سیّدناعقیل ابن ابی طالب
سیّدناعقیل ابن ابی طالب (تذکرہ / سوانح)
یعنی عبدمناف بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف قریشی ہاشمی ہیں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاداورعلی اورجعفرکے علاقی بھائی تھےیہ اپنے دونوں بھائیوں سے بڑےتھے چنانچہ جعفرسےدس برس بڑےتھےاورجعفر علی سے دس برس بڑے تھے۔اس کو محمد بن سعدوغیرہ نے کہاہےانک کنیت ابویزیدتھی ان کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھیں ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ میں تم کو بسبب دومحبتوں کے بہت زیادہ محبوبو رکھتاہوں ایک تو حب قرابت کی وجہ سے دوسرے یہ کہ تم سے اپنے چچاکی محبت کا میں زیادہ عالم ہوں۔عقیل ان لوگوں میں ہیں جوکہ مشرکین کے ساتھ غزوۂ بدرمیں جبراشریک تھے پس یہ اسی روزقید کرلیےگئے ان کے پاس کچھ مال نہ تھاتوان کے چچاعباس نے ان کافدیہ دیاتھا۔پھرواقعہ حدیبیہ کے قبل مسلمان ہوکرآگئےتھے اور۸ھہجری میں انھوں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی تھی۔اور غزوۂ موتہ میں شریک تھےپھروہاں سے لوٹ آئےپھران کوایک مرض لاحق ہوگیاچنانچہ فتح مکہ اور حنین اورطائف میں ان کا تذکرہ نہیں سناگیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خیبرمیں ہرسال کے لیے ایک سوچالیس وسق عنایت کیےتھےبعض لوگوں نے کہاہےکہ حنین کے واقعہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ ثابت قدموں سے تھے یہ جواب بہت جلددیتےتھے کہ جس سے دشمن چپ رہ جاتاتھا۔ان کی ذات میں بہت سی خصلتیں نیک تھیں جن کے ذکرسے ہم طول نہ دیں گے اورقریش کے نسب اوروقائع کوقریش سے بہت زیادہ جانتےتھے مگرقریش ان سے دشمنی رکھتےتھے کیوں کہ یہ ان کی برائیوں کاشماررکھتےتھے اوران کے پا ایک بوریاتھاوہ ان کے واسطے رسول خداکی مسجد میں بچھادیاجاتاتھا۔لوگ نسب اورواقعات عرب کے علم میں ان کے پاس جمع ہوتےتھے اور معائب قریش کے ذکرکی کثرت کرتےتھےاسی سبب سے ان لوگوں نے ان کودشمن سمجھااوران کے حق میں غلط باتیں کہیں اوران لوگوں نے ان کواس بابت احمق کی طرف منسوب کیا اوران کے اوپر جھوٹے بیان کاافتراباندھااوران باتوں کاموقع بوجہ اس کے کہ یہ حضرت علی سے جداہوگئے زیادہ ملااوریہ حضرت معاویہ کے پاس شام چلےگئےتھے۔بعض لوگوں نے کہاہے کہ حضرت معاویہ نے ان کے واسطے ایک روزکہاکہ یہ ابویزیداگرنہ جانتے کہ میں بہترہوں ان کے لیے ان کے بھائی سےتوہمارے پاس نہ رہتے۔توعقیل نے کہا کہ میرابھائی حالت دینی میں میرے واسطے بہترہے اور تم دنیا میں میرے واسطے بہترہودنیامیری بہترہوگئی اوراللہ سے بذریعہ اس کے احسان کے خیریت خاتمہ کوچاہتاہوں یہ حضرت معاویہ کے پاس اس وجہ سے گئےتھےکہ وہ ان کی خالہ فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ کے شوہرتھے اورہم کوابومحمد بن ابی القاسم دمشقی نے کتابتہً خبردی وہ کہتےتھے ہم کو ہمارے والدنے خبردی وہ کہتےتھے میں نے اپنے والد محمد بن عبداللہ بن اسد بن عمارسے پڑھا انھوں نے عبدالعزیز بن احمد سے نقل کی وہ کہتےتھے ہمیں عبدالوہاب بن جعفر بن علی نے خبردی اورمیں نے ان کی تحریرسے نقل کیاوہ کہتےتھے مجھ سے احمد بن علی بن عبداللہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے محمد بن سعید عوصی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حافظ محمود بن محمد نےبیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے عبیداللہ بن محمد نے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے محمدبن حسان ضبی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ہشیم بن عدی نے بیان کیاوہ کہتےتھے مجھ سے عبداللہ بن عباس مرہبی اوراسحاق بن سعد نے اپنے والد سے نقل کرکے بیان کیاکہ عقیل بن ابی طالب مقروض ہوگئے توعلی بن ابی طالب کے پاس کوفہ میں آئےتوانھوں نے ان کواتارا اوراپنے بیٹے حسن کوحکم دیا(کہ ان کو کپڑے پہنادیں)پس انھوں نے ان کوکپڑے پہنائے جب شام ہوئی توانھوں نے ان کو شب کھانے کے واسطے بلایاکہ وہ روٹی اور نمک اورترکاری تھی۔