ابن عبداللہ قبیلہ ہذیلہ کے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ قبیلہ غفر کے ہیں۔ ابن شہاب زہری نے کہا ہے کہ اصیل غفاری جب آئے ہیں اس وقت تک نبیﷺ کی ازواج پر پردہ فرض نہ ہوا تھا لہذا یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے حضرت عائشہ نے ان سے پوچھا کہ اے اصیل تم نے مکہ کو کس حال میں چھوڑا انھوں نے کہا کہ میں نے مکہ کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ خدا کی قسم اس کے اطراف و جوانب تر و تازہ ہیں اور س کے سکستان سپید ہو رہے ہیں حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ٹھہرو تاکہ نبی ﷺ تشریف لے ائیں چنانچہ تھوڑی ہی دیر کے بعد نبی ﷺ تشریف لائے اور آپ نے وچھا کہ اے اسیل تم نے مکہ کو کس حال میں (٭مکہ میں اس زمنے میں حضرت کی دعا اق قحط عظیم پڑ گیا تھا لوگ تباہ حال ہوگئے تھے بعد اس کے آپ نے س قحط کے دور ہونے کی دعا فرمائی اسی کے متعلق آپ نے اصیل سے دریافت فرمایا تو انھوں نے کہا کہ اس کے اطراف و جوانب تر و تازہ ہیں یعنی پانی خوب برسا ہے سبزہ نکل آیا ہے پتھر دہل کے صاف ہوگئے ہیں۔ اذخر اور ثمام دو مشہور گھاسیں ہیں مکہ میں پیدا ہوتی یں اور وہاںکے لوگ بہت کام ان سے لیتے ہیں۔) چھوڑا انھوںنے عرض کیا کہ میں نے مکہ کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ اس کے اطراف و جوانب تر و تازہ ہیں ور اس کے سنگستان سپید ہیں ور س کے اذخر میں خوشہ نکل آئے ہیں اور تمام میں پتے نکل آئے ین حضرت نے فرمایا کہ اے اصیل بس یی چاہئے اب تم رنج نہ کرو اس حدیث کو محمد بن عبدالرحمن قرشی نے بدیح سے جو سلمی کے بیٹے ہیں رویت کیا ہے کہ انھوں نے کہا اصیل ہذلی رسول خدا ﷺ کے حضور میں مکہ سے آئے پھر آگے اسی طرح بیان یا۔ اور اس حدیث کو حسن نے ابان بن سعید بن عاص سے روایت کیا ہے کہ وہ نبی ﷺ کے پاس آئے تو ان سے حضرت نے وپچھا کہ اے ابان تم نے مکہ والوںکو کس حال میں چھوڑا انھوںنے کہا میں نے انھیں اچھے حال میں چھوڑا ہے وہاں خوب پانی برسا ہے۔
باب الہمزہ مع الضاد
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)