سیدنا) ارقم (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) ارقم (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن ابی الارقم۔ ابی الارقم کا نام عبد مناف بن اسد بن عبداللہ بن عمرو بن مخزوم قرشی مخزومی۔ ان کی والدہ امیہ بنت حارث ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کا نام تماضر بنت حذیم ہے قبیلہ بنی سہم سے ہیں اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ ان کا نام صفیہ بنت حارث بن خالد بن عمیر بن حبشان خزاعیہ ہے۔ حضرت ارقم کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔
اسلام کی طرف سب سے پہلیسبقت کرنے والوں میں ہیں قدیم الاسلامہیں بعض لوگ کہتے ہیں یہ بارہویں تھے (یعنی ان سے پہلے صرف گیا وہ آدمی مسلمان ہوئے تھے) اور یہ مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ جنگ بدر میں شریک تھے انھیں رسول خدا ﷺ نے بدر کے مال غنیمت سے ایک تلوار دی تھی۔ انھیں رسول خدا ﷺ نے (ایک مرتبہ) صدقات کے تحصیل کرنیکے لئے بھی مقرر فرمایا تھا۔
یہ وہی شخص ہیں جن کے گھر میں (ہجرت سے پہلے) مکہ میں رسول خدا ﷺ اور مسلمان چھپے تھے جب کہ مشرکوںکا خوف تھا (انکا گھر کوہ صفا کے نیچے تھا) یہاں تک کہ پورے چالیس آدمی مسلمان ہوگئے ان چالیس کے آخری شخص حضرت عمر بن خطاب رضیاللہ عنہ تھے پس جب حضرت عمر رضی اللہ عنہس ے چالیس کی تعداد پوری ہوئی تو آنحضرت ﷺ اور سب مسلمان) انکے گھر سے باہر نکلے۔ ابو عمر (ابن عبدالبر) نے کہا ہے کہ ابن ابی خیثمہ نے ذکر کیاہے کہ ابو الارقم یعنی حضرت ارقم کے والدبھی مسلمان ہوگئے تھے اور انھوں نے بنی مخزومسے روایت کی حالانکہ یہ غلط ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ ابو حاتم رازی نے ور ان کے بیٹے نے بھی ایک غلطی کی ہے ان دونوں نے ان ارقم کو عبداللہ بن ارقم کا والد قرار دیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیوںکہ عبداللہ بن ارقم زہری ہیں کیوںکہ ان کا نسب یہ ہے عبداللہ بن ارقم بن عبد یغوث بن وہب بن عبد مناف بن زہرہ (اوریہ ارقم زہری نہیں ہیں) عبداللہ بن ارقم حضرت عثمانبن عفان رضً اللہ عنہ کے زمانے میں بیت المال کے سردار تھے۔
یحیی بن عثمان بن عفان بن ارقم ارقمی اپنے چچا عبداللہ بن عثمانس ے اور ان کے گھر والوں سے وہ ان کے دادا عثمان بن ارخم سے وہ حضرت ارقم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ارقم نے (ایک مرتبہ) بیت المدس جانے کا سامان کیا جب سامانس ے فراغت پائی تو نبی ﷺ کے حضور میں رخصت ہونے کو آئے آپنے فرمایا تم کیوں جاتے ہو کوئی ضرورت ہے کوئی تجارت ہے انھوںنے عرض کیا یارول اللہ میرے ماں باپ آپپر فدا ہو ائیں نہ کوئی ضرورت ہے نہ تجارت بلکہ میں بیت المقدس میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں رسول خدا ﷺ نے فرمایاک ہ میری اس مسجد میں ایک نماز اور مسجدوںکی ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوا کعبہ کے عثمان بن ارقم کہتے ہیں پھر حضرت ارقم بیٹھ گئے (اور اپنا ارادہ فسخ کر دیا)
ہمیں ابویا سر عبدالوہاب بن ہبۃ اللہ بن ابی حبہ نے اپنی اسناد سے عبداللہ بن احمد ابن حنبل تک خبر دی وہ کہتے ہیں مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے م سے عباد بن عباد مہلبی نے ہشام بن زیاد سے انھوںنے عثمان بن ارقم بن ابی الارقم مخزومی سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا (اور وہ نبی ﷺ کے اصحاب میں سے تھے) کہ جو شخص جمعہ کے دن لوگوںکے اوپر سے پھاندتا ہوا جاتا ہو اور امام کے نکل آنے کے بعد دو آدمیوں کے درمیان میں تفریق کر دیتا ہو (یعنی ان کو ہٹا کے خود ان کے بیچ میں بیٹھ جاتا ہو) وہ مثل اس شخص کے ہے جو اپنی آنتوں کو آتشجہنم یں کھینچے گا۔
عثمان بن ارقم کہتے ہیں یرے والد حضرت ارقم کی وفات ۵۳ھ میں بعمر (۸۳) سال ہوئی اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کی وفات سن۵۵ھ میں ہوئی اور ان کی عمر اسی سے کچھ اوپر تھی۔ حضرت ارقم نے وصیت کی تھی کہ ان کے جنازے کی نماز حضرت سعد بن ابی وقاص پڑھائیں اس وقت حضرت سعد (مقام) عقیق میں تھے مروان نے کہا کہ کیا رسول خدا کا صحابی ایک غیر حاضر شخص کے انتظار میں دفن نہ کیا جائے گا اور (یہ کہہ کے) اس نے چاہا کہ ان کی نماز پڑھا دے مگر عبدی اللہ بن ارقم نے مروان کی یہ بات نہیں مانی اور ان کے ساتھ تمام بنی مخزوم اٹھ کھڑے ہوئے اور ان میں باہم گفتگو ہوئی پھر حضرت سعد آگئے اور انھوں نے ان کے جنازے کی نماز پڑھائی۔ ابو نعیم نے ذکر کیا ہے کہ ان کی ورفات بھی اسی روز ہوئی تھی جس روز ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تھی مگر پہلا قول صحیح ہے۔ حضرت ارقم جنۃ البقیع میں مدفون ہوئے۔ ان کا تذکرہ تینوںنے لکھا ہے۔
(اسدالغابۃ جلد نمبر ۱)