سیدنا) اوس (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) اوس (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن حذیفہ بن ربیعہ بن ابی سلمہ بن غیرۃ بن عوف ثقفی یہ اوس ابن ابی اوس کے بیٹیہیں۔ بخاری نے کہا ہے کہ اوس بن حذیفہ بیٹے ہیں ابوعمرو بن عمرو بن وہب بن عامر بن یسار بن مالک بن حطیط بن جشم ثقفی کے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ ان سے ان کے بیٹے نے اور عثمان بن عبداللہ نے اور عبدالملک بن مغیرہ نے روایت کی ہے۔ محمد بن سعد واقدی نے بیان کیا ہے ہ جو صحابہ طائف میں آکے رہے تھے ان میں اوس بن حذیفہ بھی تھے یہ ثقیف کے وفد میں تھے۔ انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے یہ تمام بیان ابن مندہ کا ے۔ اور ابو مر نے کہا ہے ہ اوس بن حذیفہ ثقفی ان کو لوگ اوس ابن ابی اوس بھی کہتے ہیں ابو اوس کا نام حذیفہ تھا۔ اور خلیفہ بن خیاط نے کہا ہے کہ ان کا نام
اوس بن اوس بھی ہے اور اوس بن ابی اوس بھی ہے ابو اوس کا نام حذیفہ ہے۔ ابو عمر نے لکھا ہے کہ یہ اوس عچمان بن عبداللہ بن اوس کے دادا یں۔ اوس بن حذیفہ کی روایت کی ہوئی بہت سی حدیثیں ہیں منجملہ ان کے پیروں پر مسح کرنے کی حدیث ہے مگر اس کی سند میں ضعف ہے۔ وار یہ قبیلہ بنی مالک کے اس وفد میں تھے جو رسول خدا ھ کے حضور میں حاضر ہوا تھا آپ نے ان لوگوں کو اس قبر میں اتارا تھا جو مسجد مقدس اور آپ کے گھر کے درمیان میں تھا اور آپ بعد نماز عشاء کے ان کے پاس جایا کرتے تھے اور ان سے باتیں کیا کرتے تھے ابن معین نے بیان کیا ہے ہ اس حدیث کی اسناد اچھی ہے اور تحزیب قرآن کے بارے میں ان کی حدیث نبی ﷺ سے صحیح نہیں ہے یہ کلام ابو عمر کا تھا انھوںنے وس بن حذیفہ ہی کو اوس بن ابی اوس قرار دیا ہے پھر میں نہیں جانتا کہ انھوں نے ان کو دو تذکروں میں کیوں لکھا جب کہ یہ دونوں ان کے نزدیک ایک ہیں مگر ابو نعیم نے بیان کیا ہے جیسا شروع تذکرہ میں گذر چکا اور انھوں نے وہ حدیث بھی روایت کی ہے جو ہم سے ابو الفضل عبداللہ خطیب نے اپنی اسناد سے ابو دائود طیالسی تک بیان ی وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن عبدالرحمن طائفی نے عثمان بن عبداللہ بن اوس ثقفی سے انھوں نے اپنے دادا اوس بن حذیفہ سے روایت کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے ہم قبیلہ ثقیف کے لوگ رسول خدا ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے تو اخلافی لوگ تو مغیرہ بن شعبہ کے یہاں اترے اور مالکی لوگوں کو آپ نے اپنے قبہ میں اتارا اور رسول خدا ﷺ بعد نماز عشاء کے ہامرے پاس تشریف لایا کرتے تھے اور ہمس ے باتیں کیا کرتے تھے زیادہ دیر تک کھڑے رہنے کے سبب سے آپ اپنے پیروں کو بدلتے تھے یعنی کبھی اس پیر کے بل کھڑے ہوتے تھے کبھی اس پیر کے بل پر اکثر آپ ہمس ے قریش کی شکایت کیا کرتے تھے فرماتے تھے کہ ہم مکہ میں ذلیل اور کمزور تھے پھر جب ہم مدینہ میں آئے تو م نے لوگوں سے انتقال لے لیا اب لڑائی کا ڈول کبھی ہمارے موافق ہوتاہے ور کبھی ہمارے خلاف۔ ایک شبکو رسول خدا ﷺ جس وقت تشریف لایا کرتے تھے اس وقت تشریف نہیں لائے بلہک اس کے بعد تشریف لائے تو ہم لوگوںنے عرض کیا کہ یارسول الہ آج آپ کو اس وقت سے دیر ہوگئی جس وقت آپ تشریف لایا کرتے تھے تو رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت مجھے قرآن کا ورد جو میرا معمول ہے پڑھنا تھا لہذا میں نے چاہا کہ اس کو تمام کر کے آئوں۔ پھر ہم نے صبح کو رسول خدا ﷺ کے اصہاب سیقرآن کے ورد کی بابت پوچھا کہ آپ لوگ کس کس قدر پڑھتے ہیں انھوں نے کہا کہ تین دن میں بھی ختمکر دیتے ہیں اور کبھی پانچ دن میں کبھی سات دن میں کبھی نو دن میں کبھی گیارہ دن میں کبھی تیرہ دن میں کبھی مفصل کی ایک ایک سورت پڑھ لیتے ہیں۔ ابو نعیم نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو بعض متاخرین نے عثمان بن عبداللہ سے انھوں نے اپنے والد سے انوں نے ان کے ددا اوس بن حذافہ سے رویت کیا ہے اس میں ان سے تین وہم ہوگئے یں ایک یہ کہ انھوں نے س میں ان کے باپ کا واسطہ بڑھا دیا دوسرے یہ کہ حذیفہ نام کو حذافہ کر دیا تیسرے یہ کہ انھوں نے تذکرہ قائم کیا تھا اوس بن عوف کا اور حدیث روایتک ی اوس بن حذافہ سے۔ مقتدمیں نے ان اوس ثقفی کے بارے ین ختلف کیا ہے بعض نے کہا ہے کہ ان کا نام اوس بن ابی اوس ہے انھوںنے ان کے باپ کی کنیت بیان کی اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ان کا نام اوس بن اوس ہے۔ مگر اوس بن ابی اوس ثقفی اور بعض لوگ کہتے ہیں اوس بن اوس تو ان سے شامیوں نے رویتکی ہے اور ان کا شمار نھیں لوگوں میں ہ ان سے ابو اشعث صنعانی نے جو صنعاء دمشق کے رہنے والے ہیں اور ابو اسماء رجی نے اور عبادہ بن نسی نے اور ابن محیریز نے اور مرثد بن عبداللہ یزنی نے اور عبدالملک بن مغیرہ طائفی نے رویت کی ہے۔ ان سے ابو الاشعث نے نہلانے
اور نہانے کی حدیث رویت کی ہے۔ ابو نعیم نے لکھا ہے کہ سن۵۹ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ یہ ابو نعیم کا بیان تھا۔ انھوں نے اوس بن ابی ثقفی کو اور اوس بن حذیفہ کو ایک کر دیا ہے اور ان سے راوی ابو الاشعث کو قرار دیا ہے اور ان کو شامی لکھا ہے مگر محمد بن سعد نے بیان کیا کہ اوس بن حذیفہ ثقفی طائف میں رہتے تھے لہذا س بنا پر یہ وہ نہ ہوں گے وہ شام میں رہتے تھے وار ان سے شامیوں نے رویتکی ہے ابو نعیمنے حمد بن سعد سے روایت کی ہے ہ جو شخص طائف میں رہتے تھے وہ اوس بن عوف ثقفی ہیں ور وہی اوس ابن حذیفہ بھی ہیں اگر دادا کی طرف منسوب کر دیے جائیں مگر ابن مندہ نے محمد بن سعد سے صرف اوس بن حذیفہ نقل کیا ہے اوس ابن عوف کو نقل نہیں کیا ابو نعیم کے پاس اس امر کی کوئی دلیل نہیں ہے جو وہ تینوںکو یعنی اوس بن حزیفہ کو اور اوس بن ابی اوس کو اور اوس بن عوف کو ایک سمجھتے ہیں۔ ابو عمر نے ان کو تین شخص قرار دیاہے اور تینوںکا تذکرہ علیہدہ علیحدہ لکھا ہے اور ابن مندہ نے تینوں کو ثقفی قرار دیا ہے اوس بن اوس کو اور اوس بن حذیفہ کو اور اوس بن عوف کو اور اوس بن عوف کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ سن ۵۹ھ میں ان کی وفات ہوئی جیسا کہ ابو نعیم نے اوس بن حذیفہ کے بیان میں لکھا ہے سے ابو نعیم کے قول کی تائی دہوتی ہے ہ وہ دونوں ایک ہیں اور بخاری نے بھی ان تینوںکو ایک کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اوس بن حذیفہ ثقفی والد ہیں عمرو بن اوس کے اور بعض لوگ ان کو اوس بن ابی اوس بھی کہتے ہیں اور بعض لوگ ان کو اوس بن اوس بھی کہتیہیں یہ انھیں کے الفاظ تھے اور ان سے ابن مندہ نے اوس بن اوس کے تذکر یں نقل کیا ہے کہ انھوں نے ان تینوںکو ایک کر دیا ہے مگر ہم نے تاریخ بخاری سے وہی نقل کیا ہے جو ہم بیان کرچکے ھپر معلوم نہیں کہ انھوں نے یہ مفعون بخری سے کس طرح نقل کیا۔ امام احمد بن حنبل نے اوس بن ابی اوس کو اور اوس بن حذیفہ کو ایک کر دیا ہے اور اپنے سند میں لکھا ہے ہ اوس بن ابی اوس ثقفی وہی اوس بن حذیفہ یں م سے عبدالوہاب بن ہبۃ اللہ بنبن ابی حبہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمدتک بیان کیا وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمس ے ہشیم نے یعلی بن عطاء سے انھوں نے اپنے والد ے انھوںنے اوس بن ابی اوس ثقفی سے رویت کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے میں نے رسول خدا ﷺ کو دیکھا کہ آپ ایک قوم کے چشمہ پر پہنچے اور آپنے وضو فرمایا واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)