ابن فضالہ۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ یہ فضالہ بیٹیہیں عدی بن حرام بن ہشیم بن ظفر انصاری ظفری کے رسول خدا ﷺ نے ان کو اور ان کے بھائی مونس کو بھیجا تھا جب آپکو قریش کے جنگ احد میں آنے کی خبر ملی چنانچہ یہ دونوں گئے اور مقام عقیق میں کفار قریش ے ملے پھر رسول خدا ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ سے سب کیفیت ان کی اور ان کی تعداد اور ان کے فروکش ہونیکا حال بیان کیا۔ یہ دونوں جنگ احد میں حضرت کے ساتھ شریک ہوئے۔ انس بن فضالہ کی اولاد میں یونس بن محمد ظفری ہیں جو مقام صفرا میں رہتے تھے۔ ابن مندو اور ابو نعیم نے اپنی استاد سے محمد بن انس سے انھو ںنے اپنے والد ے رویت کی ہے کہ نبی ﷺ بنی ذبیان کے وترے میں تشریف لے گئے۔ اور ان دونوں نے یعقوب ابن محمد زہری کی حدیث بھی ذکر کی ہے جو ادریس بن مہمد بن یونس بن محمد بن انس بن فضالہ ظفری سے مروی ہے وہ کہتے تھے مجھ ے میرے دادا یونس بن ٌہدم نے اپنے والد سے نقل کر کے بیان کیا وہ کہتے تھے کہ رسول خدا ﷺ جب مدینہ میں تشریف لائے تو میں دف ہفتہ کا تھا مجھے لوگ آپکے پاس لے گئے آپنے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لئے برکت کی دعا مانگی اور فرمایا کہ میرے نام پر اس کا نام رکھ دو مگر میری کنیت پر اس کی کنیت نہ رکھنا۔وہ کہتے تھے کہ حجۃ الوداع میں مجھے بھی لوگ حضرت کے ساتھ حج میں لے گئے تھے اس وقت میں دس برس کا تھا اور میرے بال بڑھے ہوئے تھے۔ ان کی عمر بہت ہوئی کہ ان کے سر اور داڑھی کے بال سپید ہوگئے تھے مگر رسول خدا ﷺ نے جس مقام پر ہاتھ پھیرا تھا وہ مقام سپید نہیں ہوا۔ ابو نعیم نے لکھا ہے کہ بعض وہم کرنے والوں یعنی ابن مندہ نے انس بن فضالہ کے تذکرے میں اس حدیث کو برویت یعقوب زہری روایت کیا ہے بعد اس کے کہ وہ اسی حدیث کو محمد بن انس بن فضالہ کے تذکرے میں لکھ چکے تھے۔ ابو نعیم نے صحیح لکھاہے بے سک ابن مندہ نے س حدیث کو انس کے تذکے میں بھی لکھاہے اور پھر اسی حدیث کو محمد بن انس کے تذکرے میں بھی لکھا ہے۔ واللہ اعلم۔ ان کا تذکرہ تینوںنے لکھا ہے۔ اور ابن مندہ نے لکھاہے کہ انس ابن فضالہ جنگ احد میں شہید ہوئے پھر ان کے بیٹے محمد نبی ﷺ کے پاس لائے گئے تو آپنے انھیں کچھ درخت چھوہارے کے اس شرط پر دیے کہ وہ بچے نہ جائیں اور نہ کسی کو ہبہ کیے جائیں۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)