سیّدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
سیّدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عامربن مالک بن کنابن قیس بن حصین بن وذیم بن ثعلبہ بن عوف بن حارثہ بن عامراکبر بن یام بن غسن بن مالک بن اودبن زیدبن یشحب مذحجی عنسی ۔کنیت ان کی ابوالیتفطان تھی۔یہ ان لوگوں میں ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اسلام کی طرف سبقت کی تھی۔قبیلہ بنی مخزوم کے حلیف تھے۔ان کی والد ہ سمیّہ تھیں اوروہ پہلی خاتون ہیں جو اللہ عزوجل کی راہ میں شہید کی گئیں۔یہ اور ان کے والداوران کی والدہ سب سابقین میں سےتھے۔حضرت عمارتیس سے کچھ زائدآدمیوں کے بعد اسلام لائے تھے۔یہ ان لوگوں میں سے ہیں کہ جواللہ کی راہ میں بےحدستائے گئے۔واقدی وغیرہ علماء نسب وتاریخ نےبیان کیاہے کہ حضرت عمارکے والد یاسرعرنی قحطانی مذحجی تھے جوقبیلہ عنس کی ایک شاخ ہے مگرحضرت عماربنی مخزوم کے غلام تھےوجہ اس کی یہ تھی کہ ان کے والد قبیلہ بنی مخزوم کے کسی شخص کی لونڈی سے نکاح کیاتھاحضرت عماراس سے پیداہوئے تھے(لہذااس لونڈی کے مالک نے ان کوبھی اپناغلام بنالیا)حضرت یاسر کے مکہ آنے کا سبب یہ ہوا کہ وہ اوران کے دو بھائی جن کا نام حارث اورمالک تھااپنے چوتھے گمشدہ بھائی کی تلاش میں نکلے(تلاش کرنے کے بعد) حارث اورمالک تویمن لوٹ گئے مگریاسرمکہ ہی میں رہ گئے اورانھوں نے ابوحذیفہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمربن مخزوم سے حلف کی دوستی کرلیاورانہی کی لونڈی سے نکاح کرلیاجن کا نام سمیّہ تھا حضرت عمار انہی سے پیداہوئے ان کے پیداہونے کے بعد ابوحذیفہ نے ان کوآزاد کردیااسی وجہ سے عماربنی مخزوم کے غلام کہے جاتےہیں مگردراصل ان کے والد قبیلہ عرنیہ سے تھےجیساکہ ہم بیان کرچکے۔حضرت عماراس وقت اسلام لائےتھے جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرمیں پوشیدہ تھےیہ اورصہیب بن سنان دونوں ایک ہی وقت میں اسلام لائے حضرت عماربیان کرتےہیں کہ میں نے صہیب بن سنان کوارقم کے دروازہ پردیکھااوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس گھرمیں تھے میں نے صہیب سے پوچھاکہ تم یہاں کیوں کھڑے ہوصہیب نے کہا تم کیوں آئے ہومیں نے کہامیں یہ چاہتاہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم کے )پاس جاؤں اوران کی باتیں سنوں صہیب نے کہا میں بھی یہی چاہتاہوں چنانچہ ہم دونوں سرداردوعالم کے حضور میں گئے آپ نے ہمیں اسلام کی ترغیب دی ہم فوراً اسلام لے آئے۔ان دونوں بزرگوں کا اسلام تیس سے کچھ زائد آدمیوں کے بعد ہواتھا۔یحییٰ بن معین نے اسمعیل بن محالہ سے انھوں نے محالہ ؟سےانھوں نے بیان سے انھوں نے دبرہ سے انھوں نے ہمام سے روایت کی ہے وہ کہتےتھے کہ میں نے حضرت عمارسے سناوہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو(آپ نے اسلام لانے کے بعد)دیکھاتوآپ کے ساتھ پانچ غلام اوردوعورتیں اورابوبکرصدیق تھے۔مجاہد نے بیان کیاہے کہ سب سےپہلے جن لوگوں نے اسلام کااظہارکیاوہ سات آدمی تھے( ۱)رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ( ۲)ابوبکر(۳)بلال(۴) خباب(۵)صہیب(۶)عمار(۷)عمارکی(بلنداقبال)والدہ سمیہ ان کی ہجرت حبشہ میں لوگوں نے اختلاف کیاہے۔اللہ کی راہ میں یہ بہت ستائے گئے ہمیں ابومحمد یعنی عبداللہ بن علی بن سویدۃ مکریتی نے اپنی سند کو ابواحسن یعنی علی بن احد بن متویہ تک پہنچاکراللہ عزوجل کے اس قول من کفر باللہ من بعد ایمانہ الامن کرہ وقلبہ مطمئن بالایمان کے متعلق خبردی کہ یہ آیت عمار بن یاسر کے حق میں نازل ہوئی ایک مرتبہ ان کومشرکوں نے پکڑکرمارناشروع کیااور کسی طرح نہ چھوڑا یہاں تک کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی۱؎ بیان کی اوران کے معبودوں کی تعریف کی اس وقت کافروں نے ان کوچھوڑدیا پھرجب وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئےتوآپ نے پوچھا کہ کیاخبرلائے ہوانھوں نے عرض کیایارسول اللہ بہت ہی بری خبر ہے میں اس وقت اس سبب سے زندہ بچ کرآیا کہ میں نے آپ کی برائی بیان کی اوران کے معبودوں کی تعریف کی حضرت نے پوچھاکہ تم اپنے دل کی کیاکیفیت پاتے ہو انھوں نے عرض کیاکہ دل تو ایمان پرقائم ہے حضرت نے فرمایاکچھ مضائقہ نہیں اگراب وہ ایساکرٰن توتم پھرایساہی کرنا۔