سیدنا) انس (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) انس (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
خادم رسول خدا ﷺ
ابن مالک بن نضر بن ضمضم بن زید بن صرام بن جندب بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار۔ نجار کا نام تیم اللہ بن ُلبہ بن عمرو بن خزرج بن
حارثہ ہے۔ انصاری ہیں خزرجی ہیں نجاری ہیں قبیلہ بنی عدی بن نجار ہے۔ رسول خدا ﷺ کے خادم ہیں اور اسی نام سے اپنے کو نامزد کرتے تھے ور اس پر فخر کیا کرتے تھے۔ یہ انس اور عبدالمطلب کی والدہ جو نبی ﷺ کی پردادی تھیں جن کا نام سلمی بنت عمرو بن زید بن اسد بن خداشبن عامر ہے عامر بن غنم میں جا کے مل جاتے ہیں۔ کنیت ان کی ابو حمزہ تھی یہ کنیت ان کی نبی ﷺ نے رکھی تھی حمزہ نام ایک ترکاری کا ہے یہ اس کو نہ کھاتے تھے۔ ان کی والدہ ام سلیم بنت ملحان ہیں ان کا نسب ان کے نام میں بیان ہوگا۔ حضرت انس زرد خضاب لگایا کرتے تھے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ مہندی کا خضاب لگاتے تھے اور بعض لوگ کہتے ہیں ورس (٭ورس ایک قسم کی خوشبودار گھاس ہے) کا۔ اور اپنی دونوں کہنیوںمیں خلوق (٭خلوق ایک قسم کا اوپٹن ہوتا ہے سپیدی کا عیب چھپانیکے لئے اس کو لگاتے تھے) لگایا کرتے تھے اس سبب سے کہ ان کی کہنیوں میں کچھ سپیدی تھی۔ حضرت انس کے گیسو بڑھے ہوئے رہتے تھے ایک مرتبہ انھوں نے اردہ کیا کہ ان کو کاٹ ڈالیں تو انکی والدہ نے انھیں منع کیا اور کہا کہ ان بالوں کو نبی ﷺ پکڑا کرتے تھے۔ نبی ﷺ حضرت انس سے کبھی مذاق بھیکرتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ آپنے فمرایا تھا کہ اے دوکان والے۔ محمد بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں مجھ سے میرے والد نے حضرت انس بن مالک کے غلام سے نقل کر کے بیان کیا کہ انھوں نے حضرت انس سے پوچھا کہ کیا آپ بدر میں رسول خدا ﷺکے ہمراہ تھے حضرت انس نے کہا کہ تیری ماں نر ہے میں بدرک و چھوڑ کے کہاں چلا جاتا۔ محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت انس بدر میں رسول خد ﷺ کے ہمراہ گئے تھے یہ اس زمانے میں بچے تھے حضرت کی خدمت کیا کرتے تھے۔ جب نبی ﷺ مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے اس وقت ان کی عمر نو برس کی تھی اور بعض لوگ کہتے ہیں آٹھ برس کی۔ اور زہری نے حضرت انس سے رویتکی ہے کہ جب نبی ﷺ مدینہ میں تشریف ائے و میں دس برس کا تھا اور جب آپ کی وفات ہوئی تو میں بیس برس کا تھا۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انھوں نے دس برس رسول خدا ﷺ کی خدمت کی اور بعض لوگ کہتے ہیں آٹھ برس آپ کی خدمتکی اور بعض لوگ کہتے ہیں سات بر۔ ہمیں اسماعیل بن عبید اللہ اور بوجعفر اور ابرہم بن محمد نے اپنی اسناد سے ابو عیسی (ترمذی) تک خبر دی کہ وہ کہتے تھے م سے محمود بن غیلان نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ابودائود نے ابو خلدہ سے نقل کر کے خبر دی کہ انھوں نے کہا میں نے ابو العالیہس ے پوچھا کہ کیا انس نے نبی ﷺ سے حدیث سنی ہے انھوںنے کہا کہ انس نے دس برس حضرت کی خدمتکی اور نبی ﷺنے انھیں دعا دی تھی ور (اس دعا کا یہ اثر تھا کہ) انکا ایک باغ تھا جو سال میں دو مرتبہ پھلتا تھا اور اس کے پھلوں میں مشک کی سی خوشبو آتی تھی۔ ابو خلدہ کانام خالد بن دینار ہے انھوں نے حضرت انس بن مالک کو دیکھا ہے۔ اور ہمیں ابو حفص عمر بن محمد بن معمر بن طبرزد بغدادی وغیرہ نے خبر دی وہ کہتے تھے کہ ہمیں ابو القاسم ہبۃ اللہ بن عبدالواحد نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو طالب محمد بن محمد بن غیان نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیںابوبکر محمد بن عبداللہ بن ابرہایم نے خبر دیوہ کہتے تھے ہمیں عبید اللہ بن مسلمہ بن قضب نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں سلمہ بن وردان نے خبر دی وہ کہتے تھے میں نے حضرت انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ منبرکے ایک زینہ پر چڑھے اور فرمایا کہ آمیں۔ عرض کیا گیا کہ حضرت کس بات پر آمیں کہہ رہے ہیں آپ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل آئے ور انھوں نے کہا کہ اس شخص کی ناک خاک میں رگڑ دی جائے جسکو رمضان کا مہینہ ملے اور اس کے گناہ بخش دیے اجئیں آپ بھی آمیں کہیے (لہذا میں نے آمیں کہی) اور ابن ابی ذیب نے اسحاق ابن یزید سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا میں نے حضرت انس بن مالک کو دیکھا کہ ان
