یہ رافع بن خدیج کے بھائی ہیں ان سے عکرمہ نے اور مجاہد نے روایت کی ہے ابو مسعود نے حماد بن مسعدہ سے انھوں نے ابن جریح سے انھوںین رکرمہ بن خالد سے روایت کی ہے کہ اسید نے انس ے بیان کیا کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنا چوری کیا ہوا مال کسی کے پاس دیکھے اور جس کے پاس وہ مال ہو وہ مشتبہ نہ ہو تو س کو اختیارہے چاہے قیمتدے کے اس مال کو لے لے اور چاہے تو چور کی جستجو کرے اسی کے موافق ابوبکر و عمر و عثمان رضی الہ عنم نے فیصلہ کیا ہے۔ یہ ابن مندہکا قول ہے اور ابو نعیم نے ان کے تذکرہ میںلکھا ہیک ہ بعض وہم کرنے والوں یعنی ابن مندہ نے ان کا تذکرہ لکھا ہے اور ایک حدیث بھی ان سے روایت کی ہے حالانکہ وہ اسید بن ظہیر ہیں ور یہی حدیث بعینہ ابن جریح سے وی ہے وہ عکرمہ بن خالد مخزومی سے روایت کرتے ہیں کہ اسید بن ظہیر انصاری جو قبیلہ بنی حارثہ میں سے ایک شخص تھے یمامہ کے حاکم تھے مروان نے انھیں لکھ کے بھیجا کہ حضرت معاویہ کا خط میرے پاس اس مضمون کا آیا ہے کہ جس شخص کی کوئی چیز چوری ہو جائے تو وہ س چیز کا زیدہ حق دار ہے جہاں کہیں ہ اسے پائے (یعنی وہ اپنا مال جس کے پاس دیکھ لے اس سے لے سکتا ہے) تو انھوںنے مروان کو یہ جواب لکھا کہ رسول خدا ﷺ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر چور سے کسی دوسرے شخص نیجو مشتبہ نہ ہو اس مال کو خرید لیا ہو تو مالک کو اکتیار دیا جائے گا چاہے تو اپنے مال کو قیمت دے کے مول لے لے ور چاہے تو چور کی تلاش کرے پھر سیکے موافق ابوبکر و عمر و عثمان رضیالہ عنہم نے بھی فیصلہ کیا ہے مروان نے یہ مضمون حضرت معاویہ کو لکھ بھیجا حضرت معویہ نے مروان کو لکھا کہ نہ تم میرے حاکمہو نہ اسید بلکہ میں نیتم کو اپنی طرف سے یہ حکمدیا ہے۔ مروان نے حضرت معاویہ کا یہ خط اسید کے پاس بھیج دیا اسید نے کہا کہ جب تک میں حاکم ہوں ہرگز معاویہ کے کہنے کے موافق فیصلہ (٭اس مقام سے صحابہ کی حق پرستی کا اندازہ ہوسکتا ہے جو بات وہ رسول خدا ھ سے سن لیتے تھے پھر اس کو کسی طرح ترک نہ کرتے تھے چاہے کچھ ہو جائے) کروں گا ابو نعیم نے اس حدیث کو لکھ کر کہا ہے کہ اس وہمی (یعنی ابن مندہ) نے ابو مسعود کی یہ حدیث روایت کی ہے اور سید ک نسب نہیں بیانکی اور س کو ایک تذکرہ علیحدہ بنا دیا ہے۔ ابو مسعود نے اس حدیث کو کم روایت کرنے والوں کے مسند میں حامد سے اسید بن ظہیرکے تذکرہ میں ذکر کیا ہے اگرچہ انھوںنے سید کا نسب نہیں بیان کیا۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے اور صحیح ابو نعیم ہی کا بیان ہے۔؎
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)