سیدنا) اسید (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) اسید (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
یہ سسید حضیر بن سماک بن عتیک بن امرء القیس بن زید بن عبدالاشہل بن جشم بن حارث بن حزرج بن عمرو بن مالک ابن اوس انصاری اوسہی اشہلی کے بیٹے ہیں۔ کنیت ان کی ابو یحیی ہے ان کے بیٹے کا نام یحیی تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کی کنیت ابو عیسی ہے یہ کنیت آپ کی نبی ﷺ نے رکھی تھی اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کی کنیت ابو عتیک تھی ور بعض لوگ کہتے ہیں ابو حضیر اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو عمر۔ انکے والد حضیر نے قبیلہ اوس کی طرف سے ان کی لڑائیوں میں جو خزرج کے ساتھ ہوئیں بڑی مردانگی کی۔ انکا ایک قلعہ تھا واقم نام جنگ بعاث کے دن بھی قبیلہ اوس کے سردار یہی تھے۔ یہ اسید سعد بن معاذ سے پہلے مصعب بن عمیر کے ہاتھ پر مدینہ میں سلام لائے تھے ان کا اسلام عقبہ اولی اور ثانیہ کیبعد ہوا ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی بڑی عزت کرتے تھے اور کسی کو ان پر ترجیح نہ دیتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ ان کے پاس جھگڑے کی باتیں نہیں ہیں ان کی والدہ ام اسید بنت سکن ہیں۔ عقبہ ثانیہ کی بیعت میں شریک ہوئے تھے اور بنی عبد الاشہل کے نقیب تھے۔ ان کی شرکت بدر میں اختلاف ہے ابن اسحاق اور ابن کلبی کہتے ہیں کہ نہیں شریک ہوئے اور لوگ کہتے ہیں کہ شریک ہوئے اور احد میں اور س کے بعد کے تمام غزوات میں شریک ہوئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ فتح بیت المقدس میں شریک تھے۔ ان سے کعب بن مالک اور ابو سعید خدری اور انس بن مالک نے اور حضرت عائشہ رضً اللہ عنہا نے روایت کی ہے۔ رسول خدا ﷺ نے ان کے اور زید بن حارثہ کے درمیان میں اخوت کرا دی تھی یہ قران بہت خوش آوازی سے پڑھتے تھے اور بڑے کامل اکعقل لوگوں میں سے تھے اور اہل الراے تھے حضرت ابوبکر صدیق رضً اللہ عنہ کی بیعت میں انھوں نے بہت کار نمایاں کیا ہے ان سے حضرت انس بن مالک نے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے انصار سے فرمایا تھا کہ تم میرے بعد دیکھو گے کہ لوگ دوسروں کو تم پر ترجیح دیتے ہیں انصار نے عرض کیا کہ اس وقت کے لئے آپہمیں کیا حکم دیتے ہیں حضرت نے فرماژا صبر کرنا یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے مل جائو۔ ہمیں ابو محمد قاسم بن علی ابن ہبۃ اللہ عساکر نے ابو المظفر قشیری سے نقل کر کے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو القاسم عبدالکریم نے خبر دی وہ کہتے تھے ہیںابو نعیم عبدالملک بن حسن ازہری نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیںابو عوانہ یعنی یعقوب بن سحاق حافظ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمس ے محمد بن عبداللہ ابن عبدالحکم نے بیان کیا وہ کہتے تھے مجھ سے میرے باپ اور شعیب بن لیث نے لیث سے انھوںنے خالد بن زید سے انھوں نے ابو بلال یعنی سعید سے انھوںنے یزید بن ہاد سے انھوں نے عبداللہ ابن خباب ے انھوںنے ابو سعید خدری سے انھوںنے اسید بن حضیر سے روایت کی ہے اور وہ قران بہت خوش آوازی کے ساتھ پڑھتے تھے کہتے تھے کہ میں ایک شب کو سورہ بقرہ پڑھ رہا تھا اور میرا ایک گھوڑا بندھا ہوا تھا اور میرا لڑکا یحیی میرے پاسہی لیٹا ہوا تھا وہ کم سن تھا پس یکایک گھوڑا بھڑکنے لگا یہ حال دکھ کے میں کھڑا ہوگیا مجھے صرف اپنے بیٹے (کے کچل جانے) کا خیال تھا پھر یں نے ڑھنا شروع کیا گھوڑا پھر بھڑکنے لگا پھر یں اپنے بیٹیکے خیال سے اٹھ کھڑا ہوا پھر یں نے پڑھنا سڑوع کیا تو پھر گھوڑا بھڑکنے لگا میں نے اپنا سر اٹھا کے دیکھا تو ایک چیز مثل سائبانکے آسمان سے اتر رہی تھی اس میں چراغوں کے مثل کچھ چیزیں روسن تھیں مجھے خوف معلوم ہوا اور میں نیسکوت کر لیا صبح کو میں رسول خدا ﷺ کی خدمت میں گیا اور میں نے یہ واقعہ حضرت سے بیان کیا آپ نے فرمایا کہ اے ابو یحیی پڑھے جائو میں نے عرض کیا کہ میں تو پڑھ رہا تھا مگر ھگھوڑا بھڑکنے لگا مجھے صرف اپنے بیٹے کا خیال تھا حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابو یحیی پڑھے جائو میں نے عرض کیا کہ میں تو پڑھ رہا تھا مگر گھوڑا بھڑکنے لگا (اس سبب سے میں نے سکوت کر لیا) پھر حضرت نے فرمایا کہ اے ابو یحیی پڑھے جائو میں نے عرض کیا کہ میں تو پڑھ رہا تھا مگر میں نے سر اٹھا کے دیکھا تو ایک چیز مثل سائبان کے تھی اس میں چراغ روشن تھے اس سے مجھے خوف معلوم ہوا۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ فرشتے تھے تمہاری آواز سننے کے لئے آئے تھے اور اگر تم پڑھے جاتے تو صبح کو سب لوگ ان فرشتوںکو دیکھتے۔ ہمیں ابو منصور بن مکارم بن احمد مودبنے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو القسم نصر بن احمد بن محمد بن صفوان نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں خطیب ابو الحسن علی بن ابراہیم سراج نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے ابو الحسن علی بن عبید اللہ ابن طوق نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ابو جابر عبدالعزیز ابن حیان نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمس ے محمد بن عبداللہ بن عمار نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ابو جابر عبدالعزیز ابن حیان نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمس ے محمد بن عبداللہ بن عمار نے بیانکیا وہ کہتے تھے ہمس ے معافی بن عمران نے سلیامن بن بلال سے انھوں نے سہیل سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کر کے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ابو عبدیہ بن جراح کیا اچھے آدمی ہیں معاذبن جبل کیا اچھے آدمی ہیں اسید بن حضیر کیا اچھے آدمی ہیں معاذ بن عمرو بن جموح کیا اچھے آدمی ہیں۔
اسید بن حضیر نے شعبان سن۲۰ھ میں وفات پائی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کا جنازہ اٹھایا یہاں تک کہ انھیں بقیع میں دفن کیا اور ان کی نماز پڑھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ کچھ وصیت کر گئے تھے حضرت عمر رضی الہ عنہ نے اس وصیت کے موافق ان کے قرض کو دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ چار ہزار قرض ان پر ہے لہذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے باغ کی فصل چار سال تک فروخت کر کے ان کا قرضح ادا کر دیا۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)