کے گلے میں مہر دی ہوئی تھی یہ مہر حجاج نے بغرض توہیں دی تھی۔ حجاج نے تمام صحابہ کے گردنوں پر مہر دے دی تھی اس کا سبب ہم نے سہل بن سعد ساعدی کے تذکرے میں بیان کیا ہے حضرت انس نے رسول خدا ﷺ سے بہت روایت کی ہے۔ ان سے ابن سیرین اور حمید طویل اور ثابت بنانی ور قتادہ اور حسن بصری اور زہری اور بہت سے لوگوںنے روایت کی ہے۔ ان کے پاس رسول خدا ﷺ کا ایک عصا تھا جب ان کا انتقال ہوا تو انھوں نے وصیت کی کہ وہ عصا بھی ان کے ہمراہ دفن کر دیا جائے چنانچہ وہ عصا ان کے پہلو اور کرتہ کے درمیان میں رکھ دیا گیا ہمیں ابو یاسر عبدالوہاب بن ہبۃ اللہ نے اپنی اسناد سے عبداللہ بن احمد تک خبر دیوہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم کو یزید نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں حمید طویل نے حضرت انس بن مالک سے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے کہ (میری والدہ) ام سلیم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے رسول خدا ﷺ کے پاس لے گئیں اور کہا کہ یارسول اللہ یہ میرا بیٹا ہے ور یہ لکھنا بھی جانتا ہے (اسے آپ اپنی خدمت میں رکھیے) حضرت انس کہتے تھے کہ بچہ میں آپ کی خدمت میں نو برس رہا جو کام میں نے کر دیا آپ نے کبھی مجھ سے نہیں فرمایا کہ تم نے برا کام کیا۔ انھیں رسول خدا ﷺ کثرت مال و اولاد کی دعا دی تھی چناچہ ان کی پشت سے اسی بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک حفصہ تھیں اور دوسری ام عمرو جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے لڑکے اور لڑکوںکے لڑکے ایکسو بس تھے اور بعض لوگ کہتے ہیں قریب سو کے۔ ان کی انگوٹھی (٭غالب واقعہ اس سے پہلے کا ہوگا تصویر کی حرمت شڑیعت میں وارد ہے) میں ایک بیٹھے ہوئے شیر کی تصویر تھی یہ اپنے دانتوں کو سونیکے تاروں سے باندھتے تھے اور بڑے قادر تیرا انداز تھے اپنے بیٹوںکو بھی حکم دیتے تھے کہ میرے سامنے تیر اندزی کرو کبھی خود بھی ان کے ساتھ تیر اندازی کرتے تھے اور ان کا یہ اکثر نشانہ پر لگتا تھا اس وجہس ے غالب آجاتے تھے خزکا لباس پہنتے تھے اور سیکا عمامہ باندھتے تھے۔ ان کی وفات کے وقت میں اور ان کی عمر میں لوگوں کا ختلاف ہے بعض لوگ کہتے ہیں سن۹۱ھ میں وفات پائی اور بعض لوگ کہتے ہیں سن۹۲ھ میں اور بعض لوگ کہتے ہیں سن۹۰ھ میں بعض لوگ کہتے ہیں ان کی عمر ایک سو تریسٹھ برس کی تھی اور بعض لوگ کہتے ہیں ایک سو دس برس کی اور بعض لوگ کہتے ہیں ایک سو سات برس اور بعض لوگ کہتے ہیں نوے سے کچھ اوپر حمید کہتے ہیں کہ حضرت انس کی جب وفات ہوئی تو ان کی عمر ننانوے برس کی تھی اور بعض لوگوں نے جو کہا ہے کہ ایک سو دس برس یا ایک سو سات برس میرے نزدیک اس میں اعتراض ہے کیوںکہ ہجرت کے وقت زیادہ سے زیادہ ان کیعمر دس برس بتائی گئی ہے اور ان کی وفات زیادہ سے زیادہ سن۹۳ھ میں بتائی جاتی ہے اس حسابس ے ان کیعمر ایک سو تین برس ہوتی ہے اور جن لوگوںنے ہجرت کے وقت ان کی عمر سات یا آٹھ برس بتائی ہے ان کے نزدیک ان کی عمر بہت کم ہو جائے گی واللہ اعلم۔ بصرہ میں تمام صحابہ کے آخر میں ان کی وفات ہوئی۔ انھوں نے اپنے محل میں جو مقام طف میں تھا وفات پائی اور بصرہ سے دو فرسخ پر وہیں مدفون ہوئے ان کی نماز قطن بن مدرک نے پڑھائی ۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)