حضرت علامہ مخدوم اللہ بخش عباسی
حضرت علامہ مخدوم اللہ بخش عباسی (تذکرہ / سوانح)
گوٹھ کھبڑا کے عباسی مخادیم خاندان کے چشم و چراغ علامہ مخدوم عطا محمد عرف اللہ بخش عباسی کا سلسلہ نسب کھبڑا کے مشہور و معروف ولی اللہ، عارف باللہ، فاضل یگانہ، عالم ربانی حضرت علامہ مخدوم عبدالرحمن شہید (سن ۱۱۴۵ھ) سے یوں مل رہا ہے: مخدوم عطا محمد مخدوم محمد عاقل عرف پیر محمد بن مخدوم عبدالخالق بن مخدوم محمد عاقل بن مخدوم احم دبن مخدوم عبدالرحمن شہید رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم
مخدوم اللہ بخش کی ولادت درگاہ مخادیم کھبڑا تحصیل گمبٹ خیر پور ریاست (سندھ) میں ہوئی۔ تاریخ ماہ و سن کا علم نہ ہوسکا۔ بچپن میں والد کا سایہ اٹھ گیا اور ساری ملکیت پر بھائی دین محمد عباس قابض ہوگئے۔ اسلئے مخدوم اللہ بخش نے بچپن میں سخت تکالیف اٹھائیں۔ معاشی مسئلہ نے بہت پریشان کر رکھا تھا۔
تعلیم و تربیت:
آپ کے والد مخدوم محمد عاقل نے شکار پور کے مشہور پٹھان خاندان کے سخی مرد مدد خان کے خاندان میں سے شادی کی تھی۔ اس خاتون کے بطن سے مخدوم اللہ بخش کو آپ کو آخری عمر میں تولد ہوئے۔ مخدوم محمد عاقل کے انتقال کے بعد مخدوم اللہ بخش کا پالنا پڑھانا اور نگہداشت کی ساری ذمہ داری آپ کی والدہ محترمہ کے ذمہ تھی۔ جنہوں نے جوانی شہزادیوں کی طرح گزاری تھی لیکن یہاں شوہر کے انتقال کے بعد بڑے بیٹے کے ظلم و ستم کی نشان بنی رہیں۔ بقیہ زندگی سخت تکالیف فقر و فاقہ میں گزری لیکن اس کے باجود بیٹے کی دینی تعلیم و تربیت سے غافل نہ رہیں۔
مخدوم اللہ بخش نے شروع میں درگاہ شریف مخادیم کھبڑا میں استاد العلماء حضرت مولانا غلام محمد مہیسر (کمال دیرے والے) کے ہاں تعلیم حاصل کی جو کہ ان دنوں وہاں مدرس مقرر تھے۔ بڑے بھائی دین محمد کے نہ چاہنے کے باجود مولاناصاحب نے سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے دوسرے گوٹھ میں جاکر دین محمد سے چھپ کر مخدوم اللہ بخش کوتعلیم دیتے رہے۔فقر و فاقہ، خاندانی اذیت و تکالیف کے سبب مخدوم اللہ بخش کاذہب بہت متاثر ہوا اسلئے ایک روز کھبڑا سے درگاہ بھرچونڈی شریف (ڈھرکی) پیدل گئے اور حضرت حافظ محمد صدیق قادری علیہ الرحمہ کوسارا ماجرا سناکر دعا کی درخواست کی۔ حضرت حافظ صاحب نہایت شفقت و پیار سے پیش آئے اور دعا اور توجہ سے نوازا۔
مخدوم اللہ بخش کے استاد حضرت علامہ غلام محمد مہیسر نے فرمایا کہ اس دعا کے بعد مخدوم اللہ بخش کے ذہن کی یہ کیفیت تھی کہ نسابی کتابوں میں جو بھی کتاب سامنے کھولتے تو محسوس ہوتا گویا وہ کتاب پہلے سے پڑھی ہوئی ہو۔ بہر حال مولانا مخدوم اللہ بخش جلد تیز رفتاری سے مروجہ درسی نصاب مکمل کرکے دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔
ملازمت:
