نخعی۔نام ان کا اوس بن جہیش بن یزید نخعی ہے۔
ہمیں ابو موسی نے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے ابو علی حداد نے اجازۃ ابو احمد عطار کی کتاب سے نقل کر کے بیان کیا اور ہم سے عمر بن احمد بن عثمان نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں عمر بن حسن بن مالک نے خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے منذر قابوسی نے بیان کیا وہ کہتے تھیہم سے حسین نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے یحیی بن زکریا ابن ابراہیم بن سوید نخعی نے حسن بن حکم نخعی سے انھوں نے عبدالرحمن بن عابس نخعی سے انھوںنے قیس بن کعبس ے روایت کر کے بیان کیا کہ قبیلہ نخع سے ان کے بھائی ارطاۃ بن کعب بن شراجیل اور ارقم جن کا نام اوس بن جہیش بن یزید ہے نبی ﷺ کی خدمت میں گئے تھے۔ یہ دونوں اپنے زمانہ میں بڑے حسین اور بہت ہی خوش وضع تھے حضرت نے ان دونوںکو اسلام کی ترغیب دی چنانچہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے اور ان کے حسن وغیرہس ے آپ بہت خوش ہوئے آپنے (ان سے) پوچھا کہ کیا تم نے اپنے پیچھے اپناجیسا اور بھی کوئی چھوڑا ہے ان دونوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم اپنی قوم کے ستر آدمی ایسے چھوڑ آئے ہیں جو ہر بات میں ہمارے شریک ہیں پھر آپ نے ان دونوں کو دعائے خیر دی اور آپ نے حضرت ارطاۃ کو ایک تحریر لکھ دی اور ایک دونوںکو ایک جھنا دیا حضرت ارطاۃ اس جھنڈے کو لے کے جنگ قادسیہ میں شریک ہوئے اور وہ شہید ہوگئے پھر ان کے بھائی زید نے اس جھنڈے کو لیا وہ بھی شہید ہوگئے پھر ان کے بھائی قیس بن کعب نے اس جھنڈے کو لیا۔
رسول خدا ﷺ نے فرمایا تھاک ہ اے اللہ قبیلہ نخع میں برکت دے اور ان لوگوں کے لئے آپ نے دعائے خیر کی تھی۔ ابن عابس کہتے ہیں مجھ میرے والد نے زرارہ سے انھوں نے قیس بن عمرو سے نقل کر کے بیان کیا کہ حضرت ارقم نبی ﷺ کے پاس گئے تھے اور اسلام لائے تھے آپنے انھیں ایک تحریر لکھ دی تھی اور اس میں انھیں دعا بھی دی تھی۔ ان کا تذکرہ ابو موسی نے ان لوگوں میں اسی طرح کیا ہے جن کا ذکر ابن مندہ سے چھوٹ گیا ہے۔ ان کا نسب ابن حبیب نے ابن کلبی سے نقل کیا ہے مگر انھوں نے حضرت ارقم کا نام اوس نہیں بتایا انھوں نے یہ کہا ہے کہ بکر یعنی ابن عوف بن نخع کے اولاد کے یہ نام تھے مالک اور شیطان اور مرسوعا انھیں کے خاندان سے حضرت ارقم بھی ہیں ان کا نام جہیش ابن یزید بن مالک بن عبداللہ بن بشر بن یاسر بن جشم بن مالک بن بکر ہے۔ یہ رسول خدا ﷺ کے حضور میں گئے تھے۔ اسی قول کی تائید کرتی ہے یہ بات (ابن مندہ نے جہیش بن اوس نخعی کو بھی ذکر کیا ہے اور عنقریب انشاء الہ تعالی ان کا بھی بیان ہوگا۔ ان کا تذکرہ ابوموسی نے کیا ہے۔
(اسدالغابۃ جلد نمبر ۱)