کنیت ان کی ابو رافع رسول خدا ﷺکے غلام تھے کنیت ان کی زیادہ مشہور ہے ان کے نام میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے ابن مدینی نے بیان کیا ہے کہ ان کا نام اسلم ہیاور ابن نمیر نے بھی ایسا ہی بیان کیا ہے اور بعض لوگوںنے ان کا نام ہرمز بیان کیا ہے اور بعض لوگوں نے ابراہیم۔ ابراہیم کے نام میں اس کا ذکرہوچکا ہے۔
یہ ایک قبطی غلام تھے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ملک میں انھوں نے نبی ﷺ کو ہبہ کر دیا تھا۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سعید بن عا کے غلام تھے سعید بن عاص کے بعد انک ی بیٹی ان کی وارث ہوئے ان کے آٹھ بیٹے تھے سبھوں نے ان کو آزاد کر دیا سوا خالد کے کہ انھوں نے اپنا حصہ آزاد نہیں کیا تو ان سے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ وہ بھی اپنا حصہ یا تو آزد کر دیں یا آپ کے ہاتھ بیچ ڈالیں یا آپکو ہبہ کر دیں مگر انھوں نے نہیں مانا چند روز کے بعد انھوںنے رسول خدا ﷺ کو ہبہکر دیا آپنے انھیں آزاد کر دیا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ سعید بن عاص کے صرف تین بیٹوںنے انھیں آزاد کیا تھا تو ابو رافع رسول خدا ﷺ کے پاس آئے تاکہ جن لوگوںنے انھیں آزاد نہیں کیا ان سے کچھ سفارش کرائیں چنانچہ رسول خدا ﷺنے ان لوگوں سے ان کے بارے میں کہا ان لوگوں نے آپ کو ہبہ کر دیا آپنے انھیں آزاد کر دیا یہ اختلاف (صحیح نہیں ہے) صحیح یہ ہے کہ یہ نبی ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے انھوںنے نبی ﷺ کو ہبہ کر دیا تھا اور آپ نے انھیں آزاد کیا سی واسطے ابو رافع کہا کرتے تھے کہ میں رسول خدا کا آزاد کردہ غلام ہوں۔ ان کی اولاد میں مدینہ کے اشراف لوگ تھے۔ رسول خدا ﷺ نے ان سے اپنی لونڈی سلمی کا نکاح کر دیا تھا ان سے عبید اللہ بن ابی رافع پیدا ہوئے۔
سلمی۔ حضرت ابراہیم فرزند رسول خدا ﷺ کی قابلہ تھیں آپکے ساتھ جنگ خیبر میں شریک ہوئی تھیں۔ عبید اللہ حضرت علی بن ابی طالبکے عہد میں ان کی خلافت بھر خزانچی اور منشی رہے۔
حضرت ابو رافع جنگ احد اور خندق یں اور ان کے بعد کے غزوات میں شریک ہوئے۔ بدر میں شریک نہیں ہوئے اس لئے کہ یہ اس زمانیمیں مکہ میں تھے۔ ان کا واقعہ ابو لہبکے ساتھ جب کہا سے بدر کی خبر مکہمیں پہنچی مشہور ہے۔ ان سے ان کے دو بیٹے عبید اللہ اور حسن نے اور عطاء بن یسار نے رویت کی ہے ان کی وفات کے وقت میں لوگوںنے ختلاف کیا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عچمان رضی اللہ عنہس ے ہلے ان کی وفات ہوگئی تھی اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میںان کی وفات ہوئی۔ انکا تذکرہ تینوںنے لکھا ہے اور ان کا کچھ حال انشاء الہ کنیت کے باب میں بھی آئے گا۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)