سیدنا) اقرع (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) اقرع (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن حابس بن عفال بن محمد بن سفیانبن مجاشع بن دارم بن مالک بن حنظلہ بن مالک بن زید مناۃ بن تمیم سب لوگوںنے ان ک نسب اسی طور پر بیانکای ہے مگر ابن مندہ اور ابو نعیم نے حنظلہ کے بدلے جندلہ لکھا ہے ور یہ غلط ہے صحیح حنظلہ ہے۔ یہ نبی ﷺ کے حضور ہیں عطارہ بن صاجب بن زرارہ اور زبر قان بن بدر اور قیس بن عاصم وغیرہ چند اشراف قبیلہ تمیم کے ساتھ بعد فتح مکہ کے حاضر ہوئے تھے اور اقرع بن حابس تمیمی اور عینیہ بن حصن فزاری رسول خدا ﷺ کے ہمراہ فتح مکہ میں اور حنین میں شریک تھے وار جنگ طائف میں بھی حاضر تھے پھر جب قبیلہ تمیم کے لوگ آئے تو یہ بھی ان کے ساتھ آئے جب مدینہ پہنچے تو اقرع بن حابس نے جب پکارا کہ اے محمد تو یہ کہا کہ میری تعریف باعث زینت ہے اور میری مذمت باعث نقص ہے تو رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سبحانہ تمہیں ذلیل کرے۔ بعض لوگوںکا بیان ہے کہ صرف اقرع بن حابس نے نہیں بلکہ تمام لوگوںنے اسی طرح کہا تھا تو رسول خدا ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فمرایا کہ اللہ تم کو ذلیل کرے تم کیا چاہتے ہو ان لوگوںنے کہا کہ ہم قبیلہ تمیم کے لوگ ہیں اپنے شاعر ور اپنے خطیب کو لائے ہیں تاکہ آپ سے عر میں اور فخر (یعنی فضائل حسب و نسب) میں مقابلہ کریں نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہم شعر کے لئے نہیں بھیجے گئے نہ فخر کرنے کا ہمیں حکم ملا ہے مگر ہاں تم بیان کرو تو اقرع بن حابس نے ان میں سے ایک جوان سے کہا کہ اے فلاں اٹھ اور اپنے فضائل اور اپنی قوم کے فضائل بیانکر پس اس نے کہا کہ ہر طرحکی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنی مخلوقات میں بہتر بنایا اور ہمیں مال دیے کہ ہم اس میں جو چاہیں کریںسوہم تمام دنیا میں سب سے بہتر ہیں سب سے زیادہ یں باعتبار جمعیت کے اور سبس ے بڑھے ہوئے ہیں ہتھیاروں میں جو شخص ہماری اس باتکا انکار کرے وہ ہمارے اس بات سے بہتر کوئی بات بیانکرے یا ہمارے کاموں سے بڑھ کے کوئی کام دکھاوے تو رسول خدا ﷺ نے ثابتبن قیس بن شماس انصاری سے جو رسول خدا ﷺ کے خطیب تھے فرمایا کہ اٹھو اور اس کا جواب دو انھوں نے کہا کہ ہر طرحکی تعریف اللہ کے لئے ہے میں اس کی تعریف کرتا ہوں اور اس سے مدد مانگتا ہوںاور اس پر ایمان کھتا ہوںاور اسی پر توکل کرتاہوں اور میں اس باتکی شہادت دیتا ہوں کہا للہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے رسول ہیں انھوں نے اپنے چند اعزہ کو جو مہجرین ہیں اپنے دین کی طرف لایا انکے چہرے سب سے چھے اور انکی عقلیں سب سے زیدہ انھوں نے نبی کی اطاعت کیا ور اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اپنے نبی کا انصار بنایا اور اپنے رسول کا وزیر کیا اور اپنے دین کے لئے باعث عزت بنایا پس ہم لوگوںسے لڑتے ہیں تاکہ وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت دیں جو شخص یہ کہہ دے گا وہ ہمس ے اپنی جان اور اپنا مال بچا لے گا اور جو اس کے کہنے سے انکار کرے گا ہم اس سے لڑیں گے اور خدا کی راہ میں اس کا ذلیل کرنا ہم پر بہت آسان ہوگا یہ میں کہتا ہوںور تمام مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوںکے لئے خدا سے استغفار کرتا ہوں زبرقان بن بدر نے ان میں سے ایک شخص سے کہا کہ اے فلاں اٹھ اور کچھ اشعار پڑھ جن میں اپنی فضیلت اور اپنے قوم کی فضیلت بیان کر اس نے یہ اشعار پڑھے۔
سخن الکرام فلاحی یعاد لنا نحن الروس و غینا یقسم الربع ونطعم الناس عند المحل کلہم من السدیف اذ لم یونس القزع