ہمیں ابو جعفر یعنی عبیداللہ بن احمد نے اپنی سند یونس بن بکیرتک پہنچاکرخبردی وہ ابن اسحاق سے نقل کرتے تھےکہ انھوں نے کہاکہ مجھ سے عماربن یاسرکی اولاد میں سے چند لوگوں نے بیان کیاکہ حضرت عمار کی والدہ سمیہ کوبنی مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم کے لوگوں نے اسلام پر مارناشروع کیااوروہ کسی طرح اسلام سے انکار نہ کرتی تھیں یہاں تک کہ ان لوگوں نے ان کامارڈالا۔ایک مرتبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کاگذرعماراورانکی والدہ اوروالد کی طرف ہوا اوروہ لوگ مکہ کے مقام رمضہ میں مارے جارہےتھےحضرت نے فرمایا کہ اے آل یاسرصبرکروتمھارے آرام کی جگہ جنت ہے نیز ابو جعفر کہتےتھے کہ ہم سے یونس نے عبداللہ بن عون سے انھوں نے محمد بن سیرین سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ ایک مرتبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کاگذرعماربن یاسر کی طرف ہواوہ رو رہے تھے اوراپنی آنکھیں مل رہے تھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکہ کیاحال ہے کہ کافروں نے تمھیں پکڑکرپانی میں غوطہ دیااورتم نے ایساایساکہااگراب پھروہ ایساکریں توتم پھرایسے ہی کہہ دینانیزابوجعفر بیان کرتےتھے کہ ہم سے یونس نے ابن اسحاق سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتےتھےمجھ سے حکیم بن جبیرسے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے میں نےابن عباس سے پوچھا کہ کیامشرکین مسلمانوں کوایساستاتے تھے کہ مسلمان اپنے دین کے چھوڑدینے میں معذورسمجھے جاتےانہوں نے کہا اللہ کی قسم بہت مارتے تھے بھوکارکھتےتھےپیاسارکھتےتھےکہ اٹھکربیٹھنا بھی مشکل ہوجاتاتھا کہتےتھے کہ ہم جوکچھ چاہتےہیں اس کو منظورکرواورکہوکہ لات وعزی ہمارے معبود ہیں اللہ ہمارامعبود نہیں ہے جبن وہ ایساکہہ دیتے توچھوڑے جاتےتھے یہاں تک کہ اگرکوئی مزدور اس طرف سے نکلتا توکہتےکہ یہی تیرامعبودہے اللہ تیرامعبود نہیں جان بچانے کے لئے اس کابھی اقرارکرناپڑتاتھاحضرت عمارنے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی اوربدراوراحداورخندق اور بیعت الرضوان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے۔
۱؎ شیعہ مسئلہ تقیہ میں ایسے گھبراگئے ہیں اوراس مسئلہ کی شناخت جو بالکل کھلی ہوئی تھی مگران کو نظر نہ آتی تھی جب ان کو بتائی گئی توہرطرف سے لاچارہوکرکہنے لگے تقیہ خود سنیوں کے یہاں بھی جائز ہےاوراس جواز کے ثبوت میں آیہ کریمہالامن اکرہاوربعض صحابہ کاقتل مثل حضرت عماربن یاسر وغیرہ کے پیش کرتےہیں مگریہ دشمنان عقل ودین اتنا نہیں سمجھتےکہ مسئلہ تقیہ میں ہمارا اور ان کااختلاف کیاہے۔ہمارے یہاں تقیہ رخصت ہے اوران کے یہاں عزیمت اورعزیمت بھی اس درجہ کی کہ تمام فرائض سے اس کا درجہ بڑھاہواہےاس کے تارک پر خروج ازایمان کی وعید دوسرے یہ کہ یہاں رخصت کے مواضع متعین ان کے یہاں مواضع غیرمتعین بلکہ مبتلابہ کے رائے پرمفوض رخصت اورعزیمت میں جوفرق ہے وہ ہرشخص سمجھ سکتاہے۔رخصت کے فاعل کو کسی قسم کے ثواب کا استحقاق نہیں ہوتابرخلاف عزیمت کے اوررخصت پر عمل کرنا پیشوایان دین اورہادیان شرع متین کے لئے قطعاًناجائز چہ جائیکہ معصومین علیہم الصلوۃ والسلام کماتفوہت بہ الزنا دقہ۱۲منہ
عبیداللہ بن احمد بن علی نے اپنی اسناد کے ساتھ ہم کوخبردی انھوں نے یونس بن بکیرسے انھوں نے ابن اسحاق سے ان لوگوں کےناموں کی بابت روایت کی جوبنی مخزوم سے بدرمیں شہید ہوئے کہ ان میں عماربن یاسر بھی تھے ان لوگوں نے بیان کیاہے کہ عماربن یاسربدراوراحد وغیرہ میں شریک تھے۔