حبش کے رہنے والے اسود لقب۔ انکا تذکرہ ابو عمر نے کیا ہے اور کہا ہے کہ اسلم حبشی اسود ایک یہودی کے چرواہے تھے اس کی برکایں چرایا کرتے تھے ان کی کیفیت یہ ہے کہ ہمس ے ابو جعفر عبید اللہ ابن احمد ببن علی بن سمیں نے اپنی سند سے ابن اسحاق تک بیان کیا وہ کہتے تھے مجھ سے اسحاق نے بیان کیا کہ ایک چرواہا اسود رسول خدا ﷺ کے حضور میں حاضر ہوا اور آپ اس وقت خیبرکے قلعوں کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور اس چرواہے کے ہمراہ کچھ بکریاں ایک یہودی کی تھیں وہ ان کو اجرت پر چراتا تھا اس چرواہے ن عرض کیا کہ یارسول اللہ مجھے اسلام کی تعلیم دیجیے رسول خدا ﷺ نے اسے تعلیم دی وہ مسلمان ہوگیا اور رسول خدا ﷺکسی شخص کو جو آپ سے اسلامکی خواہش کرتا تھا حقیر نہ سمجھتے تھے الغرض آپ نے اسے اسلام کی تعلیم دی اسود نے عرض کیاکہ میں ان بکریوں کے مالک کا مزدور ہوں اور یہ بکریاں میرے پاس امانت ہیں میں انھیں کیا کروں رسول خدا ﷺ نے فرمایاکہ ان کے منہ پر مار دو یہ اپنے مالک کے پاس لوٹ جائیں گی پس اسد کھڑے ہوگئے اور انھوں نے ایک مٹھی مٹی لے کے ان کے منہ پر مار دی اور کہا کہ (اے بکریو) اپنے مالک کے پاس لوٹ جائو ب میں خدا کی قسم تمہارے ساتھ نہ جائوں گا پس وہ بکریاںلوٹ گئیں (ایسا معلوم ہوتا تھا کہ) گویا کوئی ہانکنے والا انھیں ہانک رہا ہے یہاں تک کہ وہ قلعہ میں داخل ہوگئیں پھر اسود قلعہ کی طرف بڑھے تاکہ مسلمانوںکے ساتھ ہو کیلڑیں کہ ایک پتھر ان کے لگ گی اور وہ شہید ہوگئے اود نے اب تک کوئی نماز نہیںپڑھی تھی پھر رسول خدا ﷺ کے پاس لائے گئے اور آپ کے پیچھے رکھ دیے گئے اور ایکچادر انھیں اڑھا دی گئی جو وہ اوڑھے ہوئے تھے رسول خدا ﷺ ان کی طرف دیکھنے لگے اور آپکے ساتھ آپکے کچھ اصحاب تھے پھر آپ نیجلدی سے منہ پھیر لیا لوگوں نے پوچھا کہ یارسول اللہ ا پنے کیوں منہ پھیر لیا فرمیا کہ ان کے ہمراہ ایک حورعین ہے جو ان کی بی بی ہے۔
ابو موسی نے اسود چرواہے کا تذکرہ ابو عبداللہ (ابن مندہ) پر استدراک کر کے لکھا ہے (یعنی یہ بیانکیا ہے کہ ابن مندہ سے ان کا تذکرہ رہ گیا تھا) ابو موسی نے کہا ہے کہ اسود کا تذکرہ عبدان نے کیا ہے اور اسلم کے نام میں پھر دوبارہ انکا ذکر کیا ہے اسود انکا لقب ہے اور اسلم ان کا نام ہے ابو موسینیعبدان کی سند محمد بن اسحاق تک پہنچائی ہے وہ اپنے والد اسحاق بن یسار سے روایت کرتیہیں کہ اسود چرواہا نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت آپکے خیبرکے بعض قلعوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھے ور اس کے آگے انھوں نیوہی قصہ نقل کیا ہے جو گذر چکا۔ مگر ابو موسیکے ابن مندہ پر استدراک کرنے کی کوئی وجہ نہیں کیوں کہ ابن مندہ نے ان کا تذکرہ لکھا ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ خیبرم یں شہید ہوئے اگرچہ اس بات میں انھیں وہم ہوگیا ہے کہا نھوں نیاسود کی کنیت ابو سلمیبیان کی ہے اور ان سے ایکحدیث روایتکی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابو موسینیچونکہ دیکھا کہ ابو نعیم نے ابن مندہکا وہم بیانکیا ہے اس سے انھوں نے یہ سمجھا کہ یہ پورا تذکرہ غلط ہے حالانکہ صرف بعض باتوںین ان سے غلطی ہوگئی ہے باقی باتیں صحیح ہیں جیسا کہ ہم اس کے بعد کے تذکرہ میں بیان کریں گے۔ واللہ اعلم ان کا تذکرہ ابو عمر اور ابو موسی نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)