریح کردی ہے۔
دوسرانکتہ جوامور مدارفضیلت ہوسکتےہیں وہ جس اعلیٰ رتبہ کے ساتھ شیخین رضی اللہ عنہماکی ذات میں بیان فرمائےگئے ہیں اس سے زیادہ علی مرتضیٰ کی ذات میں نہیں ارشادہوئےمثلاًایک صفت علم ہےحضرت علی کو شہرعلم کادروازہ فرمایاگیا مگرشیخین کواس سے زیادہ مرتبہ عنایت ہواابوبکرصدیق کی نسبت سیدالرسل علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جوکچھ اللہ نے میرے سینے میں ڈالاتھاوہ میں نے ابوبکرکے سینے میں ڈال دیا اس سے معلوم ہواکہ ابوبکرصدیق بجائے خود شہرعلم تھے یاحضرت عمرنے جب خواب میں اپنے کوایک زرہ پہنے ہوئے دیکھا جوپیروں تک لٹکتی تھی تو سیدالانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ علم ہے معلوم ہوا کہ وہ سرتاپاعلم سے لبریز تھے اورمثلاً حضرت علی کومحب ومحبوب خداورسول فرمایاحضرت ابوبکرصدیق میں صلاحیت خلیل رسول اللہ ہونے کی بتائی اوربالفعل خلیل نہ بنانے کایہ عذر بیان فرمایاکہ اللہ کے سوااورکسی کوخلیل نہیں بناسکتا معلوم ہواابوبکر صدیق کی محبت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اس مرتبہ پر جاگزین تھی کہ اس سے زیادہ سوااللہ کی اورکسی سے محبت نہ تھی۔ اورمثلاً حدیث غدیرمیں علی مرتضیٰ کومسلمانوں کا مولیٰ فرمایاجس سے ان کی محبت کا وجوب ثابت ہوا ابوبکرصدیق کوبھی یہ مرتبہ عنایت ہوافرمایاارحم امتی بامتی ابوبکر یعنی ابوبکرمیری امت پر سب سے زیادہ مہربان ہیں حضرت علی کاواجب المحبتہ ہونا ان کے مولیٰ یعنی محب مسلمین ہونے سے ظاہرکیاگیااس طرح کاخیال حضرت صدیق کا واجب المحبتہ ہوناان کے ارحم الامتہ ہونے سے بیان فرمایاگیا۔
یامثلاًحدیث منزلت میں حضرت علی مرتضی میں مرتبہ ہارونی کی صلاحیت ارشادہوئی تو حضرت عمرفاروق میں نبوت مطلقہ کی استعداد بیان فرمائی گئی کہ لوکان بعدی لکان عمریعنی اگر میرےبعدکوئی نبی ہوتاتوعمرہوتے۔علاوہ اس کے آیات قرآنیہ سے جوفضائل شیخین کے ثابت ہوتے ہیں یاان کے افعال واحوال سے جورتبہ ان کا ظاہر ہوتاہے اس میں کسی اورکوان کے ساتھ نسبت ہی نہیں دی جاسکتی۔یہ بحث بہت طویل ہے اگرکسی کوزیادہ تحقیق منظورہوتوکتاب ازالتہ الخلفا وہ قرۃ العینین دیکھے۔
تیسرانکتہاحادیث فضائل میں کوئی بات ایسی نہیں جوبالانفراد حضرت علی کے مستحق خلافت ہونے پردلالت کرے ہاں مطلق استحقاق ضرورثابت ہوتاہے تواس قسم کا مطلق استحقاق نہ صرف خلفائے راشدین بلکہ ان کے علاوہ اورصحابہ کے لیے بھی احادیث سے ظاہرہوتاہے مثلا حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لیے طلحہ وزبیررضی اللہ عنہماکے لیے حضرت امین الامتہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے لیے مطلق استحقاق کامطلب یہ ہے کہ اگریہ حضرات خلیفہ بنائے جائیں تو ان کی خلافت حقہ وراشدہ ہوگی۔بنظر اختصار اس مقام پر اسی قدرلکھاجاتاہے۱۲۔
(اسد الغابۃ جلد بمبر 6-7)