اذا اتینا خلایاتی لہا اجسد انا کذلک ان الفخر نر تفع
(٭ترجمہ۔ ہم باعزت لوگ ہیں کوئی قبیلہ ہماری برابری نہیں کرسکتا۔ ہم لوگ سردار ہیں وار ہمیں میں سراے کی تقسیم ہوتی ہے (مطلب یہ ہے کہ ہمرے بیان سراے ہیں جو مہمان نوازی پر دلالت کرتی ہیں) ہم لوگوں کو قحط سالی کے وقت اونٹ کا کوہان کہلاتے ہیں جبک ہ ابر بھی نہیں آتا (یعنی سخت خشک سالی ہوتی ہے) جب ہم نکلتے ہیں تو ہمارے سامنے کوئی نہیں آتا فخر کے وقت ہم ایسے ہی بلند مرتبہ یں)
تو رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ حسان بن ثابتکو میرے سامنے بلائو چنانچہ حسان حاضر ہو کے تو زبرقان نے کہا کہ اب یہ نوبت آگئی تم نے اس بوڑھے اونٹکو بلایا پھر رسول خدا ﷺ نے حسان سے فرمایا کہ اٹھو اور اس کا جواب دو حسان نے زبرقان سے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے مجھے سنائو اس نے سنایا تو حسان نے کہا۔
نصرنا رسول اللہ والدین عنوۃ علی رغم عات من معد و حاضر بضرب کا بزاغ المخافص مشاشہ وطعن کا فواہ المقاح الصوادر
وسل احد الیوم استقلت شعابہ بضرب لنا مثل اللیوث الخوادر السنا نخوض الموت فی حومتہ الوغی اذا طاف و رد الموت بین العساکر
و نضرب بام الدارمیں و ننتمی الی حسب من جذم غسان قاہر فاحیا و مامن خیبر من وطی الحصی وامواتان من خیر اہل المقابر
فلولاحیاء اللہ قلنا تکرما علی الناس بالخیفین ہل من منافر
(٭ترجمہ۔ ہم نے رسول خدا کی اور دینکی رو کے ساتھ مددکی نہ کے سرکش اور دلار لوگوںکے زیر کر کے ان کو ابلیسی مار ماری جیسے حاملہ اونٹنی اپنی نرم ہڈی چباتی ہے اور یسے (گہرے) زخم لگائے جیسے پیاسی اونٹنیوں کے منہ پھیلے ہوتے ہیں احد پہاڑ سے پوچھو جب کہ اس کے درے بھرے ہوئے تھے ہماری مار ایسی تھی جیسے جنگل کے شیروںکی کیا ہم معرکہ جنگ میں موت کے اندر نہیں گھس پڑتے جب کہ موت کا قاصہ لشکر کے درمیان میں گشت لگاتا ہے ہم قبیلہ دارم کے لوگوں کا سر توڑ ڈالتے ہیں ہمارا نسب زیردست غسان سے جاکے ملتا ہے ہمارے زندہ لوگ نام زندوں سے بہتر ہیں اور ہمارے مردے تمام اہل قبور سے افضل ہیں اگر خدا سے ہم کو حیا نہ ہوتی تو ہما للہ و بڑائی کے کسی بلند مقام پر چڑھ کے کہتے کہ کیا کوئی ہمیں بھگا سکتا ہے)
پھر اقرع بن حابس کھڑے ہوئے ار انھوں نے کہا کہ اے محمد خدا کی قسم میں جس کام کے لئے آیا ہوں اس کے لئے یہ لوگ نہیں آئے میں نے ایک شعر کہا ہے آپ اس کو سن لیجئے حضرت نے فرایا سنائو تو انھوں نے کہا
اتیناک کیما یعرف الناس فضلنا اذا خالفونا عند ذکر المکارم وانا روس الناس من کل معشر وان لیس فی ارض الحجاز کدارم
(٭ہم آپ کے پاس اس واسطے آئے یں کہ جس میں لوگ ماری بزرگی سے واقف ہو جائیں جب وہ فضائل کے ذکر کرنے میں ہماری مخالفت کرتے ہیں ہم تمام لوگوں کے سردار ہیں ور ملک حجاز میں قبیلہ دارم کے برابر کوئی نہیں ہے۔
تو رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ اے حسان اس کا جواب دو حسان نے کہا۔
نبی دارم الاثفخردان فخرکم یود و بالا عند ذکر المکارم ہیلتم علینا تفخرون وانتم لنا خول من بین ظر و خادم
(٭اے قبیلہ دارم کے لوگوں فخر تکرو تمہارا فخر فضائل کے تزکرہ کے وقت تمہارے لئے وبال ہو جائے گا (خدا کرے) تم بے اولاد ہو جائو مارے سامنے فخر کرتے ہوجائو تم نہ ہمارے غلام کوئی دودھ پلانے والا ہے اور کوئی خدمتگار)
پھر سول خدا ﷺ نے فرمایا کہ اے قبیلہ بنی دارم کے بھائی تجھے اس کی ضرورت نہ تھی کہ تیری طرف سے وہ باتیں بیان کی جائیں جن ک نسبت تو جانتا ہے کہ لوگ ان کو بھول گئے ہیں پس رسول خدا ﷺ کا یہ کہنا ان لوگوںپر حسانکے اشعار سے بھی زیادہ سخت گذرا بعد اس کے حسان نے پھر یہ شعر کہے۔
