سیدنا) انس (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) انس (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
بن ابی مرتذ غنوی انصاری۔ کنیت ان کی ابو یزیہ۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے ایسا ہی لکھا ہے۔ مگر یہ انصاری نہیں ہیں غنوی ہیں حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے اور ان سے حلف کی دوستی تھی۔ ابو مرتذ کا نام کناز بن حصین بن یربوع بن طریف بن خرشہ بن عبید بن سعد بن عوف بن کعب بن جلان بن غنم بن غنی بن اعصر بن سعد بن قیس غیلان بن مضر ہے۔ اور اعصر کا نام منبہ ہے ان کا لقب دغان ہے لوگ کہتے ہیں کہ باہلہ اور غنی یہ دونوں دخان کے بیٹے تھے۔ ان کو دخان اس سبب سے کہتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں عرب کے کسی بادشاہ نے ان پر تاخت کی پھر وہ اپنے لشکر کو یل کے پہاڑ کے ایک کہوہ میں جا کے ٹھیرا تو قبیلہ بنی معد کے لوگ اس کے پیچھے پیچھے گئے اور منبہ نے ان کی طرف دہوان کرنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ مرگئے اسی سبب سے ان کو دخان کہتے ہیں۔ اور اعصر ان کے ایک شعر کے سببس ے کہتے ہیں وہ شعر یہ ہے۔
قالت عمیرۃ المراسک بعد ما فقد الشباب اتی بلون منکر اعمیران اباک گیر راسہ مرا اللیالی و اختلاف الاعصر
(٭ترجمہ۔ عمیرہ (میری لڑکی) کہتی ہے کہ تیرے سر کی کیا کیفیت ہے شباب کے جانب کے بعد کیا برا رنگ اس نے پیدا کیا ہے اے عمیر تیرے باپ کے سر کو شب روز کے گزرنے اور اختلاف زمانہ نے متغیر کر دیا ہے)
یہ انس اور ان کے والد دونوں صحابی ہیں ان دونوں کے عمر میں بیس برس کا اختلاف تھا۔ ہمیں ابو احمد عبدالوہاب ابن علی امیں نے اپنی سند سے ابودائود سجستالی تک خبر دی وہ کہتے تدے ہم سے ابو توبہ ربیع بن نافع نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں معاویہ بن حلام نے یزید بن سلام سے نقل کر کے خبر دی کہ انھوں نے ابو سلامس ے سنا وہ کہتے تھے ہم سے سلوی یعنی ابو کبشہ نے بیان کیا ان سے سہل بن حنظلہ نے بیان کیا کہ صہابہ رسول خدا ﷺ کے ہمراہ حنین کے دن جارہے تھے بہت دیر تک چلتے رہے یہاں تک کہ دوپہر ہوگئی اور نماز ظہر کا وقت آگیا اتنے میں ایک شخص گھوڑے پر وار رسول خدا ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یارسول اللہ میں نے آگے جاکر فلاں پہاڑ پر چڑھ کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ اپنے باپ دادا کے اونٹوں پر سوار اور تمام اپنی مال متاع ور بکریاں لیے ہوئے مقام حنین میں آگئے یں یہ سنکے
رسول خدا ﷺ مسکرائے اور فرمایا کہ انشاء اللہ تعالی یہ سب چیزیں کل مسلمانوںکو غنیمت میں ملے گی۔ بعد اس کے آپ نے فرمایا کہ آج سب کو ہماری پاسبانی کون کرے گا انس بن ابی مرتذ غنوی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں آپ نے فرمایا تو سوار ہو کے آجائو چنانچہ وہ اپنے ایک گھوڑے پر سوار ہو کے نبی ﷺ کے پاس آئے ان سے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ اس درہ کے سامنے چلے جائو یہاں تک کہ اس کے اوپر چڑھ جانا اور رات کی وجہ سے دھوکہ نہ کھانا جب صبح ہوئی تو رسول خدا ﷺ باہر تشریف لائے اور اپ نے دو رکعت نماز پڑھی بعد اس کے فرمایا کہ تمہیں اپنے سوار کی کچھ حالت معلوم ہے صحابہ نے عرض کیا کہ ہمیں ان کی حالت کچھ بھی نہیں معلوم پھر نماز کی تکبیر کہی گئی اور رسول خدا ﷺ نماز پڑھنے لگے اور اس درے کی طرف دیکھتے جاتے تھے یہاں تک کہ جب رسول خدا ﷺ نماز پڑھ چکے تو فرمایا کہ خوش ہو جائو تمہارا سوار آگیا (صحابہ کہتے ہیں کہ) ہم لوگ اس درے کے درختوںکی طرف دیکھنے لگے تو دیکھا کہ وہ آرہے ہیں یہاں تک کہ رسول خدا ﷺ کے پاس آکے کھڑے ہوگئے اور کہا کہ میں اس درے کے اوپر جہان مجھے رسول خدا ﷺ نے حکم دیا تھا چڑھ گیا تھا صبح کو میں نے دونوں دروںکو دیکھا میں نے کسی کو نہیں پایا۔ رسول خدا ﷺ نے پوچھا کہ آج شبکو تم اپنیس وری سے اترے تھے یا نہیں انس نے کہا کہ نہیں لیکن نماز پڑھنے کے لئے یا قضا سے حاجت کے واسطے پس رسول خدا ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم نے (جنت اپنے اوپر) واجب کر لی اب اس کے بعد اگر تم کوئی عبادت نہ کرو تو کچھ حرج نہیں اس حدیث کو احمد بن خلید حلبی نے ور ابو حاتم رازی ابو توبہ سے اسی کے مثل نقل کیا ہے۔ ابو عمر نے ان کا تذکرہ انیس کے بیان میں کیا ہے ور انھوں نے ان کو مرتذ بن ابی مرتذ غنوی لکھا ہے ور کہا ہے کہ لوگ ان کو انس بھی کہتیہیں مگر انیس ہی زیادہ مشہور ہے مگر حدیث مذکور ابوعمر کے اس قول کی تردید کرتی ہے اور اس کی بحث انشاء اللہ ہم انیس ے نام میں کریں گے۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ ور ابو نعیم نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)