ابن خلف بن عبد یغوث قرشی زہری۔ انکو لوگ جمحی بھی کہتے ہیں ابو عمر نے کہا ہے کہ یہی صحیح ہے ابن مندہ اور ابو نعیم نے کہا ہے کہ یہ زہری میں نبی ﷺ سے ملے تھے۔ ہمیں ابو یاسر ابن ابی حبہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمد بن حنبل تک خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں عبدالرزاق نے خبر دی وہ کہتے تھے م سے ابن جریح نے بیان یا وہ کہتے تھے مجھے عبداللہ بن عثمان بن خثیم نے خبر دی کہ محمد بن اسود بن خلف نے ان سے بیان کیا کہ ان کے والد اسود نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ قرن مصقلہ کے پاس لوگوں سے سلام اور شہادت پر بیعت لے رہے تھے چمان بن خیثم کہتے ہیں میں نے کہا کہ شہادت کیا چیز تو محمد بن اسود بن خلف نے مجھ سے بیان کیا کہ اللہ پر ایمان لانے اور اس بات کی شہادت دینے رپ کہ اللہ کے سوا وئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اپ بیعت لے رہے تھے۔ انھوں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ اولاد آدمی کو بخیل اور نامرد بنا دیتی ہے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
میں کہتا ہوں ابو عمر کا یہ کہنا کہ صحیح یہ ہے کہ وہ قبیلہ جمح سے ہیں محض اس وجہ سے ہے کہ ابو عمر نے چونکہ دیکھا ہ یہ خلف کے بیٹیہیں تو انھوں نے یہ سمجھا کہ یہ قبیلہ جمح سے ہیں جیسے امیہ ور ابی بن خلف بن وہب بن حذافہ بن حمج حالانکہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ اس خلف کے باپ کانام عبد یغوث نہیں ہے اور ابن مندہ اور ابو نعیم نے جو ان کو صرف زہری لکھا اس یں بھی اعتراض ہے یوں کہ عبد مناف بن زہرہ کا صرف ایک بیٹا تھا وہب نام اور وہبکا بیٹا تھا عبد یغوث اور عبد غوث کا بیٹا تھا اسود اور یہ اسود مسخرا پن کرنے والوں میں سے تھا اسلام نہیں لایا اسود صحابی جو قبیلہ زہرہ کے ہیں وہ عوف کے بیٹِ ہیں اور عنقریب ان کا ذکر آئے گا ان کے نسب میں خلف نام کا کوئی شخص نہیں ہے عبد یغوث کسی ا نام ہے اور ان اسود کے نسب میں خلف تک سب کا اتفاق ہے اور شاید ان کے متعلق کوئی ایسی بات ہو جو ہم نے نہ دیکھی ہو ابو احمد عسکری نے ان کا تذکرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اسود بن خلف بن عبد یغوث بن وہب رسول خدا ﷺ کے ماموں تھے حضرت آمنہ والدہ رسول خدا ﷺ کے بھائی انھوں نے آپ کی نبوت کا زمانہ نہیں پایا۔ ان کے بیٹے اسود نبی ﷺ اور مسلمانوںکے ساتھ مسخرا پن کیا کرتے تھے وہ اپنے کفر پر قائم رہے انھوں نے کہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ خلف بن عب یغوث ان اسود صحابی کے بھائی ہیں۔ یہ بیان ہمارے بیان سے قریب ہے واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)