وافضل ماظنتم من المجد والعلی ردافتنا من بعد ذکر المکارم فان کنتم جئتم لحقن ومائکم واموالکم ان تقسموا فی المقاسم
فلا تجعلو اللہ نداد اسلوا ولا تفخروا عند النبی بدارم والا درب البیت مالت اکفتنا علی روسکم بالم ہفات الصوام
(٭سب سے زیادہ بزرگی جو تمہیں حاصل ہوگی وہ یہ ہے کہ ان فخریہ مضامیں کے بعد اب تم ہمارے پیرو ہو جائو اگر تم لوگ اس واسطے آئے و کہ اپنی جانوں کو بچا لو اور اپنے مالوںکو تقسیم سے محفوظ رکھو تو خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور اسلاملے ائو اور نبی کے سامنے قبیلہ دارم پر فخر نہ کرو ورنہ قسم رب کعبہ کی کہ ہمارے ہاتھ تیز تلواریں لے کر تمہارے سروں پر جھک پڑیں گے۔
پس اقرع بن عابس کھڑے ہوگئے اور انھوں نے (اپنے لوگوں) سے کہا کہ اے لوگو یہ کیا بات ہے ہمارے خطیب نے گفتگو کی تو انھیں کا خطیب آواز میں بلند نکلا اور ہمارے شاعر نے کہا تو انھیں کا شاعر آواز میں بلند اور شعر میں اچھا رہا پھر وہ نبی ﷺ کے قریب آئے اور انھوں نے کہا کہ اشہد ان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ پس رسول خدا ﷺ نے فرمایاک ہ اس سے پیشتر جس قدر گناہ تمس ے ہوچکے ہیں اب وہ تمہیں ضرر نہ کریں گے۔ بنی تمیم ہی کے وفد کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی تھی ان الذین ینادونک من وراء الحجرات اکثرہم لایعقلون (٭ترجمہ (اے نبی) جو لوگ تمہیں حجروںکے پیچھے ے پکارتے ہیں ان میں کے اکچر لوگ یقینا بے عقل ہیں) اس طویل حدیث کی رویت میں مع ان اشعار کے معلی بن عبدالرحمن بن حکم واسطی متفرد ہیں۔ ہمیں اسمعیل بن عبید اللہ بن علی اور ابراہیم بن محمد بن مہران نے اور ابو جعفر بن سمیں نے اپنی سندکے ساتھ محمد بن عیسی بن سورۃ تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے ابن ابی عمر اور سعید بن عبدالرحمن نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے سفیان نے زہری سے انھوںنیابو سلمہس ے انھوں نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کر کے بیان کیا کہ انھوںنے کہا اقرع بن حابس نے رسول خدا ﷺ کو دیکھا کہ حضرت حسن کو (اور ابن ابی عمر کہتے تھے) یا حضرت حسین کو پیار کرتے دیکھا تو کہا کہ میرے دس لڑکے ہیں مگر میں کسی کو پیار نہیںکرتا رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ اور میں یحیی بن محمود بن سعد اصفہانی نے اجازۃ انی سند سے ابوبکر بن ابی عاصم تک خبر دی وہ کہتے تھے ہمس ے عفان نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں وہیب نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں موسی بن عقبہ نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن اقرع بن حابس سے نقل کر کے خبر دی کہ اقرع بن حابس نے رسول خدا ﷺ کو حجروں کے پیچھے سے آواز دی کہ اے محمد میری تعریف باعث زینت ہے اور میری مذمت باعث نقص ہے پھ انھوں نے کہا کہ اسی پر اللہ عزوجل نیوہ ایت نازل فرمائی جیسا کہ ابو سلمہ نے نبی ﷺ سے روایت کیا ہے اقرع بن حابس خالد بن ولید کے ستھ اہل عراق کی لڑائی میں سریک تھے اور فتح انبار میں بھی ان کے ہمراہ سریک تھے اور وہ خالد بن ولید کے آگے رہتے تھے۔ ابن درید نے کہا ہے کہ اقرع کا نام قراس تھا اور اقرع لقب تھا بوجہ اس کے کہ ان کے سر میں کچھ گنجا پن تھا۔ جاہلیت میں بھی باعزت تھے اور اسلام یں بھی باعزت رہے اور عبداللہ بن عامر نے ان کو اس لشکر کا سردار بنایا تھا جس کو انھوں نے خراسانکی طرف بھیجا تھا جو زجان میں یہ اور تمام لشرک سہید ہوگیا۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)