بعد فراغت معاشی مسئلہ حل کرنے کیلئے ملازمت کیلئے سرگرداں رہے۔ درگاہ جیلانیہ رانی پور کے سجادہ نشین حضرت پیر سید ابو محمد صالح شاہ جیلانی علیہ الرحمۃ کے پاس منشی مقرر ہوئے۔ اس کے بعد خیر پور ریاست کے وزیر اعظم سردار محمد یعقوب خان کے حاضر منشی (Personal Assistant)مقرر ہوئے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ آپ کی علمی شہرت خیر پور ریاست میں ہونے لگی اور جلد ہی ریاست کے قانون کا امتحان (Higher Examination) پاس کیا ۔ اس کے بعد آپ کو تحصیل فیض گنج کاہیڈ منشی مقرر کیاگیا۔قانونی مہارت سے متاث رہو کر اس وقت کے وزیرشیخ صادق علی نے انہیں خیر ور کا ریزیڈنٹ مجسٹریٹ مقرر کیا۔ خیر پور کے مختلف مقامات پر ریزیڈنٹ مقرر ہونے کے بعد دکن رلیف ایکٹ کے مطابق ساری ریاست کے رلیف جج مقرر ہوئے۔ آخر میں میر امام بخش خان ٹالپر کے اسرار پر میر صاحب کے خصوصی میر منشی مقرر ہوئے، جس کے سبب ہمیشہ میر صاحب کے ساتھ گشت میں رہتے تھے۔
تصنیف و تالیف:
مخدوم اللہ بخش اگر چہ ساری زندگی نہایت اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے ۔ اس لئے عہدوں کے ذمہ داری کے سبب تصنیف و تالیف کا وقت کہا؟ لیکن اس کے باجود تھوڑا سا وقت نکال لیتے تھے اور تصنیف و تالیف سے غافل نہ رہے۔ سفرو حجر میں تحریری کام جاری رکھا۔ جو کتابیں دستیاب ہیں ان کا مختصر تعارف دج ذیل ہے۔
٭ تفسیر تسہیل القرآن (سندھی) تفسیر کے صرف چار پارے مکمل ہوسکے ۔ تین پارے شیخ علی محدم نو مسلم نے آپ کی زندگی میں شائع کر دئے تھے۔ چوتھا پارہ ’’لن تنالو البر‘‘ ابھی تک قلمی صورت میں ہے۔
٭ علم غیب رسول ﷺ کے اثبات سے متعلق ایک رسالہ پیر طریقت شمس العلماء حضرت پیر سید شاہ مردان شاہ راشدی المعروف پیر صاحب پاگارہ کوٹ دہنی علیہ الرحمۃ (۱۳۴۰ھ) کے حکم کے مطابق تحریر کیا۔ یہ سندھیزبان میں اپنے موضوع پر نہایت علمی و تحقیقی مقالہ ہے۔
مخدوم عبدالرحمن شہید اکیڈمی کھہڑا کے اراکین وک اللہ تعالیٰ ہمت عطا فرمائے تاکہ وہ اس رسالہ نایاب کی اشاعت کا اہتمام کر سکیں۔
٭ فوز الاخلاف بہ فیض الاسلاف عرف تذکرہ مخادیم کھہڑا (فارسی) سندھی ترجمہ مطبوعہ ہے۔
٭ منطق کی مشہور کتاب ’’ایسا غوجی‘‘ کی فارسی میں شرح رقم فرمائی
٭ فتاویٰ عطا محمد:
عربی فارسی اور سندھی میں علمی مسائل پر تحقیقی فتاویٰ اوررسائل تحریر فرمائے جو کہ ایک طرف ادبی شہہ پارے ہیں اور دوسری طرف روزمرہ کے مشائل کے بارے میں جامع و مانع تحقیق ہے۔
شاعری:
مخدوم اللہ بخش فارسی اردو اور سندھی زبان کے قادر الکلام شاعر اور ادیب تھے۔ اپنے دور میں خیر پور ریاست کے امیر الشعراء تھے۔ تخلص ’’عاصی‘‘ اختیار کیا۔ نعت غزل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کہے ہیں وہ سندھی، فارسی میں ہے۔ آپ نے ایک نعتیہ غزل لکھی جس میں فارسی، سندھی، اردو اور عربی چار زبانیں استعمال میں لائے ہیں۔ مخدوم امیر احمد امیر مرحوم نے اپنے مضمون میں مخدوم اللہ بخش کی شاعری کا نمونہ پیش کیا ہے۔
رافضی مجتہد سے مناظرہ:
ایک بار میر ریض محمد خان ٹالپر کے دربار قلعہ کوٹ ڈی جی (ضلع خیر پور) میں ایران سے ایک مجتہد صاحب آئے۔ اس کی چرب زبانی سن کر میر صاحب کو مناظرہ کا خیال پیدا ہوا۔ اسلئے مخدوم اللہ بخش کو خیر پور سے بلوا کر ایک محفل کا اہتمام کیا گیا۔ مخدوم صاحب نے فرمایا: امیر صاحب مناظرہ سے انکار نہیں لیکن امین کون ہوگا؟ میر صاحب نے اپنے سینہ پر ہاتھ مار کر کہا ’’میں‘‘ ہوں گا۔ بالآخر مجتہد صاحب نے خلفاء ثلاچہ رضی اللہ عنہم کے ایمان کے عدم جواز پر بات کرنا چاہی۔ اسی موضوع سے متعلق دونوں کی آپس میں بات چیت ہوئی۔ مخدوم صاحب نے اپنے موقوف کی دلیل میں قرآن پاک کی آیت :
