سیدنا) اصید (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) اصید (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن سلمہ سلمی۔ ہمیں ابو موسی نے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو زکریا یعنی ابن مندہ نے کتابتہ خبر دی وہ کہتے تھے مجھے میرے چچا اور باپ نے خبر دی یہ دونوں کہتے تھے ہمیں ابو طاہر یعنی عبدالواحد بن احمد شیرازی نے خبر دی وہ کہتے تھے میں ابو الحسین احمد بن محمد بن محمود بزاز نے تستر میں خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں حسن بن احمد بن مبارک نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن علی خزار کوفی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن عمران بن ابی لیلی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں سعید بن عبید اللہ بن ولید رصافی نے اپنے والد سے انھوں نے بو جعفر محمد بن علی سے انھوں نے اپنے والد حسین سے انھوںنے اپنے والد علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہس ے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے کہ رسول خدا ﷺ نے ایک لشکر بھیجا تھا اس لشکر کے لوگ قبیلہ بنی سلیم کے ایک شخص اصید بن سلمہ کو گرفتار کر لائے جب انھیں رسول خدا ﷺ نے دیکھا تو حضرت کو ان پر رحم آیا اور حضرت نے انھیں اسلامک ی ترغیب دی وہ مسلمان ہوگئے یہ خبر ان کے والد کو پہنچی وہ بوڑھے تھے تو انھوںنے ان کو ایک خط لکھ کر بھیجا۔ جس میں یہ اشعار تھے۔
من راکب نحو المدینتہ سالما حتی یبلغ مااقول الاعیدہ ان النبین شرار ہم امثالہم من عق والدہ و بر الا بعدا
اترکت دین ابیک والشیم العلی اودو او تابعت الغداۃ محمدا فلاے امر یا نبی عققے وتر کتی شیخا کبیرا مفتدا
اما النہار فہ مع عینی ساکب وابیت لیلی کا سلیم مسہدا فلعل ربا قد ہداک لدینہ فاشکر ایاد یہ علی ان ترشدا
واکتب الی بما اصبت من الہدی وبدینہ لاسرسکتی موحدا واعلم باتک ان قطعت قرابتی وعققی لم الف الا للعدی
(٭ترجمہ۔ کیا کوئی سوار ہے و مدینہ ی طرف جائے۔ تاکہ میرا پیغام اصید کو پہنچا دے۔ کہ وہ بیٹے بہت برے ہوتے ہیں جو اپنے باپ کی نافرمانی کریں اور ایک دور کے رشتہ دار سے میل پیدا کریں۔ اے بیٹِ یا تو نے اپنے باپ کے دین اور عمدہ طریقوںکو چھوڑ دیا۔ وہ سب ہلاک ہوگئے اور کل سے تم نے محمد کی پیروی کرلی اے میرے بیٹِ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا تو نے مجھے بڑھاپے اور کمر موری کی حالت میں چھوڑ دیا دن بھر میری آنکھوں سے جاری رہتے ہیں۔ اور رات بھر مثل عقرب گزیدہ کے تڑپتاہوں شاید پروردگار نے تجھے اپنی دین کی ہدایت کی ہو تو تو اس کا شکر کر کہ تو نے ہدایت پائی اور جو کچھ ہدایت تجھے حاصل ہوئی ہے اس سے مجھے بھی اطلاع دے اور ان کے دینس ے مجھے بھی خبردار کر کے مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو سمجھ لے کہ اگر تو میری قرابت کو قطع کر دے گا اور مجھے چھوڑ دے گا تو میں سفر اختیار کر لوں گا۔)
جب (یہ خط حضرت اصید کے پاس پہنچا اور) انھوں نے اپنے والد کی تحریر پڑھی تو نبی ﷺ کی خدمت میں آئے اورآپ سے بیان کیا او ر آپ سے اس کے جواب کی اجازت طلبکی آپنے اجازت دے دی تو انھوں نے اپنے والد کو یہ لکھ کے بھیجا اشعار
ان الذی سبک السماء بفذرۃ حتی علافی ملکہ فتوحدا بعث الذی لامثلہ چیما مضی یدعو لرحمتہ النبی محمدا
ضخم الدسیعۃ کالفزالۃ وجہہ قرناتازر بالمکارم دارتدی فدعا العباد لدینہ فتتا بعوا طوعا و کرہا مقبلین علی الہدی
و تخو فو النار التی من اجلہا کان الشقی الخاسر المتلددا واعلم بانک میت و محاسب فالی من ہذی الضلالۃ والزوی
(٭ترجمہ۔ بے شک جس نے قدرت سے آسمان کو بلند کیا ہے یہاںتک کہ وہ اپنی بادشہات میں یکتا ہے س نے ایک ایسے شخص کو نبی بناکے بھیجا ہے جن کا مثل اگلوں میں بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ خداکی رحمت کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں یعنی نبی محمد ﷺ کو بڑے عالی طبیعت ہیں صبح کی طرح ان کا چہرہ چمک رہا ہے ایک بزرگ ہیں جو عمدہ اخلاق سے قوی ور آراستہ ہیں انھوں نے خدا کے بندوں کو دینکی طرف بلایا اور انھوںنے ان کی پیروی کی خواہ مخواہ سب ہدایت کی طرف آئے ور اس آگ ے ڈر گئے جس کے لئے بدبخت نقصان والے ادھر ادھر بھہکتے پھرتے ہیں اے باپ تو یقین کر لے کہ تو مرے گا اور مجھ سے حساب لیا جائے گا لہذا تو مجھے س گمراہی اور ہلاکت سے باز رکھ)
ان کا تذکرہ ابو موسی نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)