ابن منذر۔ ہمیں ابو موسینے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے کہ عبدان بن مروزی نے کہا ہے کہ (یہ) ارطاۃ بن منذر سکونی ہیں اور یہ صحابی ہیں اور انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم سے ہشام بن عمار نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمس ے مسلمہ بن علی نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمس ے نصر بن علقمہ نے اپنے بھائیس ے انھوں نے ابن عائذ سے انھوںنے ارطاۃ بن منذر سکونی سے روایت کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے میں نے رسول خدا ﷺ کے ہمراہ ننانوے مشرکوںکو قتل کیا ہے اور میں اس بات کو نہیں پسند کرتا کہ اتنے ہی مسڑک اور قتل کر دوں اور کسی ایک مسلمان (٭مسلمانوں کو چاہئے کہ اس واقعہ سے سبق دیکھیں کہ مسلمانوں کی پردہ دری اور ان کی آبرو ریزی کس قدر گناہ ہے) کا راز فاش کر دوں (یعنی ایک مسلمانکے راز فاش کرنے والے جس قدر گناہ ہے اس کی تلافی مشرکوںکی اس کثیر تعداد کے قتل کرنے کا ثواب نہیں کرسکتا) عبدان نے کہا ہے کہ محمد بن علی بن رافع کہتے ہیں کہ صحیح یہ (ہے کہ ان کا نام) لقیط بن ارطاۃ سکونی ہیارطاۃ بن ممنذر تو ہو ہی نہیں سکتا۔ ابو موسیکہتے ہیں کہ اسی شخص کا کہنا ٹھیک ہے ابو موسینے کہا ہے کہ اسی کی تائیدکرتی ہے وہ حدیچ جو ہم سے ابو غالب کشودینے بیان کی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر بن زبدہ نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں طبرانی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن معلی دمشقی نے اور حسین بن اسسحاق تستری نے خبر دی یہ دونوں کہتے تھے ہم سے ہشام بن عمار نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمس ے مسلمہ بن علی نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے نصر بن علقمہ نے اپنے بھائی یعنی محفوظ سے انھوں نے ابن عائذ سے نقل کر کے بیان کیا اور ابن عائذ کا نام عبدالرحمن بن لقیط ابن ارطاۃ سکونی ہے کہ ایک شخص نے ان سے کہا کہ ایک ہمارا پروسی شراب پیتاہے اور بری باتیں کرتا ہے آپ اس کی کیفیت سلطان سے بیان کر دیجئے حضرت لقیط بن ارطاۃ نے جواب دیا کہ میں نے ننانوے کافروں کو قتل کیا ہے ور (اس کے بعد راوی نے) اسی کے مثل بیان کیا (یعنی اس کے آگے انھوں نے یہ کہا کہ میں باجود اس کے کسی مسلمان کی پردہ دری کو نہیں پسند کرتا) ابو موسی نے کہا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ پہلی روایت (جس میں ان کا نام ارطاۃ ظاہر کیا گیا ہے) کیسند کس طرح واقع ہوئی ہے کیوں کہ عبدان نے اس روایت کے بعد ہی ہشام ابن عمار سے یہ دوسری روایت بھی نقل کی ہے جس میں انھوں نے ان کا نام لقیط بن ارطاۃ بیان کیا ہے شاید ان سے ایک جگہ غلطی ہوگئی ارطاۃ تابعینس ے اور تبع تابعینس ے روایت کرتے ہیں اور اسی روایت میں یہ بھیہے کہ ارطاۃ شام کے معتبر لوگوں میں سے ہیں کسی صحابی سے بھی ان کی ملاقات نہیں ہوئی چہ جائیکہ نبی ﷺ کی ملاقات۔
(اسدالغابۃ جلد نمبر ۱)