سیدنا) اسعد (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) اسعد (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن زرارہ بن عدس بن عبید بن ثعلبہ بن غنم بن مالک بن نجار۔ نجار کا نام یتیم اللہ ہے ان کو نجار اس وجہ سے کہتے ہیں کہ انھوںنے ایک آدمی کو بسولے سے مارا تھا اور اسے لکڑی کی طرح چھیل دیا تھا اور بعض لوگوںنے اور کچھ بھی بیان کیا ہے نجار بیٹیہیں ثعلبہ بن عمرو بن خزرج کے یہ اسعد انصاری خزرجی نجاری ہیں۔ بعض لوگ انکو اسعد الخیر بھی کہتے ہیں کنیت ان کی ابو امامہ۔ انصار میں سب سے پہلے یہی اسلام لائے تھے انکے اسلام کا سبب جیسا کہ واقدی نے ذکر کیا یہ ہوا کہ اسعد بن زرارہ مکہ گئے ہوئے تھے وہ اور ذکوان بن عبد قیس دونوں کسی کامس ے عتبہ بن ربیعہ کے پاس گئے وہاں انھوں نے رسول خدا ﷺ کا ذکر سنا پس یہ دونوں آپ کے پاس گئے آپ نے انھیں اسلام کی ترغیب دی اور انھیں قران پڑھ کے سنایا چنانچہ یہ دونوں مسلما نہوگئے پھر عتبہ کے پاس نہیں گئے اور مدینہ لوٹ آئے اور یہی دونوں سب سے پہلے مدینہ میں اسلام لے کے آئے ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ اسعد بن زرارہ ان لوگوں کے ساتھ اسلام لائے تھے جنھوں نے اپنی اپنی قوم سے پہلے اسلام کی طرف عقبہ اولی میں سبقت کی تھی اور یہ عقبی تھی عقبہ اولی اور عقبہ ثانیہ اور عقبہ ثالثہ میں شریک ہوئے تھے عقبہ اولی کی بیعت میں صرف چھ یا سات آدمی تھے اور عقبہ ثانیہ کی بیعت میں بارہ آدمی تھے اور عقبہ ثالثہ کی بیعت میں ستر آدمی تھے۔ اور بعض لوگ چھ آدمیوں کی بیعت کو بیعت عقبہ نہیں کہتے وہ صرف دو ہی مرتبہ بیعت عقبہ کو قرار دیتے ہیںا ور ابو امامہ سوا جابر بن عبداللہ کے اور تمام شرکائے بیعت سے چھوٹے تھے۔ یہ اسعد بنی نجار کے نقیب تھے ابن مندہ اور ابو نعیم نے بیان کیا ہے کہ بنی ساعدہ کے نقیب (٭) تھے اور نقیب صرف بارہ آدمی تھے۔ سعد بن عبادہ۔ اسعد بن زرارہ۔ سعد بن ربیع۔ سعد بن خیثمہ۔ منذر بن عمرو۔ عبداللہ بن رواحہ۔ براء بن محرور۔ ابو الہیثم بن تیہان۔ اسید بن حضیر۔ عبداللہ بن عمرو بن حرام عبادہ بن صامت۔ رافع بن مالک۔
بعض لوگوںکا بیان ہے کہ ابو امامہ سب سے پہلے وہ شخص ہیں جنھوںنے نبی ﷺ سے شب عقبہ میں بیعت کی تھی اور بعض لوگوں نے اس کے خلاف بھی بیان کیا ہے جیسا کہ اپنے مقام میں مذکور ہوگا۔
یہ سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے مدینہ میں قبیلہ بنی بیاضہ کے سنگستان کے نشیب میں جس کو بقیع الخضمات بھی کہتے ہیں جمعہ کی نماز پڑھی اور س وقت چالیس آدمی تھے اسعد بن زرارہ کی وفات ہجرت کے پہلے سال شوال میں بدر سے پہلے ہوگئی تھی کیوں کہ جنگ بدر رمضان سن۲ھ میں ہوئی تھی۔ ان کی وفات اس مرض میں ہوئی تھی جس کو ذبحہ (٭ذبہہ گلے کی ایک بیماری کا نام ہے کبھی کبھی اس بیماری سے خناق بھی پیدا ہو جاتا ہے) کہتے ہیں اور نبی ﷺ نے انھیں اپنے ہاتھ سے داغ دیا تھا ان کی وفات جس وقت ہوئی اس وقت مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہود کی کیا بری گفتگو ہے کہتے ہیں کہ اس نے اپنے دوست کو موت ے کیوں نہ بچایا حالانکہ میں اس کے لئے کسی بات کا ختیار رکھتا ہوں نہ اپنے لئے۔ ان کا تذکرہ تینوں نیل کھا ہے۔
میں کہتا ہوں ابن مندہ اور ابو نعیم کا یہ کہنا کہ اسعد بن زرارہ قبیلہ بنی ساعدہ کے نقیب تھے ان کا وہم ہے یہ قبیلہ بنی نجار کے نقیب تھے جب ان کی وفات ہوگئی تو بنی نجار کے لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ اسعد کی وفات ہوگئی اور وہ ہمارے نقیب تھے پس اب آپ ہمارے لئے کوئی اور نقیب مقر کر دیجیے آپ نے فرمایا تم لوگ میرے ناموں ہوں اور میں تمہارا نقیب ہوں یہ فضیلت خاص کر بنی نجار کو ملی۔ بنی ساعدہ کے نقیب حضرت سعد بن عبادہ تھے کیوں ہ آپ ہر قبیلہ کا نقیب اسی قبیلہ سے مقرر کرتے تھے۔ بیشک ابو نعیمنے اس وہم میں ابن مندہ کی پیروی کر لی واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)