پس عقیل نے کہا کہ جس کو میں خیال کرتاہوںوہی ہے حضرت علی نے کہا نہیں توعقیل نے کہاکہ آپ میراقرض اداکردیجیےحضرت علی نےکہاکہ تمھاراقرض کس قدر ہے انھوں نے کہاچالیس ہزار حضرت علی نے کہاکہ اس قدر میرےپاس نہیں ہےلیکن اس وقت تم صبر کروکہ مجھ کو جوچارہزاروظیفہ ملتاہے وہ مل جائے تومیں تم کودے دوں توعقیل نے ان سے کہاکہ بیت المال کے تم مالک ہو اورتم مجھ کو اپنے وظیفہ کی بابت تاخیر میں ڈالتےہوحضرت علی نے کہاکیا تم مجھ کو حکم دیتے ہو کہ مسلمانوں کامال تمھیں دے دوں حالاں کہ انھوں نےمجھ کوامین بنایاہے۔ عقیل نے کہامجھ کومعاویہ کے پاس جانےکی اجازت ہے حضرت نے اجازت دی اوریہ معاویہ کے پاس چلے آئے حضرت معاویہ نے ان سے کہاکہ اے ابویزید تم نے علی اوران کے اصحاب کوکیوں چھوڑدیاانھوں نے کہاہاں وہ لوگ اصحاب محمد ہیں صرف ان میں رسول خداصلی اللہ وسلم کو نہیں دیکھتاہوں اورتم ہواورتمھارے اصحاب ابوسفیان اوران کے اصحاب لیکن میں تمھارے درمیان میں ابوسفیان کونہیں دیکھتاہوں جب دوسرے دن صبح ہوئی تومعاویہ اپنے تخت پربیٹھے اوران کو تخت کے پہلومیں کرسی پربیٹھنے کاحکم دیا۔پھرتمام لوگوں کو(آنےکا)حکم دیالوگ آناشروع ہوئے اور ضحاک بن عقیل ان کے ساتھ ان کے تخت پربیٹھے پھرانھوں نے عقیل کواذن دیاوہ بھی ان کے پاس آئے اورکہااے معاویہ یہ تمھارے ساتھ کون ہیں معاویہ نے کہا ضحاک بن قیس ہیں عقیل نے کہا الحمدللہ جس نے کمینگی کودورکیااورعیب کوپوراکیایہ وہ شخص ہے کہ جس کا باپ ہمارے مویشیوں کو مقام ابطح میں خصی کیاکرتاتھا اس فن میں وہ خوب مہارت رکھتاتھاضحاک نے کہابیشک میں قریش کی خوبیوں کاعالم ہوں اورعقیل قریش کے مصائب کے۔حضرت معاویہ نے ان کوپچاس ہزاردرہم دینے کاحکم دیاچنانچہ انھوں نے لے لیے اورلوٹ آئے ۔ہشام بن محمدبن سائب کلبی نے اپنےوالد سے انھوں نے ابوصالح سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا قریش میں چارشخص ایسے تھے کہ لوگ ان کے پاس جاتے اوران کوحکم بناتےتھے۱)ایک عقیل بن ابی طالب۲)دوسرےمحزمہ بن نوفل زہری۳)تیسرےابوجہم بن حذیفہ عدوی ۴)چوتھے حویطب بن عبدالعزیٰ عامری ان میں سے تین آدمی قریش کے محاسن بیان کرتے تھےجب کوئی ان میں سے زیادہ محاسن بیان کرتا تو لوگ دوسرے شخص کے پاس جاتےتھے اورعقیل قریش کی برائیاں بیان کرتےتھے پس جس شخص میں برائیاں زیادہ ہوتی تووہ کہتاکاش میں ان کے پاس نہ آتاانھوں نے میرے ایسے معائب بیان کردیے جولوگ نہ جانتےتھے۔
حضرت عقیل سے ان کے بیٹے محمد نے اور حسن بصری وغیرہمانے روایت کی ہےمگر ان کی روایت سے بہت کم حدیثیں ہیں ہمیں عبدالوہاب بن ہبتہ اللہ بن ابی حبہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمد سے نقل کرکےخبردی وہ کہتےتھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیاوہ کہتےتھےمجھ سے حکم بن نافع نے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ ہم سے اسمعیل بن عیاش نے سالم ابن عبداللہ سے انھوں نے عبداللہ بن محمد بن عقیل سے روایت کرکےبیان کیاوہ کہتےتھے کہ عقیل بن ابی طالب نے نکاح کیاپھرجب ہمارے پاس آئے توہم نے (بطورتہنیت کے)کہاکہ بیٹے بیٹیاں تمھاری کثرت سے ہوں انھوں نے کہا یہ نہ کہونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایاہے اورفرمایاہے کہ کہواللہ تمھارے لیے برکت دے اورتم پربرکت نازل کرے اورتمھارے لیے اس بی بی میں برکت دے۔حضرت عقیل کی وفات حضرت معاویہ کی خلافت میں ہوئی۔ان کا تذکرہ تینوں نےلکھاہے۔
(اُسد الغابۃ ۔جلد ۷،۶)