ہمیں ابوالبرکات یعنی حسن بن محمد حسن دمشقی نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالعشائر یعنی محمد بن خلیل بن فارس نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں فقیہ ابوالقاسم یعنی علی بن محمد بن علی مصیصی نے خبر دی وہ کہتےتھے ہمیں ابومحمد یعنی عبدالرحمن بن عثمان بن قاسم بن ابی نصرنے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابوالحسن یعنی خیثمہ بن سلیمان بن حیدرہ طرابلسی نے خبردی وہ کہتےتھےہم سے ابراہیم بن ابی سفیان قتسرانی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمد بن یوسف نے غریانی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ثوری نے عبدالملک بن عمیرسے انھوں نے ربعی بن خراش کے غلام سے انھوں نے حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگومیرے بعد ابوبکروعمرکی اقتداکرواورعمارکی روش سیکھو اورابن ام عبد (یعنی عبداللہ ابن مسعود) کے حکم پر عمل کروہمیں ابویاسر بن ابی حبہ نے اپنی سند عبداللہ بن احمد بن حنبل تک پہنچاکر خبردی وہ کہتےتھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے یزید ابن ہارون نے بیان کیا وہ کہتےتھےہم سے عوام بن حوشب نے سلمہ بن کہیل سے انھوں نے علقمہ سے انھوں نے حضرت خالد بن ولیدسے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ میرے اورعمارکے درمیان میں کچھ گفتگوہوئی میں نے ان کوکوئی سخت بات کہی پھرعمارنے میری شکایت کرنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئےاس کے بعد میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں گیااس وقت میری شکایت کر رہے تھے وہاں بھی میں نے ان کو کچھ سخت باتیں کہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم چپ بیٹھے ہوئےتھے کچھ نہیں بولتےتھےعماررونےلگے اورعرض کیایارسول اللہ آپ خالد کی حالت نہیں دیکھتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سراٹھایااورفرمایاجو شخص عمارسے دشمنی رکھے اللہ اس سے دشمنی رکھے جو شخص عمارسے بغض رکھتاہو اللہ اس کو اپنامبغوض بنادے حضرت خالد کہتےتھے اس وقت مجھے دنیا میں اس بات سے زیادہ سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہ تھی کہ کسی طرح عمارمجھ سے راضی ہوجائیں چنانچہ میں وہاں سے نکل کرعمارسے ملا(اوران سے معافی مانگی)وہ راضی ہوگئے۔
ہمیں عبداللہ بن احمد نے خبردی وہ کہتےتھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے وکیع نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے سفیان نے ابواسحاق سے انھوں نے ہانی بن ہانی سے انھوں نے حضرت علی سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتے تھے کہ عمار(ایک مرتبہ)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اند رآنے کی اجازت مانگی حضرت نے ان کو یہ الفاظ کہہ کراجازت دی مرحبا بالطیب المطیب (ترجمہ جگہ بہت کشادہ ہے اس پاک اورپاکیزہ کے لیے)ہمیں ابراہیم بن محمد وغیرہ نے اپنی سند ابوعیسیٰ ترمذی تک پہنچاکرخبردی وہ کہتےتھے ہم سے قاسم بن دینارکوفی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے عبدالعزیز بن سیاہ سے انھوں نے حبیب بن ابی ثابت سے انھوں نے عطا بن یسارسے انھوں نے عائشہ صدیقہ سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ عمارکے سامنے جب کبھی دوباتیں پیش کی جاتی ہیں تووہ اسی بات کواختیارکرتے ہیں جس میں رشد(ہدایت)زیادہ ہو۔نیز محمد بن ابراہیم کہتےتھے ہم سے ترمذی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابومصعب مدینی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عبدالعزیز بن محمد بن علاء بن عبدالرحمن سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کرکے بیان کیاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اے عمارخوش ہوتم کوگروہ باغی قتل کرے گااسی مضمون کی روایت حضرت ام سلمہ سے اورعبداللہ بن عمربن عاص سے اورحذیفہ سے مروی ہے اورشعبہ نے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمار سے کہاکہ اے کنکٹے غلام؟ حضرت عمارنے کہا میرے کان کی خبراس قدر مشہورہوگئی۔شعبہ نے بیان کیاہے کہ حضرت عمار کا کان رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی غزوہ میں کٹ گیاتھا مگریہ شعبہ کی غلطی ہے صحیح یہ کہ کان ان کاجنگ یمامہ میں(بعہدحضرت صدیق)شہیدہواتھا۔
(اسد الغابۃ جلد بمبر 6-7)