بن جاریہ بن اسید بن عبداللہ بن سلمہ بن عبداللہ بن غیرۃ بن عوف بن ثقیف ثقفی ہیں ان کی کنیت ابوبصیرتھی اوریہ اپنی کنیت کے ساتھ زیادہ مشہورہیں یہ وہی ہیں کہ جو صلح حدیبیہ میں کافروں کے پاس سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھاگ آئے تھے پھر ان کو قریش نے طلب کیاتاکہ ان کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف واپس کردیں کیوں کہ (اس زمانے میں)کفارقریش سے اس بات پرصلح کرلی تھی کہ جوشخص تمھاری طرف سے ادھر آئے گا وہ پھرتمھاری طرف لوٹادیاجائے گا لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیرکو دوکافروں کی ہمراہی میں واپس کردیا انھوں نے اثناء راہ میں ایک کافرکوقتل کرڈالا اوردوسرا(یہ دیکھ کر)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھاگ آیااورابوبصیر نے بھی آپ کے پاس حاضرہوکرعرض کیایارسول اللہ آپ کاعہد پورا ہوگیااورخدانے آپ سے (وفاء عہدکابار)اتار دیامیں نے اپنی ذات کومشرکوں سے بچایا تھاتاکہ مجھ کو میرے دین کی بابت فتنے میں نہ ڈالیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے صحابہ سے مخاطب ہوکر) فرمایا اس کی ماں کی خرابی ہو یہ شخص (آتش)حرب کا روشن کرنے والاہے اگراس کےپاس کچھ لوگ ہوتے (تویہ بغیرلڑائی کئے ہوئے نہ مانتا)اس گفتگوسے ابوبصیرسمجھ گئے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مشرکوں کی طرف پھرواپس کردیں گے پس یہ سمندرکے کنارے چلے گئے اورجتنے مسلمان مشرکوں کے پاس سے بھاگ کرآئے تھے ان کے پاس جمع ہوگئے اوروہاں انھوں نے قریش کاناک میں دم کردیااوران کے قافلے لوٹ لیے(اورآدمی مارڈالے)پس کفارنے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خط لکھا(کہ ان لوگوں کو آپ مدینہ میں بلالیجیے)لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیرکے سواان سب کومدینہ میں بلالیاکیوں کہ ان کی وفات ہوچکی تھی ہم انشاء اللہ تعالیٰ باب الکنیت میں ان کا حال یہاں سے زیادہ بیان کریں گے ان کاتذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)