لَا تَجِدْ قَوْماً یُوْ مِنّوْنَ بِاللہِ وَالْیَومِ الْاٰ خِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَادًا اللہَ و رَسُوْلَہٗ (پارہ ۲۸، المجادلۃ، آیت ۲۲)
ترجمہ: تم نہ پائو گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی۔
پڑھ کرخلفائے ثلاثہ کے ایمان اسلام پر اثبات میں فارسی زبان میں وہ مدلل و مفصل تقریر کی کہ خود میر صاحب جھوم رہے تھے اور زبان سے مرحبا مرحبا کہہ رہے تھے۔ جب مجتہد صاحب کی باری آئی تو فرمانے لگے: میں اپنی کتابیں سکھر رکھ کر آیا ہوں اجازت دیں تو وہاں سے لے کر آئوں پھر مناظرہ کریں گے۔
اسی وقت میر صاحب کی زبان سے بے ساختہ نکلا: ’’مجتہد صاحب! علم ہماں است کہ در جلد خویش علم ہماں نیست کہ درجلد میش‘‘
حکمت:
طب یونان کا علم باقاعدہ کسی استاد سے نہیں پڑھا تھا لیکن شکار پور کے نامور حاذق حکیم عالم و شاعر میر علی نواز عولی کی صحبت اور اپنے وسیع مطالعہ کی بنا پر علم طب میں مہارت تامہ حاصل کر لی تھی۔ ہر سال موسم گرما میں چھٹیاں لے کر شکار پور جاتے اور میر علی نواوز کے مہمان بنتے اور دو تین ہفتہ قیام کرتے تھے۔
عادات و خصائل:
مخدوم اللہ بخش عباسی نہایت بلند اخلاق، خوش طبع، شیریں زبان، مجلس کے میر، حافظہ کے ذہین و ذکاء تھے۔ یہاں تک عربی فارسی کتابوں کی عبارتیں بھی انہیں ازبر تھیں۔ عربی فارسی ادب، تفسیر، حدیث، فقہ اور دیگر مروجہ علوم کے ماہر اور ان پر کامل درسترس رکھتے تھے۔ صلہ رحمی کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ بہترین خوشنویس تھے، خوش بیاں واعظ تھے، درگاہ مخادیم گھہڑا کی جامع مسجد شریف میں ہر جمعہ کووعظ کرتے تھے اور آپ کا وعظ دور دراز وعلاقوں سے لوگ سننے آتے تھے۔
شادی و اولاد:
مخدوم اللہ بخش نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی شادی والدہ محترمہ نے اپنے خاندان میں سے کرائی تھی جس کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دوسری شادی حضرت ابو محمد صالح شاہ جیلانی نے اپنی مریدنی سے کرائی۔ اس کے بطن سے دو بیٹیاں تولد ہوئیں ایک لڑکی آپ کی زندگی میں انتقال کر گئی اور دوسری لڑکی صاحب اولا د ہوئی۔
احباب بزرگ و ہمعصر:
حافظ الملت حضرت حافظ محمد صدیق قادری قدس سرہ بانی درگاہ بھر چونڈی شریف کے آپ نہایت عقیدمند و معتقد خاص تھے جن کی دعائیں آپ کے علم و فضل و کامیاب زندگی میں شامل حال رہیں۔
٭ علامۃ الزمان، مفتی اعظم ہندو پاک علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی قدس سرہ سے نہایت عقید و محبت رکھتے تھے ، جو کہ صاحب الحضوری بزرگ تھے۔
٭ حضرت شمس العلماء پیر سید شاہ مردان شاہ اول پیر صاحب پگارہ سے بھی نہایت عقیدت رکھتے تھے۔
٭ مولانا حکیم میر علی نواز علوی
سجادہ نشین درگاہ علویہ ہاتھی گیٹ شکار پور
٭ مولانا سید شہاب الدین شاہ لکیاری ہالانی
٭ پیر رفیع الدین سرہندی شکار پور
٭ استاد الشعراء رئیس شمس الدین بلبل میہڑ
٭ پیر سید معشوق علی شاہ معشوق راشدی وغیرہ
وصال:
حضرت مخدوم اللہ بخش عباسی نے ۲، رجب المرجب ۱۳۳۵ھ/۱۹۱۷ء وک وصال کیا۔ درگاہ مکادیم کھہڑا (ضلع خیر پور میرس) کی جامع مسجد شریف کے احاطہ میں مزار مرجع خلائق ہے۔
(سہ ماہی مہران جامشورو سوانح نمبر ۱۹۵۷ئ)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)