سیدنا) اشعث (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) اشعث (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن قیس بن معدیکرب بن معاویہ بن ثعلبہ بن عدی بن ربیعہ بن حارث بن معاویہ بن ثور ندی۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کا نسب اسی طرح بیان کیا ہے اور ہشام کلبی نے ان کا ذکر اس طرح کیا ہے۔
اشعث ان کا نام معدیکرب بن قیس ہے اور قیس کا نام اشج بن معدی کرب بن معاویہ بن جبلہ بن عدی بن ربیعہ بن معاویہ اکرمیں بن حارث اصغر بن معویہ بن حارث اکبر ابن معاویہ بن ثور بن مرقع اور مرقع کا نام عمرو بن معاویہ بن ثور بن عفیر ہے ثور بن عفیر کو کندہ بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے باپ کو چھوڑ دیا تھا ان کا ذکر ابو عمر نے بھی اسی طرح کیا ہے اور یی صحیح ہے۔ ان کی کنیت ابو محمد ہے نبی ﷺ کے حضور میں سن۱۰ھ میں قبیلہ کندہ کے وفد کے ہمراہ آئے تھے یہ لوگ کل ساٹھ سوار تھے سب اسلام لائے اشعث نے رسول خدا ﷺ سے پوچھا کہ حضور ہمارے قبیلہ میں سے ہیں حضرت نے فرمایا (نہیں) ہم نضر بن کنانہ کے اولاد میں سے ہیں نہ ہم اپنی ماںکو گالی دیتے ہیں اور نہ ہم اپنے باپ ے علیحدہ ہوتے ہیں لہذا اشعث کہا کرتے تھے کہ اگر میرے پاس کوئی ایسا شخص آئے گا جو قریش کو نضر بن کنانہ کی اولاد سے خارج کہے گا تو میں اسے درہ ماروں گا۔ جب یہ مسلمان ہوئے تو انھوں نے ام فروہ سے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی الہ عنہ کی بہن تھیں نکاح کا پیغام دیا اور وہ منظور کر لیا گیا اور یہ یمن لوٹ گئے۔ ہمیں خطیب ابو الفضل عبداللہ بن احمد بن عبدالقاہر نے اپنی اسناد سے ابودائود طیالسی تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے محمد بن طلحہ نے عبداللہ بن شریک عامریس ے انھوں نے عبدالرحمن بن علی کندی سے انھوں نے اشعث بن قیس سے روایت کی کہ وہ کہتے تھے رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص آدمیوں کے زیادہ شکر گزاری کرے گا وہ خدا کی بھی زیادہ شکر گزاری کرے گا۔ یہ اشعث ان لوگوں میں سے تھے جو رسول خدا ﷺ کے بعد مرتد ہوگئے تھے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یمن کی طرف لشکر بھیجے تو لوگوں نے اشعث کو قید کر لیا اور یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے حاضر کیے گئے تو انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے اپنی لڑائی کے لئے مہلت دیجیے اور اپنی بہن کا نکاح مجھ سے کر دیجئے پس حضرت بوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں چھوڑ دیا اور ان سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا یہی محمد بن اشعث کی ماں تھیں جب انھوں نے نکاح کیا تو تلوار کھینچ کے اونٹوں کے بارار میں چلے گئے اور جس اونٹ یا اونٹنی کو دیکھا اس کے پیر کاٹنے شروع کر دیے لوگ چلا اٹھے کہ اشعث کافر ہوگیا پس جب یہ فارگ ہوئے توا نھوں نے تلوار رکھ دی اور کہا کہ خدا کی قسم میں کافر نہیں ہوا بلکہ حضرت ابوبکر نے اپنی بہن سے میرا نکاح کر دیا ہے اگر ہم انے شہر میں ہوتے تو جارا ولیمہ اور کچھ ہوتا (مگر اب یہاں اس کے وا کیا ممکن ہے) لہذا اے اہل مدینہ قربانی کرو اور کھائو اور اے اونٹوں کے مالک آئو اور ان کی قیمت لو ایسا ولیمہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اشعث شام میں جنگ یرموک میں شریک تھے وہیں ان کی ایک آنکھ پھٹ گئی تھی عراق گئے ور وہاں جنگ قادسیہ اور مدائن اور جلولا اور نہاوند میں شریک ہوئے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کر ی تھی وہیں ایک گھر بنا لیا تھا جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھے یہ ان لوگوں میں تھے جنھوں ن تحکیم میں حضرت علی مرتضی کو اختیار کیا تھا اور دونوں حکموں سے دومۃ الجندل میں انھوں نے ملاقات کی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو آذر بیجان کا عامل بنایا تھا۔ حضرت حسن بن علی نے ان کی بیٹی سے نکاح کیا تھا بعض لوگوںکا بیان ہے کہ اسی نے حضرت حسن کو زہر دیا تھا جس سے ان کی وفات ہوئی تھی۔
انھوں نے نبی ﷺ سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ ان سے قیس بن ابی حازم اور ابو وائل وغیرہ نے وایت کی ہے ایک جنازہ کی نماز میں یہ بھی تھے اور جریر بن عبداللہ بجلی بھی تھے تو انھوں نے جریر کو امام بنایا اور کہا کہ یہ کبھی اسلام سے مرتد نہیں ہوئے اور میں ایک مرتبہ اسلام سے مرتد ہوگیا تھا۔ انھیں کے حق میں اللہ تعالی کا یہ قول نازل ہوا تھا ان الذین یشترون بعبد اللہ و ایمانہم ثما قلیلا الایہ (٭ترجمہ بے شک وہ لوگ جو خدا کے عہد اور اپنی قسمتوںکے عوض میں تھوڑے دام مول لیتے ہیں) وجہ اس کی یہ ہوئی کہ انھوں نے ایک کنویں کی بابت ایک شخص سے سے جھگڑا کیا تھا۔
ان کی وفات سن۴۲ھ میں ہوئی حضرت حسن بن علی نے ان کی نماز پڑھائی۔ یہ ابن مندہ کا بیان ہے۔ اور یہ وہم ہے کیوںک ہ سن۴۲ھ میں حضرت حسن کوفہ میں نہ تھے حضرت معاویہ کو خلافت سپرد کر کے مدینہ چلے آئے تھے۔ ابو نعیم نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی کے وفات کے چالیس دن بعد ان کی وفات ہوئی اور حضرت حسن بن علی نے ان کی نماز پڑھائی۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ سن۴۲ھ میں اور بعض لوگ ک ہتے ہیں سن۴۰ھ میں ان کی وفات ہوئی اور حضرت حسن بن علی نے ان کی نماز پڑھائی اس قول میں ابو عمر پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)